امریکہ سے ایک ارب ڈالر کا اسلحہ خریدنے کی خبر پر بہت کم لوگوں نے توجہ دی ہوگی۔جمود کے اس عہد میں حکمرانوں کی سیاست اور ریاست سے عوام کی اکثریت لاتعلق ہے۔ اس ڈیل نے ''جذبہ حب الوطنی‘‘ کو ابھارا ہے نہ ہی میڈیا کوئی ''جوش و جذبہ‘‘ پیدا کرنے میں کامیاب رہا؛ تاہم یہ سوال اٹھانے والے بھی کم ہی تھے کہ بے قابو ہوتے ہوئے ریاستی قرضے، تباہ حال معیشت اور بدحال عوام کے مسائل سو ارب روپے کے ان ہتھیاروں سے کیونکر حل ہو سکیں گے؟ ایک بے قاعدہ باقاعدگی سے خود کش حملوں اور دہشت گردی کا سلسلہ جاری ہے۔ اب یہ جدید اور مہنگے ہتھیار اس جنگ کا توازن تبدیل کرنے میں کیا کردار ادا کر پائیں گے؟ صورتحال کی طرح اس سوال کا جواب بھی مبہم اور مایوس کن ہی ہے۔
حالیہ معاہدے کے تحت پندرہ AH-1Zلڑاکا ہیلی کاپٹر اور ایک ہزار AGM-114Rہیل فائر میزائل مع متعلقہ ساز و سامان، تربیت اور تکنیکی معاونت کے خریدے جائیں گے جن کی مجموعی مالیت 952ملین ڈالر ہے۔32ہیلی کاپٹر انجن، 36مشن کمپیوٹر، 32ڈسپلے سکرین ہیلمٹ، 17جدید میزائل وارننگ سسٹم وغیرہ بھی پیکج میں شامل ہیں۔ یہ اسلحہ بیل کاپٹر، ٹیکسٹرون، بوئنگ، جنرل الیکٹرک اور لوک ہیڈ مارٹن سے خریدا جارہا ہے جن کا شمار دنیا کی بڑی اسلحہ ساز کمپنیوں میں ہوتا ہے۔
داخلی انتشار، دہشت گردی، جرائم، تشدداور بدعنوانی کے شکار اس ملک کے بجٹ میں دفاع کے لیے 700ارب روپے مختص کیے گئے تھے جبکہ 34سال میںبیرونی دشمن کے ساتھ کوئی بڑی جنگ نہیں ہوئی۔ اس کے بر عکس داخلی سکیورٹی اور پولیس کے لئے صرف 80ارب روپے مختص کیے گئے، ہر چوک پر منہ سونگھنے اور جامہ تلاشی لے کر رسوا کرنے کے لئے شاید اتنا ہی بجٹ درکار ہوتا ہے۔ اگلے کچھ ہفتوں میں چین سے آب دوزیں بھی خریدی جارہی ہیں جن کی مالیت 5سے 7سو ارب روپے ہے۔ صحت اور تعلیم پر پاکستان کے ریاستی اخراجات دنیا میں کم ترین ہیں۔ بھارت میں بھی صورتحال مختلف نہیں ہے لیکن دونوں اسلحے کی دوڑ میں پیسہ پانی کی طرح بہا رہی ہیں۔
بھارت اگلے دس سال میں اپنی ''دفاعی صلاحیت‘‘ کو جدید بنانے کے لئے 100ارب ڈالر خرچ کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔ڈالر کے مقابلے میں بھارتی روپے کی قدر گر کر 62روپے فی ڈالر تک پہنچ گئی ہے جس کے پیش نظر دفاعی اخراجات بھی مسلسل بڑھائے جارہے ہیں۔ ہتھیاروں کی عالمی قیمتوں میں سالانہ افراط زر کی شرح 12سے 15فیصد ہے۔ 25اکتوبر 2014ء کو جاری ہونے والے ''بھارتی ڈیفنس اکویزیشن کونسل‘‘ کے بیان کے مطابق اسلحہ سازی کے 13ارب ڈالر کے منصوبے منظور کیے گئے ہیں۔ کونسل نے فیصلہ کیا ہے کہ 50ہزار کروڑ روپے کی لاگت سے چھ آبدوزیں ملک میں تیار کی جائیں گی۔ علاوہ ازیں آٹھ ہزار سے زائد اینٹی ٹینک میزائل اسرائیل سے 32سو کروڑکے عوض خریدے جائیں گے۔662کروڑ کی ساڑھے تین سو بکتر بند گاڑیوں اور ''ہندوستان ایروناٹکس لمیٹڈ‘‘ سے 18سو کروڑ کے 12جاسوس طیاروں کی خریداری بھی منصوبے میں شامل ہے۔
اس دنیا میں جہاں اربوں لوگ بھوک اور غربت کا شکار ہیں، جوہری طاقتیں 300ملین ڈالر روزانہ صرف اپنی نیوکلیئر فورسز پر خرچ کرتی ہیں۔ ایٹمی ہتھیاروں کی پیداوار اور جدت پر آنے والے اخراجات عوام کی تعلیم، صحت اور دوسرے سماجی شعبوں کا بجٹ بھی چوس لیتے ہیں۔ عالمی سطح پر 12ملین ڈالر فی گھنٹہ ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کیے جاتے ہیں۔ 2010ء میں بھارت نے 4.9ارب ڈالر اور اسرائیل نے 1.9ارب ڈالر ایٹمی ہتھیاروں پر خرچ کیے۔ یہ اعداد و شمار انتہائی محتاط ہیں اور حقیقی اخراجات کی صرف ایک جھلک دکھاتے ہیں کیونکہ خفیہ منصوبوں پر آنے والے اخراجات کو انتہائی خفیہ بھی رکھا جاتا ہے یا دوسرے کھاتوں میں ڈال دیا جاتا ہے۔ اسی طرح اسلحے کی خریدو فروخت کے معاہدوں میں بھی اربوں ڈالر رشوت یا ''کک بیکس‘‘ (قانونی رشوت) کی نذر ہو کر آف شور بینکوں میں پہنچ جاتے ہیں۔ ان ٹیکس ہیونز کا مقصد ہی دنیا بھر میں حکمران طبقے اور ریاستی اہلکاروں کی لوٹ مار کو چھپانا اور محفوظ بنانا ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق اس رقم کا آدھا حصہ بھی عوام پر خرچ کیا جائے تو صرف پانچ سالوں میں دنیا بھر سے غربت کا خاتمہ ہوسکتا ہے۔ برصغیر میں دنیا کی 22فیصد آبادی رہتی ہے لیکن دنیا کی آدھی بھوک یہاں پلتی ہے۔ 2008ء کے مالیاتی کریش کے بعد مغربی ممالک میں آسٹریٹی کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں ایک تحریر بہت واضح نظر آئی: ''کیا وجہ ہے کہ ریاست کے پاس جنگ کے لئے تو ہمیشہ پیسے ہوتے ہیں لیکن تعلیم کے لئے نہیں؟‘‘
2010ء میں افریقہ کو ملنے والی کل ترقیاتی امداد سے دوگنا اور 16کروڑ نفوس پر مشتمل بنگلہ دیش کے جی ڈی پی کے مساوی اخراجات جوہری ہتھیاروں پر کیے گئے۔ ایٹمی ہتھیاروں کے انسداد کے لئے کام کرنے والے اقوام متحدہ کے ادارے کا سالانہ بجٹ 10ملین ڈالر ہے جو کہ ایٹمی ہتھیاروں پر فی گھنٹہ خرچ ہونے والی رقم سے بھی کم ہے۔ جوہری منصوبوں کے اخراجات گزشتہ پانچ سالوں میں تیزی سے بڑھے ہیں۔ اقوام متحدہ کی ہی ایک رپورٹ کے مطابق ''سرد جنگ کے اختتام پر امن کی امید قائم ہوئی تھی لیکن آج بیس ہزار نیوکلیئر وار ہیڈ دنیا بھر میں موجود ہیں۔ ان میں سے بیشتر صرف ایک بٹن دبا کر چلانے کے لئے تیار ہیں اور نسل انسان کا وجود خطرے میں ہے۔‘‘
پاکستان اور بھارت کے حکمرانوں کا مسئلہ ہے کہ وہ کھلی جنگ لڑ سکتے ہیں نہ دیرپا امن قائم کرسکتے ہیں۔ لہٰذا پچھلے تیس سالوں میں ''جنگی صورتحال‘‘ اور ''امن مذاکرات کے لئے مذاکرات‘‘ کا سلسلہ متواتر جاری رہاہے۔ غربت، استحصال اور جبرمیں امن بھلا کیسے قائم ہوسکتا ہے؟دونوں طرف سے ''غربت کے خاتمے کا عزم‘‘ ظاہر کیا جاتا ہے اور ساتھ ہی ''دفاع‘‘ کے نام پر اسلحہ سازی کے اخراجات بھی بڑھا دئیے جاتے ہیں۔ دونوں کا شمار غریب ترین ممالک کے ساتھ ساتھ اسلحے کے دس بڑے خریدار ممالک میں بھی ہوتا ہے۔ دونوں طرف عوام غریب تر جبکہ حکمران امیر سے امیر تر ہورہے ہیں۔
امریکہ، روس، چین اور یورپ جیسے اسلحے کے بڑے برآمدکنندگان بھی جنوبی ایشیا کے معاملے میں ایسے ہی تذبذب کا شکار ہیں۔ ایک طرف یہ سامراجی قوتیں اس خطے میں کھلی جنگ نہیں چاہتیں کیونکہ اس سے ان کی اپنی سرمایہ کاری،اسٹریٹجک مفادات اور لوٹ مار کو خطرہ لاحق ہے‘ لیکن دیرپا اور دور رس امن بھی ان کے فائدے میں نہیں کیونکہ ان کی اسلحہ ساز صنعت کے منافعوں پر ضرب لگے گی۔ امریکی کانگریس سے لے کر چین کی ''کمیونسٹ پارٹی‘‘ کے پولٹ بیورو تک، اسلحہ ساز کمپنیوں اور کارپوریٹ اجارہ داریوں کے سیاسی ایجنٹ ہی سامراجی پالیسیوں کا تعین کرتے ہیں۔
کشمیر سے لے کر سرکریک تک، منافع کی ہوس پر مبنی اس استحصالی نظام کی سفارت کوئی ایک تنازعہ بھی حل کرنے سے قاصر ہے۔ دونوں ممالک کے عوام سسک رہے ہیں مگر عوام کا خون پسینہ جن ہتھیاروں پر لگایا جارہاہے ان کے چلنے کے امکانات نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کا مقصد صرف قوم پرستی اور مذہبی تعصب کو ہوا دے کر عوامی بغاوت اور طبقاتی تضادات کو زائل کرنا ہے۔ لیکن ایٹمی ہتھیاروں کے باوجودبڑی جنگ خارج از امکان نہیں ہے۔ سرمائے کی ہوس میں اندھے یہ حکمران خاصے جاہل بھی ہیں۔ جنوب ایشیا کے محنت کش عوام اور نوجوان ہی انقلاب برپا کر کے اس نظام کو اکھاڑ سکتے ہیں جو محرومی اور غربت کے زخموں پر جنگی جنون اور مہنگے ہتھیاروں کی نمک پاشی کر رہا ہے۔