تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     13-04-2015

طویلے کی بَلا بندر کے سَر

ہر ترقی پذیر معیشت کی طرح بھارت بھی مور والی ذہنیت رکھتا ہے۔ مور جھوم جھوم کر ناچتا پھرتا ہے مگر جب اپنے پیر دیکھتا ہے تو آنسوؤں کی جھڑی تھمنے کا نام نہیں لیتی۔ داستانوں میں آیا ہے کہ جنت میں شیطان نے مور کے پیروں پر تھوک دیا تھا جس کے باعث اُس کے پیر قیامت تک کے لیے انتہائی بدنما ہوگئے۔ بھارت میں بھی بہت کچھ ایسا ہے جس نے اُس کے پیروں پر تھوک رکھا ہے۔ نریندر مودی کی حکومت نے اور کچھ کیا ہو یا نہ کیا ہو، ''انصاف‘‘ تو کرکے دکھا ہی دیا ہے۔ مودی سرکار کی چھتری تلے تمام جاندار برابر ہیں۔ گزشتہ مئی سے اب تک انسانوں ہی کو مشکلات کا سامنا تھا، اب بندر بھی زیرِ عتاب ہیں! 
بھارت میں انسانوں سے زیادہ بندروں کے مزے ہیں۔ مذہبی کتب میں اِنسانوں کو جو درجہ دیا گیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ ظاہر ہے، مذہبی تعلیمات کی روشنی میں تو بھارتی معاشرہ تمام انسانوں کو مساوی بنیاد پر تقدس عطا نہیں کرسکتا۔ ایسے میں بندر خوش نصیب ہیں کہ وشنو کے اوتار ہنومان سے نسلی تعلق کی بنیاد پر اُنہیں انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔ سیّاں بھئے کوتوال، اب ڈر کاہے کا۔ بھارت بھر میں بندر دندناتے پھرتے ہیں۔ 
بندروں نے سیاست دانوں اور سرکاری ملازمین کا سا مزاج پایا ہے۔ جس طور سیاست دان کوئی بھی ڈھنگ کی چیز دیکھ کر اُسے اُچک لیتے ہیں بالکل اُسی طرح بندر بھی موقع ملتے ہی جھپٹ پڑتے ہیں اور مال لے اُڑتے ہیں۔ سرکاری ملازمین کی طرح بندر بھی ''مالِ مفت، دلِ بے رحم‘‘ والی ذہنیت پر عمل پیرا رہتے ہیں۔ وہ بھارتی سرزمین پر پائی جانے والی ہر چیز کو اپنے باپ کی جاگیر سمجھتے ہیں! ہم یقین سے کہہ سکتے ہیں کہ بھارت میں سیاست دانوں اور سرکاری ملازمین نے بندروں سے کچھ نہیں سیکھا ہوگا؛ البتہ بندر اُن سے مستفید ہوئے ہوں گے! 
