متحدہ عرب امارات کے وزیر خارجہ کا سراسر دھمکی آمیز بیان حیران کن بھی ہے اور افسوسناک بھی۔ ہماری وزارت خارجہ نے اس پر اپنا کوئی ردعمل یہ کہتے ہوئے ظاہر نہیں کیا کہ ابھی سرکاری سطح پر اس کی تصدیق ہونا باقی ہے البتہ وزارت خارجہ اس پر تشویش میں ضرور مبتلا ہے اور اس سلسلے میں اجلاس منعقد کر کے اس پر غوروخوض بھی شروع کردیا گیا ہے نیز وزیراعظم بھی ایک خصوصی اجلاس کے ذریعے اس کا جائزہ لے رہے ہیں۔ پہلے تو یہ کہا گیا کہ یہ ایک وزیر مملکت کا بیان ہے اس لیے اس پر کوئی باقاعدہ ردعمل ظاہر نہیں کیا جا سکتا جبکہ اب یہ مغالطہ بھی رفع ہو گیا ہے کہ اس کے مصنف خود وزیر خارجہ ہیں۔ اگرچہ اس ناراضگی کی کچھ ذاتی وجوہ بھی بیان کی جاتی ہیں مثلاً پاکستان میں شکار کے لیے پرمٹ جاری نہ ہونا اور قطر کے ساتھ حکومت پاکستان کا خصوصی رویہ اور تعلقات‘ جس کے ساتھ عرب ممالک کے تعلقات میں حالیہ تنائو آیا ہے۔ علاوہ ازیں پاکستان کی طرف سے ایکسپو 2020 ء کی میزبانی کے لیے ووٹ نہ دینا‘ جس پر پاکستان کو غیر حقیقت پسند ساتھی کے طور پر دیکھا گیا‘ جبکہ نومبر 2013ء میں امارات کے وزیر خارجہ کے دورۂ پاکستان کے دوران ان تلخیوں کو دور کرنے کا مطالبہ بھی کیا گیا تھا۔ سب سے پہلے تو اس بات کی وضاحت ضروری تھی کہ آیا یہ بیان تنہا عرب امارات کی جانب سے دیا گیا ہے یا اس میں سعودی حکومت کی ایما بھی شامل ہے؛ تاہم سعودی حکومت نے خود اس کی وضاحت کرنا تاحال ضروری نہیں سمجھا۔
واضح رہے کہ نہ تو اس بیان میں سعودی عرب کی جغرافیائی سلامتی کو کسی ممکنہ خطرے کی طرف اشارہ کیا گیا ہے اور نہ ہی سعودی مطالبات میں اس خدشے کا کوئی ذکر موجود تھا۔ چنانچہ پاکستانی پارلیمنٹ کی متفقہ رائے کو مبہم‘ ناکافی اور ایک مخالفانہ کارروائی قرار دیا گیا ہے اور برملا کہا گیا ہے کہ ترکی اور پاکستان کو عرب دنیا سے بڑھ کر ایران زیادہ عزیز ہے جبکہ ترکی اور پاکستان کی طرف سے صلح صفائی کی کوششوں کو بھی کوئی اہمیت نہیں دی گئی۔ اور اس بیان کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ پاکستان اس جنگ میں براہِ راست اور پوری قوت کے ساتھ شریک ہو اور جس کی توقع بھی کی جا رہی تھی۔
اگر اس دھمکی آمیز بیان کو سعودی حکومت کی آشیرباد بھی حاصل ہے تو اس معاملے سے نمٹنا وزارتِ خارجہ کی فہم و فراست اور اہلیت کا سخت ترین امتحان ہوگا کیونکہ اگر یہ امارات کے کندھے پر سعودی بندوق رکھ کر چلانے کی بات ہے تو ایک طرف پاکستان کے منتخب اور سب سے بڑے ادارے کی متفقہ قرارداد ہے تو دوسری طرف یہ دھمکی ہے؛ تاہم پاکستان کو ایسے توہین آمیز رویے کی ہرگز توقع نہیں تھی۔ سعودی حکومت کی طرف سے اس طرح کا بیان دینے کی بھی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ ہماری سلامتی کو خطرہ ہے اس لیے پاکستان اپنے اعلان کے مطابق وعدہ پورا کرے؛ چنانچہ یہ ایک شوقیہ جنگ میں پاکستان کو دھکیلنے کی کوشش ہے جس سے احتراز بھی کیا جا سکتا تھا؛ چنانچہ ایک بڑا مطالبہ منوانے کا یہ ایک انتہائی طریقہ ہے۔
اس کے پیچھے پوری وجوہ اور پورا پس منظر ہے جو اب تک کی سعودی مراعات سے سراسر ہٹ کر ہے۔ اس میں بعض پاکستانی حکمرانوں کے وہ اثاثے بھی شامل ہیں جو دبئی وغیرہ میں موجود ہیں اور جنہیں کسی خطرے سے دوچار کیا جا سکتا ہے بلکہ سب سے بڑھ کر وہ تیس لاکھ پاکستانی ہیں جو وہاں روزگار کرتے ہیں اور ملکی خزانے کی سہولت کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ یعنی اگر یہ ممالک ان افراد کو نکال باہر کرتے ہیں تو یہ ہمارے لیے یقینا ایک بہت بڑا مسئلہ ہوگا کیونکہ ایک تو ہم زرمبادلہ کے ایک اہم ذریعے سے محروم ہو جائیں گے اور دوسرے یہ لوگ واپس آ کر ہمارے اور حکومت کے لیے مسائل پیدا کر سکتے ہیں۔ حتیٰ کہ اس مذکورہ دھمکی میں یہ گنجائش بھی نہیں چھوڑی گئی کہ ہمسایہ اسلامی ملک ایران کے ساتھ ہمارے تعلقات کو بچانے کی بھی کوئی صورت بچتی ہے یا نہیں۔
چنانچہ اب اگر پاکستان یہ مطالبہ پورا کرتے ہوئے مطلوبہ امداد مہیا کرتا بھی ہے تو اسے کسی خیرسگالی جذبے کی وجہ سے نہیں بلکہ ایک بلیک میلنگ کا نتیجہ سمجھا جائے گا۔ جہاں تک وزارت خارجہ کا تعلق ہے تو سول حکومت نے پہلے ہی اس سے ہاتھ اٹھا رکھے ہیں اور اب یہ عسکری قیادت کا دردِ سر ہے کہ اس معاملے سے باعزت طور پر کیونکر نمٹا جائے اور عزتِ نفس کی اتنی بڑی قربانی سے کس طور بچا جائے۔ کیونکہ اسے محض امارات کے ایک وزیر کی رائے قرار نہیں دیا جا سکتا جس کے کچھ ذاتی مقاصد یا کوئی سکور برابر کرنا بھی ہو سکتا ہے۔ سو‘ امید ہے کہ ان سطور کی اشاعت تک معاملہ اس حد تک ضرور صاف ہوچکا ہوگا کہ آیا اس دھمکی میں سعودی حکومت کی مرضی بھی شامل ہے یا نہیں۔ علاوہ ازیں پاکستان اور ترکی کی جانب سے کسی مصالحانہ کوشش کا کوئی ٹھوس نتیجہ نکلتا ہے یا نہیں۔ اور‘ اگر یہ معاملہ حکمت اور فہم و فراست سے حل نہیں ہوتا تو یہ ایک انتہائی بدقسمتی کی بات ہوگی۔
آج کا مطلع
کھڑکیاں کس طرح کی ہیں اور در کیسا ہے وہ
سوچتا ہوں جس میں وہ رہتا ہے گھر کیسا ہے وہ