دنیا نیوز کے پروگرام ''مذاق رات‘‘ میں معروف اداکار سعود نے ''انکشاف‘‘ کیا کہ گھر والے اُن کی فلمیں مزاح کے کھاتے میں رکھ کر دیکھتے ہیں۔
سعود نے یہ بات از راہِ تفنّن کہی ہوگی مگر ہم تو ایسے تمام جُملوں کو خالص سنجیدگی سے لیتے ہیں۔ سعود کو سوچنا چاہیے کہ اگر گھر والے اُن کی فلموں کو کامیڈی سمجھ کر دیکھتے ہیں تو یہ مقامِ شکر ہے۔ ؎
وہ بے رُخی سے دیکھتے ہیں، دیکھتے تو ہیں
میں خوش نصیب ہوں کہ کسی کی نظر میں ہوں
ایک زمانے سے ہمارے ہاں ایسی فلمیں بنائی جارہی ہیں کہ دو چار ڈھنگ کے ناظرین میسر ہوجائیں تو غنیمت جانیے۔ ایسے میں سعود کے گھر والوں کا اُن کی فلمیں دیکھنا اِس بات کی دلیل ہے کہ اُنہیں خونی رشتوں کا اچھا خاصا پاس ہے، اُن کی آنکھوں میں مُروّت باقی ہے۔
سعود یہ سوچ کر خوش ہو رہے ہوں گے کہ چلیے، گھر والے تو اُن کی فلمیں دیکھتے ہیں‘ مگر سوچنے والی بات یہ ہے کہ ہمارے ہاں جس ٹائپ کی فلمیں بنتی ہیں اُنہیں دیکھنا فلم سٹار کے گھر والوں کی آزمائش کے سِوا کچھ نہیں! گھر والے تو رشتے کا پاس رکھتے ہوئے سعود کی فلمیں دیکھ رہے ہیں مگر ممکن ہے خود سعود اُن کے لیے آزمائش ثابت ہو رہے ہیں۔
سعود کو یہ وضاحت نہیں کرنی چاہیے تھی کہ اہل خانہ اُن کی فلمیں کامیڈی کے کھاتے میں رکھ کر دیکھتے ہیں۔ ہماری فلم انڈسٹری جس نہج پر قائم ہے اور (ہر طرح کی تنقید کو ٹھوکر مارتے ہوئے) فلموں کے نام پر جو گڑبڑ گھوٹالا وہ تیار کرتی رہتی ہے اُسے کامیڈی کے سِوا کسی کھاتے میں رکھا ہی نہیں جاسکتا!
قدرت نے کچھ ایسا اہتمام کیا ہے کہ ہمارے لالی وُڈ کے فلم میکر خواہ کچھ بنائیں، اُس کی تہہ سے مزاح برآمد ہوکر رہتا ہے۔ ارادہ خواہ کچھ ہو، تان کامیڈی پر ٹوٹتی ہے۔ ؎
میں نے تو یونہی خاک پہ پھیری تھیں انگلیاں
دیکھا جو غور سے، تِری تصویر بن گئی!
لالی وُڈ کی بیشتر فلمیں ناظرین کو سوچنے پر مجبور کرکے دم لیتی ہیں۔ یہ فلمیں ایسے ایسے مناظر پیدا کرتی ہیں کہ اِنسان دیکھے تو دنگ رہ جائے اور یہ سوچنے پر مجبور ہو کہ جو کچھ دیکھا ہے اُسے کس کھاتے میں رکھے۔ کسی سین میں اگر اداکار بھرپور جذباتی ہوجائیں تو لوگ ہنستے ہنستے لوٹ پوٹ ہوجاتے ہیں۔ ہیروئن مست و بے خود ہوکر والہانہ رقص فرمانے پر تُل جائے تو عملی مزاح کی انتہا جنم لیتی ہے! اور ستم ظریفی ء حالات کی انتہا یہ ہے کہ اگر کوئی فلم میکر اپنی فلم کی تیاری کے دوران دعویٰ کرتا ہے کہ وہ کامیڈی تیار کر رہا ہے تو حتمی نتیجہ دیکھ کر لوگوں کے آنسو تھمنے کا نام نہیں لیتے۔
ہر دور میں لالی وُڈ کی فلموں سے ناظرین کی تفریحِ طبع کے علاوہ بھی کئی کام لیے جاتے رہے ہیں۔ اگر کسی عادی مجرم کو کمرے میں بند کرکے تین سُپر ہٹ فارمولا فلمیں تواتر سے دکھائی جائیں تو وہ کیا، اُس کا باپ بھی سارے جرائم کا اعتراف کرے گا! اگر کوئی ہماری بیان کردہ اِس ترکیب پر عمل کرنے کا ارادہ رکھتا ہو تو احتیاطاً دماغی امراض کے کسی ماہر کو بھی ساتھ رکھے تاکہ وہ صورتِ حال کو سنبھال لے۔
مرزا تنقید بیگ بچپن ہی سے فلمی کلچر کے دیوانے رہے ہیں۔ فلمیں دیکھ دیکھ کر صرف شکل ہی نہیں بلکہ اُن کی پوری زندگی خاصی ڈرامائی شکل اختیار کرگئی ہے! وہ سیدھی سی بات بھی کرتے ہیں تو گھر والے فلمی جُملہ سمجھ کر قبول کرتے ہیں۔ کمال یہ ہے کہ اپنی اِن باتوں پر مرزا خاصے نازاں بھی دکھائی دیتے ہیں یعنی لالی وُڈ کا زہر کام کرگیا ہے!
مرزا چونکہ بچپن سے لالی وُڈ کی فلمیں دیکھتے ہیں آئے ہیں اِس لیے وہ اِن فلموں کے ''رمز شناس‘‘ ہیں۔ کہتے ہیں: ''سُلطان راہی کی شکل میں ہمیں ایک جینیس اداکار ملاتھا مگر اُس کی للکار سے وہ کام نہیں لیا گیا جو لیا جاسکتا تھا۔ مگر خیر، اب بھی کچھ نہیں گیا۔ سُلطان راہی کی فلمیں تو موجود ہیں۔ آپریشن تھیٹر میں اگر کسی مریض کے دِل کی دھڑکن بند ہوگئی ہو اور بار بار جھٹکے دینے پر بھی حوصلہ افزا ریسپانس نہ مل رہا ہو تو سُلطان راہی کی کوئی بھی یادگار للکار ذرا بلند والیوم سے سُنائے جانے پر مریض کی دھڑکن ہی بحال نہیں ہوگی بلکہ اٹھائیس طبق روشن ہوجائیں گے! ضمنی شرط یہ ہے کہ مریض کو سُلطان راہی کا وہ جُملہ سُنایا جائے جس میں وہ کسی 'کافر‘ کو للکار رہے ہوں!‘‘
مرزا کچھ کہیں اور اُس سے متفق نہ ہوا جائے؟ ع
یہ تاب، یہ مجال، یہ جرأت نہیں مجھے
مگر احتیاطاً عرض کردیں کہ سُلطان راہی مرحوم کی شاندار و پُروقار اور ''مومن کی نئی شان، نئی آن‘‘ والی للکار سے سوئی ہوئی دھڑکنیں جاگنے کے بعد بے ترتیب ہوجائیں تو ذمہ دار کون ہوگا؟ اچھا ہے کہ کسی مریض پر کوئی ایسا تجربہ کرنے سے قبل ماہرین کی مدد سے سُلطان راہی، مصطفی قریشی، اقبال حسن اور شان کی بڑھک کی حقیقی potency معلوم کرلی جائے! کہیں ایسا نہ ہو کہ بہت سے لوگ over-dose پاکر تاریک راہوں میں مارے جائیں اور لالی وُڈ مفت میں مزید بدنام ہو۔
بہت سے لوگ لالی وُڈ کو فلم انڈسٹری تسلیم کرنے ہی سے انکار کردیتے ہیں۔ مرزا ایسے لوگوں سے خوش نہیں۔ وہ کہتے ہیں: ''ہمارے خیال میں یہ اوّل درجے کی زیادتی ہے۔ ایمان داری کی بات یہ ہے کہ لالی وُڈ میں (ڈھنگ کی یا بغیر ڈھنگ کی) فلم بنانے پر جس قدر محنت کرنی پڑتی ہے، جتنا پیسہ اور پسینہ بہانا پڑتا ہے اُس کے پیش نظر ملک میں حقیقی انڈسٹری تو یہی ایک ہے! انڈسٹری اُسی شعبے کو کہتے ہیں نا جس میں باضابطہ محنت کرنا پڑتی ہے۔ اِس اُصول کو ذہن نشین رکھتے ہوئے کسی بھی فلم میکر سے پوچھیے کہ اُسے کن مراحل سے گزرنا پڑتا ہے۔ جو کچھ وہ بتائے گا اُس کے ذریعے آپ کو لالی وُڈ کے فلم انڈسٹری ہونے کا یقین آجائے گا!‘‘
مرزا کا استدلال ہے کہ لالی وُڈ پر طرح طرح کے الزام کسی جواز کے بغیر عائد کئے جاتے رہے ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ لالی وُڈ نے ہمیشہ وہی دیا ہے جو لوگ چاہتے ہیں۔ اب یہ تو لوگوں کا قصور ہے کہ اپنی پسند کی چیز پاکر بھی لالی وُڈ سے وابستہ لوگوں کو لتاڑتے رہتے ہیں۔
ایک زمانے سے یہ راگ الاپا جارہا ہے کہ لالی وُڈ میں چند فارمولوں پر مبنی فلمیں بنائی جاتی رہی ہیں۔ مرزا کہتے ہیں: ''لالی وُڈ کے فلم میکرز پر فارمولا فلمیں بنانے کا الزام انتہائی بھونڈا ہے۔ اِس بات پر لوگ غور نہیں کرتے کہ کسی فارمولے کے تحت بنائی جانے والی چیز آسانی سے سمجھ میں آجاتی ہے۔ جب فارمولا لوگوں کے ذہنوں میں فِٹ ہوجائے تو کہانی کو سمجھنے کے لیے زیادہ سَر کھپانا نہیں پڑتا اور فارمولا فلمیں بنانا تو کائناتی طریقہ ہے۔ یہ پوری کائنات چند فارمولوں یعنی کبھی تبدیل نہ ہونے والے اُصولوں پر اُستوار ہے۔ کائنات کی ساخت پر تو کوئی معترض نہیں ہوتا، ہاں لالی وُڈ پر الزام دَھرنے سب کھڑے ہوجاتے ہیں!‘‘
مرزا نے سولہ آنے درست بات کہی۔ لالی وُڈ اب تک فارمولوں پر چل رہا ہے۔ اِس میں بچت کا پہلو ہے یعنی سرمایہ ضائع ہونے کا خطرہ کم سے کم ہوتا ہے۔ ویسے بھی ہم مرزا سے متفق کیوں نہ ہوتے۔ اگر کہیں وہ غُصّے میں آکر سُلطان راہی کی للکار ہم پر آزما بیٹھتے تو ہم کہاں جاتے۔