ہمارے ہاں آج بھی بندر طرح طرح کے تماشے دکھاکر اپنا اور اپنے مالک یعنی مداری کا پیٹ بھرنے کا ذریعہ بنتے ہیں۔ بھارت میں ایسا نہیں ہے۔ وہاں اِتنے تماشے ہیں کہ بندر اپنے فطری یا جبلّی تماشے بُھول چکے ہیں۔ اب اُنہیں صرف مال پر جھپٹنا اور جو ہاتھ لگے وہ لے اُڑنا یاد رہ گیا ہے۔ 
کئی ریاستوں میں دوسرے بہت سے، طرح طرح کے جانوروں کے ساتھ ساتھ اب بندروں کی بھی ایسی بہتات ہوچکی ہے کہ لوگوں کا جینا حرام ہوگیا ہے۔ بندروں کے ہاتھوں لوگ ایک تو یوں پریشان ہیں کہ ہنومان کی سنتان اُن کی چیزیں اُٹھاکر بھاگ جاتی ہے اور دوسرے یہ کہ اُن کی موجودگی میں اِنسانوں کو خاطر خواہ احترام نہیں مل پاتا! سرکار کا بس اپنے ملازمین اور سیاست دانوں پر تو چلتا نہیں اِس لیے لہو گرم رکھنے کی خاطر فی الحال تان ہنومان کی سنتان پر توڑی گئی ہے۔ کئی ریاستی حکومتوں نے بندر پکڑنے پر انعام کا اعلان کیا ہے۔ ایک ریاست تو ایک بندر پکڑنے پر 500 روپے تک دے رہی ہے۔ ایک نئی صنعت کھل گئی ہے۔ کئی افراد رات دن بندر پکڑنے میں لگے رہتے ہیں۔ بندر پکڑنے میں مہارت رکھنے والوں نے لاکھوں کمالیے ہیں۔ 
بندروں کی تعداد کم کرنے کا ایک طریقہ تو یہ ہے کہ بندروں ہی کو ختم کردیا جائے۔ مگر یہ ممکن نہیں۔ بھارت میں اِنسانوں اور بالخصوص اقلیت سے تعلق رکھنے والے انسانوں کو سوچے سمجھے اور ضمیر کوئی بوجھ لیے بغیر ختم کیا جاسکتا ہے، بندروں کو نہیں۔ اُنہیں مذہب نے ''اِستثنٰی‘‘ دے رکھا ہے۔ بندروں کو حاصل غیر معمولی تقدس ہی کو دیکھتے ہوئے بہت سے لوگ یہ سوچ کر دِل جلاتے رہتے ہیں کہ کاش وہ بندر ہی ہوتے! (اُنہیں مایوس نہیں ہونا چاہیے، بھارت سرکار طرح طرح کے تماشوں میں اُلجھاکر ایک دن اُنہیں جانوروں کی سطح پر لاکر ہی دم لے گی!) 
آپ سوچیں گے ہر ریاستی مشینری میں تو پہلے ہی طرح طرح کے جانور موجود اور سرگرم ہیں۔ ایسے میں ریاستی سرکاریں بندروں کا کیا کریں گی؟ 
نَس بندی، اور کیا؟ 
یعنی بے زبان جانوروں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کرنے کی تیاری ہے۔ 
آئیڈیا دلچسپ ہے مگر نیا نہیں۔ 1975ء میں اُس وقت کی وزیر اعظم آں جہانی اندرا گاندھی نے بھی ہنگامی حالت نافذ کرکے نس بندی کا آغاز کیا تھا۔ تب بندر محفوظ رہے تھے یعنی یہ انوکھی اسکیم اِنسانوں کے لیے تھی! اندرا گاندھی اور اُن کے قریبی حلقے کے ''دانشور‘‘ یہ سمجھ رہے تھے کہ تولیدی صلاحیت ختم کرنے سے بھارت کی آبادی کم ہوجائے گی۔ بھارت کی آبادی تو کیا کم ہونی تھی، نہرو خاندان کی آبادی کم ہوتی گئی۔ پہلے سنجے گاندھی فضائی حادثے میں جان سے ہاتھ دھو بیٹھا۔ پھر اندرا گاندھی اپنے ہی سِکھ محافظوں کے ہاتھوں اِس دُنیا سے رخصت کردی گئیں اور آخر میں اندرا گاندھی کا بڑا بیٹا راجیو گاندھی تامل ٹائیگرز کے ہاتھوں اِس لوک کو تج کر اُس لوک کا باسی ہوا! یعنی جو گڑھا عوام کے لیے کھودا گیا اُس میں محترمہ اپنی اولاد سمیت خود ہی گرگئیں۔ اب راوی نہرو خاندان میں چَین ہی چَین لکھتا ہے! 
