تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     14-04-2015

آثار قدیمہ کے ساتھ ہونے والا سلوک

بارہ دن کے دوران یہ گیارہواں شہر ہے۔ لیوٹن‘ سلائو‘ ایسٹ لندن ‘ برمنگھم ‘ ہنسلو‘ کارڈف ‘ مانچسٹر ‘ بریڈ فورڈ ‘ ینوکاسل ‘ یارک اور آج گلاسگو۔ ہر روز نئے شہر میں صبح ہوتی ہے۔ پہلے دس روز تو اس طرح گزرے ہیں کہ محض سفر سے پتا چلتا تھا کہ نئے شہر میں آئے ہیں وگرنہ ان نو شہروں میں ایک جیسے مشاعرے تھے اور ایک جیسے ہی ہوٹل۔ ٹریولاج (Travelodge)پورے برطانیہ میں ہوٹلوں کی چین ہے۔ کمرے میں داخل ہوتے ہی یہ احساس ختم ہوجاتا تھا کہ ہم کسی نئے کمرے میں ہیں۔ ایک جیسے بیڈ، بیڈ کے سرہانے لگی ہوئی ایک ہی سائز کی ایک آئوٹ آف فوکس تصویر‘ ایک جیسی کرسی‘ ایک ہی ڈیزائن اور رنگ کی دیوار کے ساتھ فکس میز‘ ایک جیسی چائے بنانے کی الیکٹرک کیتلی ‘ ایک جیسے رنگ دار لکیروں والے پردے ‘ حتیٰ کہ باتھ روم میں لگے ہوئے ہاتھ دھونے والے ایک جیسے واش بیسن اور ان کے ساتھ دیوار میں لگے ہوئے سوپ ڈسپنسر اور ان میں سے نکلنے والی جھاگ‘ بقول انور مسعود صابن کا منہ دیکھے ایک عرصہ ہوگیا ہے۔ کمروں میں لگے ہوئے پردوں کے بارے میرا خیال تھا کہ یہ ایک ہی چالیس ہزار گز لمبے تھان کو پھاڑ کر بنائے گئے ہیں۔
اس تجربے سے ایک عجیب و غریب چیز سامنے آئی ہے۔ انسانی ذہن ایک جیسی صورتحال اور چیزوں کو دیکھ کر ایک جیسے ردعمل کا مظاہرہ کرتا ہے۔ ہر روز قبلے کے رخ کا مسئلہ درپیش آجاتا تھا۔ ایک ہی جیسے کمرے میں اگلے روز نئے رخ پر قبلہ کی طرف نماز پڑھنا تھوڑا کنفیوژ کرتا تھا۔ ابھی کل بیڈ کے سرہانے کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی تھی ‘آج اسی شکل ‘ سائز اور ترتیب والے کمرے میں پائنتی کی طرف رخ کرکے نماز پڑھی جارہی ہے۔ کبھی بائیں رخ ترچھا ہوکر سجدہ کیا جارہا ہے اور کبھی اس کے بالکل الٹے رخ ۔ روز ایک نیا تجربہ ہوتا تھا اور روز ہی عجیب سا لگتا تھا۔ اگر فون میں قبلہ نما نہ ہوتا تو اتنا کنفیوژن ہوتا کہ اللہ کی پناہ ۔ اس تجربے سے یہ پتا چلا کہ ہم ایک جیسی چیزوں کے درمیان حسب سابق والا رویہ اور روٹین اختیار کرتے ہیں اور مشینی انداز میں گزشتہ روز والے عمل کو دہرانے کی کوشش کرتے ہیں۔
گزشتہ سے پیوستہ روز ہم یارک میں تھے۔ یہ برطانیہ کا بڑا تاریخی شہر ہے۔ اس سے پہلے نیوکاسل میں تھے۔ نیوکاسل دریائے ٹائن کے کنارے آباد ہے ۔ دریا پر کئی شکلوں کے پل ہیں۔ کمانی دار ‘ محراب نما اور سیدھے بنے ہوئے کئی پل شہر میں آنے جانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ میں کئی بار یہاں آچکا ہوں۔ یہاں ڈاکٹر الیا س سلیم ہمارے دوست ہیں۔ ان سے سرائیکی چلتی ہے۔ میں نیوکاسل پہنچا تو ڈاکٹر الیاس کو فون کیا۔ تھوڑی دیر میں ڈاکٹر الیاس ہوٹل آئے گا۔ میں نے اچانک پوچھا کہ اس شہر کا نام نیوکاسل یعنی نیا قلعہ کیوں ہے؟ اگر یہ نام کسی نئے قلعے کی وجہ سے دیاگیا تو پرانا قلعہ کہاں ہے؟ بلکہ اس سے بھی اہم سوال یہ ہے کہ نیا قلعہ کہاں ہے؟ اس شہر میں تو نہ کوئی نیا قلعہ ہے اور نہ پرانا۔ پھر اس نام کا کیاتک بنتا ہے؟ ڈاکٹر الیاس کہنے لگا ‘اتنا تو مجھے بھی معلوم نہیں کہ یہ قلعے کہاں تھے اور اب کہاں ہیں تاہم سنا ہے کہ یہاں کوئی نیا قلعہ بنا تھا جس کے نام پر یہ شہر مشہور ہوگیا۔ میں نے کہا ‘یہ بات قرین قیاس نہیں لگتی کیونکہ اس علاقے میں ہماری طرح کچلے قلعوں کا رواج نہیں تھا۔ سکاٹ لینڈ والوں سے ہونے والی جنگوں نے اس سارے علاقے میں پختہ اور پتھر کے قلعوں کا کلچر پروان چڑھایا تھا۔ آخر وہ پختہ قلعے کہاں چلے گئے۔ یہاں ہمارے ملک جیسا حال تو نہیں کہ قلعے غائب ہوجائیں۔ ایک عرصہ ہوا میں ایک دوست کے پاس مظفر گڑھ کے قصبہ شاہ جمال کے گائوں کلروالی گیا۔ وہاں سے واپسی پر ہم نے نیا روٹ اختیار کیا اور واپس شاہ جمال ‘ خان گڑھ جانے کے بجائے کرم داد قریشی کی طرف گئے ۔ راستے میں بائیں ہاتھ ایک کچے قلعے کے آثار موجود تھے۔ یہ قریب پینتیس سال پرانی بات ہے۔ چند سال پہلے اسی سڑک سے گزرنا ہوا تو قلعے کے آثار کہیں نظر نہ آئے۔ مظفر گڑھ شہر میں کچہری کے عین سامنے ''خزانہ ‘‘ (Treasury)کی عمارت تھی۔ چوکور‘ چھوٹی اینٹوں والی ۔اس عمارت کے چاروں کونوں پر نیم دائرہ برجیاں تھیں۔ درمیان میں ایک فضول سی عمارت بناکر اس تاریخی عمارت کا حسن برباد کردیاگیا۔
مظفر گڑھ ہی میں ایک قصبہ محمود کوٹ ہے۔ محمود کوٹ آبادی کی بغل میں ایک قلعہ تھا۔ یہ محمود خان گجر کا کچا قلعہ تھا۔ اس کے ساتھ ہی ایک کنویں کے کنارے محمود خان گجر کے دو جرنیل داد خان پتافی اور باغ خان پتافی دفن ہیں۔ یہ دونوں بہادر جرنیل سکھوں سے لڑتے ہوئے شہید ہوئے تھے۔ یہ قلعہ کافی اچھی حالت میں تھا۔ پھر لوگوں نے اس کچے قلعے کی مٹی اٹھانی شروع کردی۔ پہلے اٹھانی شروع ہوئی پھر بیچنی شروع ہوگئی۔ قلعے کا کافی حصہ لوگ اکھاڑ کر اور اٹھا کرلے گئے۔ اب بھی اس کے آثار موجود ہیں مگر کب تک؟ آٹھ دس سال میں لوگ بقیہ مٹی بھی اٹھا کر لے جائیں گے۔ باقی رانا محبوب کی فیس بک کی وال پر ایک تصویر باقی رہ جائے گی۔ میں بہت چھوٹا تھا۔ اتنا چھوٹا کہ والد صاحب کے ویسپا سکوٹر کے آگے ہینڈل پکڑ کر کھڑا ہوتا تھا۔ ابا جان ایک تعزیت کے سلسلے میں موضع ترگڑ گئے۔ سکوٹر پر ابا جان کے ساتھ پیچھے چاچا مظفر بیٹھے تھے ۔ جب ہم موضع ترگڑ پہنچے تو وہاں گائوں کے باہر ایک دروازہ تھا۔ کافی بڑا سا گیٹ۔ ساتھ تھوڑی سی فصل موجود تھی۔ یہ موضع قلعہ نما تھا۔ وہاں بزرگوں نے بتایا کہ سکھوں سے لڑائی میں گیٹ کو نقصان پہنچا تھا۔ دروازے میں بندوقوں سے فائر کرنے کے لیے جھریاں بنی ہوئی تھیں۔ سب کچھ ختم ہوگیا۔
شجاعباد میں فصیل تھی۔ آہستہ آہستہ لوگ اینٹیں اکھاڑ کر لے گئے۔ ساری تاریخ خاموشی سے ختم ہوتی گئی۔ سنا ہے اب تھوڑی سی دیوار باقی ہے۔ اسی طرح تلمبہ میں غضنفر روہتکی کے بیٹے ڈاکٹر شہزاد نے بلایا۔ شہر میں ایک پرانی فصیل کے آثار تھے ۔ چھوٹی اینٹوں والی چوڑی فصیل جس میں دوچار برجیاں سلامت تھیں۔ دوبارہ گیا تو سب کچھ برباد ہوا پڑا تھا۔ چولستان میں قلعے تھے۔ دین گڑھ ، موج گڑھ اور دراوڑ۔ دراوڑ کا قلعہ باقی بچا ہے مگر آہستہ آہستہ صحرا کی ریت کے ساتھ ریت ہوتا جارہا ہے۔ سب سے افسوسناک واقعہ یہ ہوا کہ ملتان کے ساتھ کبیر والہ کے نواحی قصبہ سلار واہن سے تھوڑا فاصلے پر
موضع کھتی چور میں ایک چوکور مقبرہ ہے۔ موٹی اینٹوں سے یہ مقبرہ محمود غزنوی کی سپاہ کے ساتھ آنے والے مبلغ خالد ولید کا ہے۔ یہ مقبرہ غوری عہد میں ملتان کے گورنر علی بن کرماخ نے 1175ء سے 1185ء کے درمیانی عرصہ میں بنوایا۔ اس کے چاروں طرف مسجد نما فصیل بند عمارت ہے جو برصغیر جنوبی ایشیا میں اب تک دریافت ہونے والی سب سے قدیم مسجد ہے۔ اس مقبرے میں مغرب کی جانب ایک محراب ہے جس میں پکی ہوئی پختہ مٹی کی اینٹوں کو جوڑ کر خط کوفی میں قرآنی آیات لگی ہوئی تھیں۔1985ء میں یعنی مقبرہ بننے کے آٹھ سو سال بعد یہ پوری محراب چرالی گئی۔ کئی روز بعد ایک غیر ملکی خاتون یہاں آئی تو اس نے دیکھا کہ محراب غائب ہے۔ وہ خاتون پہلے بھی اس مقبرے میں آچکی تھی۔ آثار قدیمہ سے دلچسپی رکھنے والی اس خاتون نے اس چوری پر شور مچایا۔ وہ ڈپٹی کمشنر کو ملی مگر شنوائی نہ ہوئی۔ پولیس سے رابطہ کیا مگر بے سود۔ اخبارات میں کئی خبریں لگیں۔ اوپر سے تھوڑی ہلچل ہوئی۔ کاغذی کارروائی شروع ہوئی۔ خدا کا کرنا یہ ہوا کہ کچھ عرصہ بعد لکڑی کے چالیس کریٹوں میں بند یہ تمام ٹائلیں برآمد ہوگئیں۔ انہیں پاکستان سے باہر بھجوایا جانا تھا مگر چرانے والوں کی بدقسمتی سے پکڑی گئیں۔ یہ ٹائلیں آثار قدیمہ والوں کے سپرد ہوئیں اور پھر ان کا کوئی پتا نہیں چلا۔ تیس سال ہوگئے ہیں ‘مقبرے کی مغربی دیوار میں خالی محراب ہمارا منہ چڑا رہی ہے۔ اسلامی طرز تعمیر کا شاہکار یہ مقبرہ اور مسجد سالانہ مرمت کے فنڈ کو ترستی رہتی ہے۔ اس کی تعمیر نو کے لیے پیسے تو منظور ہوچکے ہیں مگر کبھی پورے ملے نہیں۔ مقبرہ برباد ہو رہا ہے۔ ایک عالی شان عمارت آہستہ آہستہ مٹی ہوتی جارہی ہے۔
مجھے یہ سب کچھ ہیڈرینز وال (Hadrian's Wall)دیکھ کر یاد آیا۔ نیو کاسل میں قلعوں کا ذکر کرتے (بقیہ صفحہ13پر)
ہوئے ڈاکٹر الیاس سے پوچھا کہ نیوکاسل کے قریبی علاقہ نارتھ ٹوئن سائڈ کو '' دیوار کا اختتام‘‘ (Wallsend)کیوں کہا جاتا ہے۔ ڈاکٹر الیاس کہنے لگا یہاں ہیڈ رین وال ختم ہوتی تھی۔ یہ دیوار پورے برطانیہ کو آرپار شرقاً غرباً کراس کرتی ہے۔ 122ء میں شروع ہوکر 128ء میں مکمل ہونے والی یہ دیوار رومن صوبے بریٹانیا کے دفاع کے لیے بنائی گئی تھی۔ یہ دیوار بریٹانیا کے رومن حکمران ہیڈرین نے اپنی سلطنت کے شمالی سرے پر تعمیر کروائی تھی۔ اس کے بارے میں کئی ترجیحات اور وجوہات بیان کی جاتی ہیں ‘ہمیں فی الوقت ان سے کوئی غرض نہیں۔ یہ دیوار برطانیہ کے مغربی قصبے سولوے فرتھ سے شروع ہوکر نیوکاسل کے پاس مشرق میں دریائے ٹائن کے کنارے ختم ہوتی تھی۔ ایک سو ساڑھے سترہ کلومیٹر طویل اس دیوار کی چوڑائی مختلف مقامات پر مختلف ہے۔ یہ آٹھ فٹ سے لے کر بیس فٹ تک چوڑی اور گیارہ فٹ سے بیس فٹ تک اونچی ہے۔ تقریباً ایک ہزار نو سو سال قدیم اس دیوار میں ہر ایک میل کے بعد فوجی برجی اور ہر پانچ میل کے بعد ایک حفاظتی چوکی تھی۔ یہ دیوار ہر ممکنہ حد تک محفوظ رکھی جارہی ہے۔
پارک میں شہر کے اندر یہ دیوار بہترین حالت میں ہے۔ دیوار کے ایک طرف چلنے کا راستہ ہے اور ساتھ جنگلا لگایا گیا ہے۔ دریائے قیوس(River Quse)کے کنارے یہ برجیاں بہترین حالت میں محفوظ ہیں۔ دیوار کو اسی قسم کے پتھر سے مرمت کرکے اصل حالت میں برقرار رکھا ہے جس طرح کہ اصل تھی۔ یہ دیوار شہر میں میلوں گزرتی ہے اور سڑکوں کو کبھی اس کے نیچے سے گزاراگیا ہے اور کبھی اس کی سلامتی کے لیے متبادل راستوں کی شکل دی گئی ہے۔ اس دیوار کی حفاظت کے لیے بلامبالغہ کروڑوں پونڈ خرچ کیے گئے ہیں اور اب بھی اس کی مرمت وغیرہ پر ہر سال لاکھوں پونڈ صرف ہوتے ہیں۔
خدا جانے ہمارے حکمرانوں کو کب یہ بات سمجھ آئے گی کہ ہماری پرانی عمارتیں ہماری تاریخ ہیں۔ ہماری ثقافت کی پہچان ہیں اور ہماری زمین کی آبرو ہیں۔ یہ صرف چند مثالیں تھیں۔ ہزاروں تاریخی یادگاریں مکمل ختم ہوچکی ہیں۔ باقی ماندہ بربادی کی طرف گامزن ہیں۔ فرد سے معاشرے تک اور اداروں سے حکومت تک کسی کو رتی برابر فکر نہیں ہے۔ خدا جانے مقبرہ خالد ولید کی برآمد ہونے والی ٹائلوں کے چالیس ڈبے کہاں غائب ہوچکے ہیں؟ اگر کہیں مٹی تلے دبے پڑے ہیں تو وسیب کا یہ ورثہ واپس آنا چاہیے۔ خالی محراب اپنے گمشدہ اثاثے کی منتظر ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved