جیسے ہی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے سعودی یمن تنازعے پر پاکستانی ردعمل پر مبنی قرارداد پیش کی تو کراچی سے میرے صحافی دوست سیدعمران شفقت کا فون آگیا۔ ان کی آواز خوشی سے لرز رہی تھی اور پوچھ رہے تھے: ''حبیب صاحب، کیا پاکستان کی پارلیمانی تاریخ میں خارجہ پالیسی پر اس طرح کی قرارداد کبھی منظور ہوئی ہے؟‘‘۔ میں نے کوشش کی کہ کوئی مثال یاد کرسکوں، کچھ انفرادی تقریریں تو ذہن میں آگئیں لیکن کوئی باقاعدہ بحث یا قرارداد یادداشت میں نہیں ابھری۔ میں نے پوچھا :''شاہ جی آپ کو کوئی یاد ہے؟‘‘ تو وہ نیم یقین سے بولے کہ اس طرح کی بحث اور یہ قرارد داد پاکستان کی تاریخ میں پہلا واقعہ ہے۔ اس کے بعد ہارون الرشید صاحب سے پوچھا کہ پاکستان کی سیاسی تاریخ کے شاہد و حافظ ہیں تو انہوںنے بھی عمران شفقت کی ہی تائید کی لیکن ساتھ یہ بھی کہا کہ '' یہ بات صرف یادداشت کی بنیاد پرکہہ رہا ہوں، ممکن ہے پارلیمانی ریکارڈ میں اس طرح کا کوئی مباحثہ اور قراداد موجود ہو‘‘۔ یہ قرارداد اپنی نوعیت کی پہلی قرارداد ہے یا نہیں اس کا فیصلہ تو محققین کر لیں گے لیکن یہ طے ہے کہ ہمارے جمہوری ادارے ابھی نازک ترین معاملات پر مکالمہ کرکے انہیں سلجھانے کی صلاحیت سے عاری نہیں ہوئے اور ہماری افواج بھی اپنی اندرونِ ملک مصروفیات کے باوجود پاکستان کی بین الاقوامی کمٹمنٹ کو پوری طرح نبھانے کی اہلیت رکھتی ہیں۔ عزت سے زندہ رہنے کا یہی جذبہ ہے کہ ہماری پارلیمنٹ نے خطے میں ایک طاقتور فریق کے طور پر آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا ہے۔ اس قرارداد میں یمن کے اندرونی معاملے پر غیر جانبدار رہنے کا اظہار ہو یا سعودی عرب کی سلامتی کے لیے سب کچھ کر گزرنے کااعلان، دونوں پاکستان کی طاقت اور اہمیت کے دلائل ہیں جنہیں پاکستان کے دوستوں کے ساتھ ساتھ دشمنوں کو بھی سمجھنے کے لیے کچھ وقت لگے گا۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ ایک بہت عمدہ کام کرکے ہم نے حسب ِ عادت اسے بھی اپنے لیے شرمندگی کا باعث بنا لیا ہے۔
اندازہ لگائیے کہ پاکستانی طاقت کی مظہر اس بارہ نکاتی قرارداد کی جوتفسیر میڈیا پر کی جارہی ہے،اس سے یوں معلوم ہوتا ہے کہ یمن حوثیوں کی لگائی ہوئی آگ میں جلتا رہے گا ،ایک ملک اس پر تیل چھڑک چھڑک کر آخرکار پورے خطے کو اس میں جھونک دے گا اور پاکستان خاموشی سے تماشا دیکھتا رہے گا کیونکہ اس قرارداد میں پاکستان کے غیر جانبداررہنے کا اعلان کردیا گیا ہے۔ یہ تشریح اگر درست ہے تو پھر اسی دستاویز کا دسواں نکتہ بے معنی ہوجاتا ہے جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ سعودی عرب کی سرزمین کی حفاظت کے لیے پاکستان سعودیہ کے شانہ بشانہ کھڑا ہوگا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ جب ہم نے سعودی عرب کے ساتھ ''شانہ بشانہ‘‘ کھڑے ہونے اور اس کی سرحدوں کی حفاظت کا عزم کرلیا ہے تو اس کے لیے فوری طور پرکچھ کرنے کی گنجائش بھی پیدا ہوجاتی ہے، مثال کے طور پرسعودی یمن سرحد پر گشت، پاک بحریہ کا یمنی ساحل کے قریب قریب گشت تاکہ کوئی حوثیوں کو سمندری راستے سے ہتھیار نہ بھیج سکے، اور فضائی حدود کی حفاظت کے لیے کچھ لڑاکا طیارے بھیجنا ایسے اقدامات ہیںجن کی اجازت بالواسطہ طور
پرپارلیمنٹ نے حکومت کو دے دی ہے۔ یہ سب کچھ کرنا اس لیے بھی ضروری ہے کہ خدانخواستہ سعودی عرب پر حملے کی صورت میں ہماری فوج وہاں موجود نہ ہوئی تو یہ بنیادی طور پر پارلیمنٹ کے منظورکردہ اہداف کی نفی تصور ہوگی اور ویسے بھی کسی ملک کی حفاظت کے لیے اس پرحملے کا انتظار کرنا اول درجے کی بے وقوفی سے کم نہیں۔ پاکستان کے بعض ادارے بہت ہوشیار نہ سہی لیکن اتنے غبی بھی نہیں کہ یہ نکتہ سمجھ نہ سکیں۔
قرارداد کے غیرمؤثر ہونے کا تاثر غالباً اس لیے پیدا ہوا ہے کہ اس کے ابتدائی نکات کی زبان سیاسی و سفارتی ہے، جبکہ آخری چند نکات ہیں جو حکومت کو سعودی عرب میں فوج اتارنے اورکسی حد تک یمن میں مداخلت کی رخصت دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہماری وزارت خارجہ میں بیٹھے ہوئے سفارتکاروں کو یہ خیال بھی نہیں آیا کہ خارجہ پالیسی متعین کرنے والی اس اہم دستاویز کے حوالے سے صحافیوں کو ایک آف دی ریکارڈ بریفنگ دیتے تاکہ وہ تبصرہ کرتے ہوئے محتاط رہتے۔ اس حوالے سے جب کچھ نہ کیا گیا تو وہ تاثر جو کسی وجہ سے پاکستانی صحافیوں میں بنا تھا ،وہی عالمی میڈیا پر چلا گیا جس کی بنیاد پر متحدہ عرب امارات کے وزیر مملکت برائے امور خارجہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہہ ڈالا کہ پاکستان کو اپنے مبہم موقف کی بھاری قیمت چکانا پڑے گی۔ دوسری نا سمجھی جو وزارت خارجہ نے دکھائی وہ یہ تھی کہ اس نے خلیج تعاون کونسل میں شامل ملکوں کے سفیروںکو فوری طور پر اعتماد میں نہیں لیا اور نہ ان ملکوں میں متعین پاکستان کے سفیروںکو ہدایت کی کہ وہ اپنی اپنی میزبان وزارتِ خارجہ کو اس میں دی گئی گنجائشوں کے بارے میں آگہی دیں۔ یہ ہماری وزرات ِ خارجہ اور ہمارے سفیروںکی نالائقی کے سوا کچھ بھی نہیں کہ سعودی یمن تنازعے سے نمٹنے کے لیے اپناجاندار موقف اپنے ان دوستوں پر بھی واضح نہیں کرسکے جن کے لیے ہم ہر حد تک جانے کا تہیہ کیے ہوئے ہیں اورالٹا ان کے سامنے شرمندہ ہورہے ہیں۔ اس صورت حال سے نکلنے کا فوری حل یہ ہوسکتا ہے کہ ہم اپنے ڈیڑ ھ پونے دو مشیر خارجہ کو فوری طور پر اپنے دوست ملکوں کے پاس بھیجیں تاکہ وہ اس قرارداد کے بارے میں ان کی غلط فہمیاں دورکرسکیں۔ اس کے علاوہ سعودی عرب ، عرب امارات، قطر اور خطے کے دیگر ممالک کے صحافیوں کو بھی پاکستان بلانے کا انتظام کیا جائے تاکہ وہ یہاں کا ماحول اور سوچ صحیح طریقے سے اپنے اپنے ملکوں میں پیش کریں۔ یہ کام کرنے کے لیے حکومت کو محض ارادے کی ضرورت ہے، پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس کی نہیں۔
سعودی عرب کی مدد اور یمن کے حوالے سے پاکستانی ترجیحات کے حوالے سے پالیسی کا تعین ایک بات ہے اور اس پر عمل دوسری بات۔ پالیسی کی تشکیل میں تمام سیاسی جماعتوں کا شامل ہونا ایک جمہوری تقاضا تھا جو پورا ہوگیا۔ اب اس پالیسی پر عمل کا مرحلہ در پیش ہے اور اس پر پوری پارلیمنٹ نہ سہی، پارلیمانی پارٹیوں کے سربراہوں کو اعتماد میں لینا حکومت کے لیے ضروری ہے، کیونکہ اس قرارد اد کی روح کے مطابق ہمیں سعودی عرب فوج بھیجنا ہوگی ۔ ایسے اقدامات کے لیے سابق صدر آصف علی زرداری ذہنی طور پر حکومت کا ساتھ دینے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ عمران خان اگرچہ اپنے مخصوص انداز میں ان دونوں اقدامات کی مخالفت کرتے نظر آتے ہیں لیکن انہیں معاملات کی اُونچ نیچ سمجھائی جاسکتی ہے اور وہ اتنے ان گھڑت نہیں کہ خارجہ امورکی نزاکتوںکو سمجھ نہ پائیں ، ویسے بھی سراج الحق ان کی اتالیقی میں مہارت حاصل کرچکے ہیں، وہ خان صاحب کو عالمی سیاست کے عملی تقاضے بخوبی سمجھا سکتے ہیں۔ وزیراعظم کے سعودی شاہی خاندان سے تعلقات کے پیشِ نظر یہ توقع تو نہیں کہ وہ عملی اقدامات کی ضرورت سے لاعلم ہوں گے لیکن یہ خدشہ ضرور ہے کہ وہ ملکی سیاست میں اٹھنے والے طعنہ آمیز سوالوں سے ڈرکرکہیں بروقت عمل سے گریزکرجائیں۔ انہیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ سعودی عرب صرف انہی کا دوست نہیں پاکستان کا دوست ہے اور پاکستان دوستی کا حق اداکرنے کے لیے تیار ہے۔ تاریخ نے پاکستان کو اور وزیراعظم کو دنیا کے سینٹر اسٹیج پر آنے کا ایک نادر موقع فراہم کیا ہے، کسی بھی بنیاد پر اس سے فائدہ نہ اٹھانا ایک حماقت تو ہوسکتی ہے دانش مندی قطعاًنہیں۔