مودی سرکار کے پاس کرنے کو ابھی بہت سے کام ہیں۔ بندروں پر قابو پانے کی کوششیں ضروری سہی مگر زیادہ ضروری یہ ہے کہ ریاستی مشینری، بالخصوص پالیسی ساز اداروں کے جسم میں پنجے گاڑے ہوئے شِکروں پر قابو پایا جائے۔ انتہا پسند سوچ رکھنے والے سیاست دان شِکروں کی مانند ہر پالیسی کی رگوں سے خُون نچوڑ کر اُسے بے جان کرنے پر تُلے ہوئے ہیں۔ 
ملک کو ترقی کی راہ پر گامزن کرنے کے لیے نریندر مودی کو اپنی صفوں سے گِدھ بھی دور کرنے ہوں گے جو ہر کامیابی کی بوٹی بوٹی نوچنے لیے بے تاب رہتے ہیں۔ اور معاملہ صرف شِکروں یا گِدھوں تک محدود نہیں۔ بہت سے گدھے بھی سیاست میں اپنی اوقات سے بڑھ کر سرگرم ہیں۔ وہ پالیسیوں میں ایسا جھول چاہتے ہیں کہ ملک ایک قدم آگے بڑھے تو دو قدم پیچھے ہٹے۔ بھارت کی کشمیر پالیسی شاید ایسے ہی گدھوں کے ہاتھ میں ہے! یہ گدھے کشمیر سمیت بیشتر معاملات میں رات دن خود فریبی کی گھاس چرتے رہتے ہیں۔ باضابطہ کِھنچی ہوئی سرحدی لکیر اِنہیں دکھائی نہیں دیتی۔ دِن رات مشترکہ نسلی، ثقافتی، لِسانی اور تاریخی وراثت کا راگ الاپ کر یہ سرحد کو ''ان دیکھا‘‘ کرتے رہتے ہیں۔ جزبز ہونے پر بھی دولتّی کے خوف سے کوئی اِنہیں چھیڑتا نہیں۔ اگر دولتّی نہ بھی جھاڑیں تو چھیڑے جانے پر یہ ایسی ڈھینچوں ڈھینچوں برپا کرتے ہیں کہ چھیڑنے والوں کو آئندہ کے لیے توبہ کرتے ہی بنتی ہے! 
بھارت ہو یا پاکستان، سیاست خیر سے بندر بانٹ کا نام ہے۔ لپکنا، جھپٹنا اور اُچکنا اِس سیاست کے بنیادی اوصاف و اعمال ہیں۔ قیادت کے نام پر لوگ جو کچھ کر رہے ہوتے ہیں اُسے بندر کے تماشے کے سِوا کچھ بھی قرار نہیں دیا جاسکتا۔ مگر افسوس کہ نس بندی کا اہتمام کیا جارہا ہے تو صرف بندروں کے لیے۔ دونوں ممالک اگر واقعی کچھ کرنا چاہتے ہیں تو اُن لوگوں کی ذہنی نس بندی کرائیں جو اپنی بے ڈھنگی سوچ سے سیاست کو گندا کئے رہتے ہیں اور قیادت کے نام پر ملک کو صرف تماشوں میں اُلجھائے رکھنے پر یقین رکھتے ہیں۔ بندر جنتا کو پریشان ضرور کرتے ہیں مگر بھئی وہ کیا اور اُن کی بساط کیا؟ اِس خطے میں تو ایسے لوگ بھی پائے جاتے ہیں جو عوام کی راہ نمائی کے نام پر پُورا کا پُورا ملک اُچک لیتے ہیں اور پھر اُن کے ہاتھ سے ملک واپس لینا سیاست کا سب سے بڑا بیلینسنگ ایکٹ بن جاتا ہے! جب تک سیاسی شعبدہ بازوں کو راہِ راست پر نہیں لایا جاتا تب تک بندروں پر تجربے نہ کئے جائیں۔ بھارت کی مرکزی اور ریاستی سرکاروں کو سمجھنا چاہیے کہ بے زبانوں کی بددعا لینا دانش مندی نہیں۔ بندروں کے خلاف یہ اُچھل کود گلے کا پھندا بھی بن سکتی ہے۔ ع 
کہیں اُن کو لے نہ ڈوبے ''رہ و رسمِ بندرانہ‘‘!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved