تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     13-04-2015

حکومت ڈٹ جائے !

آپ سے اگر پوچھا جائے کہ اس ملک میں سب سے زیادہ طاقتور طبقہ کون سا ہے تو آپ کیا جواب دیں گے؟ 
آپ کا فوری جواب ہوگا، فوج۔ لیکن طاقت ور طبقہ تو وہ ہوتا ہے جس کا کوئی بال بیکا نہ کر سکے۔ یہاں تو جنرل پرویز مشرف مقدموں پر مقدمے بھگت رہے ہیں۔ جنرل مرزا اسلم بیگ بارہا عدالتوں میں پیش ہوکر فیصلے سن چکے۔ ایوب خان سے لے کر ضیاء الحق تک کے خلاف کتابوں کی کتابیں لکھی جا چکیں۔ فوج کا اندرونی نظام ایسا ہے کہ کوئی جرم کرکے بچ ہی نہیں سکتا۔ 
تو پھر سیاست دان؟ نہیں! وہ تو پھانسی بھی چڑھ چکے۔ نوازشریف سے لے کر یوسف رضا گیلانی تک‘ شیخ رشید سے لے کر جاوید ہاشمی تک‘ سب قیدوبند کی صعوبتیں سہتے رہے۔ سیاستدان جلاوطن ہوئے۔ میڈیا نے ہر سیاست دان پرکیمرے فکس کیے ہوئے ہیں۔ 
تو پھر بیوروکریسی طاقتور ترین ہے؟ بالکل نہیں۔ یحییٰ خان اور بھٹو نے سیکڑوںکو برطرف کردیا۔ نیب نے کئی افسروںکو سلاخوں کے پیچھے بندکیا۔ آئے دن عدالتوں میں بیوروکریٹ دھکے کھا رہے ہوتے ہیں۔ محمد علی نیکوکارا کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ آپ کے سامنے ہے۔ قانونی تحفظ انہیں حاصل نہیں۔ جو حکومت آتی ہے‘ انہیں ذاتی ملازم سمجھ کر الٹے سیدھے کام کراتی ہے۔ دیانتدار بیوروکریٹ کی زندگی تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے۔ 
طاقتور صرف اُس گروہ کو کہا جا سکتا ہے جو قانون سے ماورا ہو اور فوج سے لے کر سول حکومت تک، پولیس سے لے کر نیب تک ‘ بیوروکریسی سے لے کر ادنیٰ سرکاری اہلکار تک کوئی اس کا کچھ نہ بگاڑ سکے۔
پانچ دن پہلے یعنی آٹھ اپریل کو کابینہ کمیٹی برائے توانائی کا اجلاس منعقد ہوا، وزیراعظم پاکستان نے اجلاس کی صدارت کی۔ فیصلہ کیا گیا کہ اسلام آباد میں شادی کی تقریبات رات دس بجے تک ختم کردی جائیں، دکانیں آٹھ بجے بند کر دی جائیں اور ریستوران گیارہ بجے کے بعدکاروبار نہ کریں۔ 
آپ کا کیا خیال ہے کہ اس فیصلے میںکیا چیز ناروا ہے اورکون سا ظلم ہوا ہے؟ ساری مہذب دنیا میں بازار صبح نو بجے کھلتے ہیں اور پانچ یا زیادہ سے زیادہ چھ بجے شام بند ہو جاتے ہیں۔ لوگ سات بجے رات کا کھانا کھاتے ہیں اور سو جاتے ہیں۔ یہی اصول‘ جس پر سارا مغرب کاربند ہے‘ اسلام نے بھی بتایا ہے۔ ہمارے مذہبی رہنمائوں نے ہمیشہ یہی تلقین کی ہے کہ عشاء کے بعدگپ شپ اور دیر سے سونا درست نہیں ہے سوائے اس کے کہ مہمان سے بات چیت کی جائے یا بیوی سے۔ اس کی وجہ صرف یہ نہیں کہ صبح کی نماز یا تہجد کی عبادت متاثر ہوتی ہے بلکہ اس لیے بھی کہ نیند پوری نہ ہونے سے دن کوکاہلی غالب آتی ہے اوردنیاوی فرائض اور کاروبار بھی متاثر ہوتا ہے۔ 
تاجر برادری نے اس پر قیامتِ صغریٰ برپا کر لی ہے۔ وہ چیخ و پکار ہو رہی ہے کہ کان پڑی آواز سنائی نہیں دیتی۔ بس یوں سمجھیے کہ نوحہ خوانی کی کسر رہ گئی ہے۔ حکومت کے فیصلے کو جوتے کی نوک پر رکھتے ہوئے دارالحکومت کے تاجروں نے قانون کی دھجیاں اڑائیں... باقاعدہ للکارا گیا کہ ''شٹر ڈائون کبھی نہیں ہو سکتا‘‘۔ حکومت کو یہ دھمکی بھی دی گئی کہ ''جب تک حکومت تاجر برادری کو پوری طرح اعتماد میں لے کر فیصلے نہیں کرے گی، اسلام آباد کی تمام مارکیٹیں رات آٹھ بجے کے بعد بھی حسب معمول کھلی رہیں گی۔ اگر حکومت نے فیصلہ واپس نہ لیا یا زبردستی مارکیٹیں بند کرانے کی کوشش کی تو تاجر برادری تمام شہرکو مفلوج کر سکتی ہے‘‘۔ 
اب دلائل سنیے جو تاجر برادری اس فیصلے کے خلاف پیش کر رہی ہے: 
O حکومت نے تاجر برادری کو فیصلہ کرتے وقت اعتماد میں نہیں لیا۔ 
O حکومتی فیصلہ ناانصافی پر مبنی ہے۔ 
O پورے ملک میں اس قانون کا اطلاق کیوں نہیں کیا جا رہا؟ 
O بجلی کا بحران پورے ملک کا مسئلہ ہے‘ پورے ملک میں ایک پالیسی اپنائی جائے۔ 
O تاجر برادری میٹرو بس منصوبے کی وجہ سے پہلے ہی کساد بازاری کا شکار ہے۔ 
تاجروںکو''اعتماد میں نہ لینے‘‘ کا مطلب واضح ہے کہ حکومت تاجروں سے پوچھے ، ''جہاں پناہ ! آپ اجازت دیں تو فلاں قانون بنا دیا جائے‘‘۔ تاجر برادری جواب میں کہے کہ ہرگز نہیں! رہا ناانصافی کا معاملہ تو اگر پوری دنیا میں ایسا ہو رہا ہے توکیا پوری دنیا میں ناانصافی ہو رہی ہے؟ اور اگر میٹرو منصوبے سے پیدا ہونے والی کساد بازاری کا حل رات کوکاروبارکرنا ہے تو پھر رات بھر۔۔۔۔۔ صبح کے پانچ چھ بجے تک کاروبارکرکے نقصان پورا کر لیجیے! 
آج تک تاجر برادری اس سوال کا جواب نہیں دے سکی کہ بازار دن کو بارہ بجے کیوں کھولے جاتے ہیں؟ کس ترقی یافتہ ملک میں ایسا ہوتا ہے؟ اس مسئلے کا لوڈشیڈنگ سے کوئی تعلق نہیں! کیا آسٹریلیا سے لے کرکینیڈا تک‘ جہاں بازار سرِ شام بند ہو جاتے ہیں‘ لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے؟ کہیں بھی نہیں! 
حقیقت یہ ہے کہ تاجروں، دکانداروں کا طبقہ ملک میں طاقتور ترین طبقہ ہے۔ ان پرکسی اخلاقی‘ شرعی‘ ملکی اور بین الاقوامی قانون کا اطلاق نہیں ہو رہا۔ انتہا یہ دھمکی ہے کہ ''تاجر برادری تمام شہرکو مفلوج کر سکتی ہے‘‘۔ گویا شہر میں تاجر برادری کے علاوہ اورکوئی رہتا ہے نہ کسی کے حقوق ہیں۔ 
ان حضرات پر ٹیکس نافذ کیا جائے تو انہیں یاد آ جاتا ہے کہ ٹیکس سے اکٹھا ہونے والا روپیہ درست استعمال نہیں ہو رہا۔ قومی خزانے کو غلط استعمال کرنے والوں کا ووٹ بینک یہ تاجر خود ہی ہیں! رشوت لینے والا جہنمی ہے اور دینے والے کون ہیں؟ محکمہ ٹیکس کے اہلکاروں کو رشوت لینا سکھاتا کون ہے؟ دہرے دہرے رجسٹرکس نے بنائے ہوئے ہیں؟ خریداری کے بعد رسید مانگی جائے تو غصے سے ان کا چہرہ سیاہ ہو جاتا ہے اورگاہک کی بے عزتی کرنے سے بھی باز نہیں آتے۔ تکیہ کلام ان کا یہ ہے کہ لے لیجیے‘ گارنٹی ہے۔گارنٹی لکھنے کا کہا جائے تو موت پڑ جاتی ہے۔ ''خریدا ہوا مال واپس یا تبدیل نہ ہوگا‘‘ جیسے وحشیانہ بورڈ صرف اس ملک کی دکانوں ہی میں دیکھے جا سکتے ہیں۔ شادی کے ملبوسات تیارکرنے والے تاجر خواتین کا اتنا استحصال کرتے ہیں کہ بیان سے باہر ہے۔ پچانوے فیصد تاجر جھوٹے وعدے کرتے ہیں کہ فلاں تاریخ کو ملبوسات تیار ہوں گے۔ خواتین لینے آتی ہیں تو فرعونی لہجے میں بتایا جاتا ہے کہ اب فلاں تاریخ کو آیئے۔ متشرع لوگوں کی ان میںکثیر تعداد ہے لیکن ملاوٹ اور جعل سازی ملک میں عروج پر ہے۔ کم تولنے اور ماپنے کو تو چھوڑ ہی دیجیے‘ شیمپو سے لے کر ادویات تک، خوراک سے لے کر دودھ تک سنگدلی سے ملاوٹ والا مال بیچا جا رہا ہے۔ ناروا تجاوزات ان کی آمدنی کو ناجائزکر رہے ہیں، لیکن ان کا خیال یہ ہے کہ نمازیں اور عمرے ناجائز آمدنی کو جائزکر دیںگے۔ ان ظالم تاجروں نے اپنی دکانوں کے سامنے اس خالی جگہ پر جو حکومت نے پارکنگ کے لیے بنائی تھی‘ سٹال لگوائے ہوئے ہیں۔ سٹالوں والے انہیں ماہانہ بھتہ دیتے ہیں۔ ترقیاتی ادارے کے کرپٹ اہلکار اس گھنائونے کاروبار میں برابرکے شریک ہیں۔ مسجدیں نجی شعبے کی ملکیت میں ہیں‘ عوام کوکون بتائے کہ تجاوزات سے آمدنی حرام کی آمدنی ہو جاتی ہے اور ملاوٹ سے جو انسان ہلاک ہو رہے ہیں‘ ان کے قاتلوں کو دکانوں کے باہر لگے ہوئے وہ بورڈ نہیں بچا سکیں گے جن پر درود شریف اور قرآنی آیات لکھی ہوئی ہیں!
میاں نوازشریف پر الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ تاجر برادری سے رعایت برتتے ہیں۔ آٹھ بجے کاروبار بند کرانے کا قانون حکومت کے لیے ٹیسٹ کیس ہے اور یہ الزام غلط کرنے کا سنہری موقع ہے۔ حکومت سے التماس ہے کہ ڈٹ جائے۔ میڈیا سے استدعا ہے کہ اس معاملے میں حکومت کی حمایت کرے اور تاجروں کی دھاندلی اور بلیک میلنگ سے عوام کو آگاہ کرے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved