تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     14-04-2015

یمن کی صورتحال

کہا یہ جا رہا ہے کہ یمن کی لڑائی میں شامل ہو نے سے‘ شیعہ سنی جھگڑا پیدا نہیں ہو گا۔ اس کی دو بڑی وجوہ بتائی گئیں۔ نمبر ایک یہ کہ حوثی مکمل طورپر شیعہ نہیں۔ وہ زیدی مسلک سے تعلق رکھتے ہیں اور انہیں پورا شیعہ نہیں سمجھا جاتا۔ دوسرے یہ کہ یمن کی آبادی میں ان کا تناسب صرف ڈیڑھ فیصد کے قریب ہے اور اتنی تھوڑی سی آبادی کے ساتھ ‘لڑائی میں ملوث ہونا بھی پڑ گیا‘ تو پاکستان اس سے متاثر نہیں ہو گا۔ منطقی اعتبار سے یہ موقف درست ہو سکتا ہے‘لیکن زمینی حقائق کچھ اور کہہ رہے ہیں۔ سعودی عرب کے اپنے بیان کے مطابق‘ ایران اس جنگ میں بالواسطہ شامل ہے‘ اس کے دو باقاعدہ فوجی افسر یمن میں گرفتار ہو چکے ہیں اور ایرانیوں کی جیسی رضاکار فورس‘ عراق میںداعش کے خلاف برسرپیکار ہے‘ بالکل اسی طرح کی فور س یمن میں حوثیوں کی مدد کر رہی ہے۔ گو افرادی قوت زیادہ تعداد میں نہیں آئی‘ لیکن جنگی ماہرین‘ حوثیوں کو اپنی مہارتوںکا فائدہ پہنچا رہے ہیں۔ اسلحہ بھی بڑی مقدار میں یمن پہنچایا گیا ہے اور اگر جنگ نے زور پکڑا‘ تو بعید نہیں کہ ایرانی رضاکار بھی یمن میں پہنچ جائیں۔ اگر جنگ مقامی رہتی ہے‘تو اس دلیل کو تسلیم کیا جا سکتا ہے کہ یمن کی جنگ شیعہ سنی محاذآرائی کی وجہ نہیں بنے گی‘ لیکن حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ ایرانیوں اور سعودیوں کے مابین لڑائی ہو گئی‘ تو اسے شیعہ سنی تصادم میں بدلنے سے روکنامشکل ہو جائے گا۔ یہی وہ خطرہ ہے‘ جس کے پیش نظر شیعہ سنی جنگ کے اندیشے ظاہر کئے جا رہے ہیں۔ اس وقت تو ہمیں سمجھایا جا سکتا ہے کہ پاکستانی فوج کے دستے اگر یمن میں کارروائی کے لئے مہیا کر دیئے گئے‘ تو فرقہ وارانہ جنگ کا کوئی امکان نہیں‘ لیکن جو چیزابھی امکانی حالت میں ہے‘ اسے حقیقت میں بدلتے کتنی دیر لگے گی؟ خصوصاً ایسی صورت میں جب ایرانی رضاکار اور سعودی عرب کے اتحادی‘ براہ راست ایک دوسرے کے مقابل آئیں گے۔ ایرانیوں کے شیعہ اور سعودی عرب والوں کے سنی ہونے میں تو کسی کو شبہ نہیں اور جب یہ کسی بھی سطح پر براہ راست آمنے سامنے آ گئے‘ تو جنگ کو فرقہ واریت کا رخ اختیار کرنے سے کیسے روکا جا سکے گا؟ 
آج بھی لبنان‘ شام اور عراق میں شیعہ سنی کے حوالے سے لڑائیاں چل رہی ہیں۔ بحرین میں تھوڑا عرصہ پہلے ہی براہ راست شیعہ سنی تصادم ہوئے‘جن میں پاکستان نے بھی درپردہ کردار ادا کیا تھا۔ گویا ہم ایک شیعہ سنی لڑائی میں بالواسطہ فریق کا کردار ادا کر چکے ہیں۔ بحرین میں ہم سعودی حکومت کے ساتھ دوستی کی وجہ سے‘ ہی بالواسطہ ملوث ہوئے تھے۔ حکومت پاکستان‘ سعودی عرب کے ساتھ دیرینہ تعلقات کے دبائو میں ہے۔ ماضی میں ہر مشکل وقت میں سعودی عرب نے ہمارا ساتھ دیا۔ ظاہر ہے فوجی اعتبار سے سعودی عرب ہماری کوئی مدد نہیں کر سکتا تھا‘ لیکن اس نے ہمیںمالیاتی مسائل سے بچانے میں انتہائی اہم کردار ادا کیا۔ پاکستان‘ سعودی افواج کی تربیت و تیاری میں بھی اہم کردار ادا کرتا رہا ہے اور بعض حالات میں یہ بھی کہا جاتا رہا ہے کہ پاکستانی پائلٹ‘ سعودی فضائیہ کے جہاز اڑاتے رہے ہیں۔ جن تین ملکوں کا میں نے ذکر کیا ہے‘ ان میں شیعہ سنی کے درمیان کھلی جنگیں ہو رہی ہیں اور سعودی عرب کے رضاکار‘ شام کی جنگ میں براہ راست بھی حصہ لیتے رہے ہیں۔ جب یمن میں ایران کے دفاعی ماہرین باقاعدہ محاذ جنگ پر حوثیوں کے ساتھ لڑ رہے ہیں‘ تو شیعہ سنی کا سوال کیوں پیدا نہ ہو گا؟ یہ بھی کوئی ڈھکی چھپی بات نہیں کہ خلیج کے خطے میں سعودی اور ایرانی ‘ ایک دوسرے کے حریف ہیں اور جیسا کہ میں بحرین کی مثال میں عرض کر چکا ہوں‘ ان کے مابین بالواسطہ تصادم بھی ہوتا رہتا ہے اور اس کی بنیاد ریاستی مقاصد میں رقابت ہونے کے ساتھ ساتھ مسلکی جھگڑا بھی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اس کا ایک تاریخی تسلسل بھی ہے۔ ہمارے ملک میں جو شیعہ مخالف گروہ سرگرم عمل ہیں‘ ان کے بارے میں عام تاثر یہ ہے کہ انہیں بیرون ملک سے مالی امداد دی جاتی ہے اور اسی کے بل بوتے پر وہ‘ اہل تشیع کے خلاف کارروائیاں کرتے ہیں۔ یہی کچھ شیعہ تنظیموں کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ انہیں بھی مسلکی بنیادوں پر پڑوس سے امداد ملتی ہے۔ پاکستان خدانخواستہ شیعہ سنی محاذآرائی میں فریق بننے پر مجبور ہوا‘ تو ہمارا داخلی استحکام برقرار نہیں رہ سکے گا۔ اس کے بہت دوررس اور خطرناک نتائج نکلیں گے۔ 
ہماری فوج کے بارے میں‘ یہ بات بھی پیش نظر رکھنا ضروری ہے کہ یہ فرقہ وارانہ تقسیم سے محفوظ چلی آ رہی ہے۔ یہ خالص پیشہ ور فوج ہے‘ جو تعصب سے بالاتر اور اسلامی تصورات اور خیالات کے تحت متحد و یکجا ہے۔ پاکستان کی دفاعی قوت کا انحصار ہی فرقہ وارانہ یکجہتی پر ہے۔ بحرین میں ریٹائرڈ فوجیوں کو شیعہ آبادی کے خلاف‘ کارروائیوں کی اجازت دے کر‘ ہم ایک بڑی غلطی کر بیٹھے ہیں۔ ابھی تو وہاں کا تنازع ماند پڑ گیا ہے‘ لیکن اس کی جڑیں آج بھی موجود ہیں۔ یہ بھی نہیں بھولنا چاہیے کہ سعودی عرب اور یمن کی سرحدوں سے ملحق سعودی علاقوں میں شیعہ آبادی قابل ذکر تعداد میں موجود ہے۔ اگر یمن میں حوثیوں اور عربوں کی لڑائی نے زور پکڑا‘ تو مسلکی قربت کی وجہ سے‘ سعودی عرب کی شیعہ آبادی بھی جنگ میں ملوث ہو سکتی ہے اور یہ امکان سعودی عرب کے لئے زیادہ خطرناک ہے۔ خطے کی صورتحال پرنظر رکھنے والے ماہرین کی رائے ہے کہ یمن کی جنگ جلد ختم نہیں ہو گی۔ یہ ملک پہلے بھی دو حصوں میں تقسیم رہ چکا ہے اور ایک عرصے تک اس کے تقسیم شدہ حصے‘ ایک دوسرے سے برسرپیکار بھی رہے ہیں۔ ریاستی ڈھانچہ تہس نہس ہونے سے یہ اندیشہ پیدا ہو گیا ہے کہ شمالی اور جنوبی یمن پھر سے علیحدہ ہو کر پرانی صورتحال میں واپس نہ چلے جائیں۔ ایسی صورتحال میں یمن کی خانہ جنگی طول پکڑ سکتی ہے۔ اس جنگ میں بھی مصر اور سعودی عرب بالواسطہ ایک دوسرے سے برسرپیکار تھے۔ اس مرتبہ مصر یقینا سعودی عرب کا حامی ہو گا‘ لیکن ریاستی مفادات کسی بھی وقت سامنے آ سکتے ہیں۔ خطے میں مصر کے اپنے مفادات بھی ہیں۔ اسی وجہ سے سعودی عرب ‘ مصری فوج کو معینہ حد تک ہی اپنی سرزمین پر آنے کی اجازت دے گا۔ خود سعودی عرب کی اپنی فوج بھی ایک نسل پر مشتمل نہیں۔ اس میں 20 سے 25 فیصد افرادی قوت کا تعلق یمن سے ہے۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ سعودی عرب اور یمن دونوں ملکوں کے معاشرے قبائلی ہیں اور قبائلی عصبیتیں حالت جنگ میںکیسے کیسے نتائج پیدا کر سکتی ہیں؟ ان کے بارے میں پیش گوئی کافی مشکل ہے۔
یہاں بھارت کی مثال پیش کرنا غیرمناسب نہ ہو گا۔ اس وقت امریکہ کے ساتھ بھارت کے تعلقات میں غیرجانبداری ختم ہو رہی تھی اور دونوں سٹریٹجک معاملات میں اتحادی بن رہے تھے۔ اس وقت بھارت نے شرق اوسط کے معاملے میں امریکہ کے ساتھ باہمی تعاون کے غیرتحریری عہد و پیمان کر رکھے تھے۔امریکہ نے بھارت سے درخواست کی کہ وہ شمالی عراق میںاتحادیوں کی کولیشن کے ساتھ کچھ فوجی معاونت کرے۔ تعلقات کا نیا نیا دور تھا۔ واجپائی یہ بھی نہیں چاہتے تھے کہ امریکہ کے ساتھ پیدا ہونے والے نئے اعتماد کو مجروح کیا جائے۔ انہوں نے اس امریکی فرمائش کا معاملہ بھارتی پارلیمنٹ میں پیش کر دیا۔ پارلیمنٹ کے دونوں ایوانوں کے مشترکہ اجلاس میں اتفاق رائے سے قرار داد پاس کر دی گئی ‘جس میں حکومت سے کہا گیا تھا کہ وہ اس جنگ سے اپنے آپ کو علیحدہ رکھے۔ میرا خیال ہے‘ ہماری پارلیمنٹ کی قرارداد دیکھ کر سعودی عرب کو بھارت کی مثال بھی یاد آئی ہو گی اور شاید اس وجہ سے بھی سعودی عرب کا ردعمل شدید اور فوری تھا۔ میں‘ متحدہ عرب امارات کی طرف سے پاکستان پر ہونے والے اعتراض کو‘ امارات کا خودمختارانہ فیصلہ نہیں سمجھتا۔ یقینا اس میں سعودی عرب کا ہاتھ ہو گا۔ جیسے ہی امارات کا ردعمل سامنے آیا‘ سعودی عرب نے فوراً پارلیمنٹ کی قرارداد کو داخلی حالات کا نتیجہ قرار دے کر‘ اپنے آپ کو امارات کے ردعمل سے الگ کر لیا‘ لیکن امارات کے وزیر کے بیان سے لاتعلقی بھی ظاہر نہیں کی۔ فوراً ہی سعودی عرب کے وزیرمذہبی امور ڈاکٹرالشیخ صالح بن عبدالعزیز ‘ پاکستان تشریف لائے۔ یقینی طور پر وہ سعودی عرب کا موقف دہرا کر پرانے مطالبے کی تجدید کرنے آئے ہوں گے۔ سعودی عرب کا موقف واضح ہے کہ وہ ایک آئینی حکومت کے خلاف بغاوت کرنے والوں سے برسرپیکار ہے۔ پاکستان کی طرف سے غیرجانبداری اختیار کرنا کسی طرح مناسب نہیں۔ حوثی اگر ہتھیار پھینک کر انتخابات میں حصہ لیں اور زیادہ ووٹ لے کر اپنی حکومت بنا لیں تو ہمیں کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔ سعودی عرب کی بات میں بظاہر کافی وزن ہے ‘مگر مناسب یہ رہے گا کہ یمن کی آئینی حکومت کی بحالی میں مدد کے لئے یو این مداخلت کرے اور اس میں پاکستانی فوج کی خدمات حاصل کر لی جائیں۔ یہ سعودی عرب اور پاکستان دونوں کے مفاد میں ہو گا۔ براہ راست کسی تیسرے ملک میں فوجیں بھیجنا پاکستان کے لئے مشکلات پیدا کرے گا۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved