کیوں نہ آپ کو پاکستانی جنگوں کی کہانی سنا دی جائے؟ ہماری پہلی جنگ قائد اعظمؒ اور لیاقت علی خان کی زندگی میں‘ اکتوبر 1947ء میں شروع ہوئی تھی۔ یہ جنگ دونوں لیڈروں کے علم اور خواہش کے بغیر‘ اچانک شروع کر دی گئی۔ چند فوجی کمانڈروں کا خیال تھا کہ ہمیں کشمیر پر فوجی قبضہ کر لینا چاہیے۔ اس وقت پاکستان اور بھارت‘ دونوں کی افواج کا کمانڈرانچیف‘ ایک ہی انگریز جنرل سر فرینک والٹر میسروی تھا ۔ پاکستان اور بھارت‘ دونوں کی فوجیں اسی کے زیرکمان تھیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب‘ اسے کشمیر میں فوجی کارروائی کے لئے کہا گیا‘ تو اس نے یہ کہہ کر معذرت کر لی کہ ''جنگ کی صورت میں دونوں طرف انگریز آفیسرز کو ایک دوسرے کے خلاف آنا پڑے گا اور میں نہیں چاہتا کہ ہمارے فوجیوں کی جانیں ایک ایسی جنگ میں ضائع ہوں‘ جو ہماری نہیں۔‘‘ پاکستان کے جو فوجی افسر‘ کشمیر پر حملے کے لئے بے چین تھے‘ انہوں نے قبائلی سرداروں سے گٹھ جوڑ کر کے‘ انہیں کشمیر میں داخل ہونے کے لئے کہا اور جو سودا ہوا‘ وہ جنرل اکبر خان کے الفاظ میں یہ تھا: ''قبائلیوں کو کشمیر میں جا کر لڑنے کے عوض‘ وہاں لوٹ مارکرنے کی اجازت دی گئی۔ یہ میجرخورشید انور کے ساتھ ہونے والے معاہدے کا حصہ تھا‘ جو اپنی زیرقیادت انہیں محاذ کی طرف لے جا رہے تھے۔ شرط یہ تھی کہ وہ صرف غیرمسلموں کو لوٹیں گے‘ مسلمانوںکو نہیں۔ ‘‘ قبائلیوں نے سب سے پہلے موجودہ آزاد کشمیر میں ہی‘ اپنے ہاتھ دکھائے اور جب وہ سری نگر کی طرف بڑھنے لگے‘ تو لوٹ مار کرتے یہ قبائلی ہوائی اڈے تک جا پہنچے۔ جیسے ہی وہ مال غنیمت لوٹنے کے لئے‘ سری نگر شہر کی طرف بھاگے‘ بھارت نے خالی ہوائی اڈے پر فوجیں اتارنا شروع کر دیں۔ اس زمانے کے فوجی کف افسوس ملتے ہوئے بتاتے ہیں کہ اگر قبائلیوں نے ہوائی اڈے پر قبضہ پکا کر لیا ہوتا‘ تو بھارتی فوجیں سری نگر میں اتر ہی نہیں سکتی تھیں۔ یہ تھی پاکستان کی پہلی جنگ‘ جو لیڈروں کے احکامات کے بغیرافراتفری کے عالم میں شروع کی گئی اور بھارت کو وادی پر فوجی قبضہ کرنے کا موقع مل گیا۔
ہماری دوسری جنگ‘ 1965ء میں چھمب جوڑیاں سیکٹر میں ہوئی۔ اس کا منصوبہ فیلڈ مارشل ایوب خان نے بنایا تھا۔ انہوں نے پاک فوج کے آٹھ دس ہزار کے قریب جوانوں کو‘ گوریلا جنگ کی تربیت دے کر‘ بھارت کے زیر قبضہ ‘مقبوضہ کشمیر میں داخل کر دیا۔ جنرل صاحب اور ان کے ساتھیوں نے گوریلا جنگوں کے قصے کہانیاں پڑھ رکھی تھیں۔ ان کا خیال تھا کہ یہاں سے مجاہدین آزادی ‘مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوں گے‘ تو وہاں کے مسلمان‘ ان کی آئو بھگت کرتے ہوئے‘ گوریلا جنگ میں ان کا ساتھ دیں گے اور وہ پورے مقبوضہ کشمیر میں پھیل کر قبضہ کر لیں گے۔ لیکن جیسے ہی مجاہدین مقبوضہ کشمیر میں داخل ہوئے‘ مقامی آبادی نے ان اجنبیوں کو اچانک دیکھ کر‘ مقامی فوج کو خبریں دینا شروع کر دیں۔ مجاہدین پکڑے جانے لگے اور آخر کار پاکستان اور بھارت کو جنگ بندی لائن کے دونوں طرف‘ اپنے اپنے مقبوضہ علاقوں پر قناعت کرنا پڑ گئی۔ بھارت معاملے کو اقوام متحدہ میں لے گیا۔ وہ دن اور آج کا دن‘ یہ معاملہ اقوام متحدہ میں پڑا ہے اور ہمارے سیاسی اور عسکری ماہرین اس خیال میں بیٹھے ہیں کہ اقوام متحدہ انہیں کشمیر دلا دے گی‘ جبکہ امریکہ اور بھارت ‘ اقوام متحدہ کو قائل کرنے میں مصروف ہیںکہ کشمیر پر پاس کی گئی قراردادوں کو ڈیڈ قرار دے کر‘ ہمیشہ کے لئے منجمد کر دیا جائے۔ مجھے شک ہے کہ ہماری حکومت کو ان تیاریوں کی خبر بھی نہیں لگی ہو گی۔
تیسری جنگ ہم نے مشرقی پاکستان میں‘ بھارت کے منصوبوں کے عین مطابق لڑی۔ پاکستان میں عام انتخابات ہوئے‘ تو دو بڑی جماعتیں اکثریت حاصل کر کے‘ پارلیمنٹ میں آئیں۔ ایک عوامی لیگ تھی‘ جس کے قائد شیخ مجیب الرحمن تھے۔ دوسری پاکستان پیپلزپارٹی‘ جس کے رہنما ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ یہ دونوں لیڈر اس قابل تھے کہ پاکستان کا پہلا دستور ایک منتخب پارلیمنٹ میں تیار کرتے۔ دونوں صوبوں کے مابین تلخیوں سے بھری ہوئی تاریخ تھی اور ان دونوں لیڈروں کو ان تلخیوں کو عبور کرتے ہوئے‘ ایک متفقہ آئین تیار کرنا تھا۔ ان کے مذاکرات ابھی جاری تھے کہ جنرل یحییٰ خان نے دونوں کو الگ الگ گمراہ کر کے‘ اپنی کرسی پکی کرنا شروع کر دی۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ دونوں یحییٰ خان کو ملک کا صدر تسلیم کر لیں اور ان کی نگرانی میں آئین بنائیں۔ اگر اقتدار کا یہ تیسرا امیدوار میدان میں نہ آتا‘ تو سیاسی لیڈروں کے لئے اتفاق رائے سے آئین بنانا ممکن تھا۔ اگر عہدوں پر جھگڑا بھی ہوتا‘ تو ذوالفقار علی بھٹو کو صدر بننے پر آمادہ کیا جا سکتا تھا اور شیخ مجیب وزیراعظم بن جاتے۔ آج پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات مثالی ہوتے اور خطے میں امن مستحکم ہو چکا ہوتا۔ یہ جنگ ہمیں کیوں لڑنا پڑی؟ صرف اس وجہ سے کہ یحییٰ خان ملک کی کرسی صدارت پر فائز ہونے کو بضد تھا۔
چوتھی جنگ کارگل پہ ہوئی۔ اچھی خاصی سفارتی کوششوں کے بعد‘ اس وقت دونوں ملکوں کے وزرائے اعظم‘ واجپائی اور نوازشریف‘ نے امن کا ایک ایجنڈا تیار کرنے پر آمادگی ظاہر کی۔ واجپائی پہل کرتے ہوئے‘ بس میں بیٹھ کر خود لاہور آئے اور بھارت کی سول سوسائٹی کے مشہور اور نامور لوگوں کو بھی ساتھ لے کر آئے۔ وہ مینار پاکستان پر گئے اور وہاں رکھے رجسٹر پر پاکستان کی آزادی و خودمختاری کو تسلیم کرتے ہوئے‘ امن کی خواہش کا اظہار کیا۔ اس کا پس منظر یہ ہے کہ جس پارٹی کے واجپائی وزیراعظم تھے‘ وہ پاکستان کا وجود تسلیم کرنے کو تیار نہیں تھی۔ اس کی قیادت‘ اکھنڈ بھارت کے نعرے لگایا کرتی تھی۔ جب اسی پارٹی کے وزیراعظم نے پاکستان کی آزادی و خودمختاری کا حق تسلیم کر لیا‘ تو انتہاپسند ہندوئوں کی اپنی پارٹی‘ ان کے کنٹرول سے باہر ہو گئی۔ امن کا راستہ کھلنے لگا اور دونوں رہنمائوں میں یہ طے ہو گیا تھا کہ سال کے آخر تک معاہدہ امن پر دستخط ہو جائیں گے۔ اس سلسلے میں تنازعہ کشمیر کے حل کے لئے جو راستہ ڈھونڈا گیا‘ اسے دونوں ملکوں اور کشمیری عوام کی قیادت نے خوش دلی سے تسلیم کر لیا تھا۔ میں اس کی تفصیل انہی دنوں ایک کالم میں لکھ چکا ہوں۔ خلاصہ یہ ہے کہ دونوں طرف کشمیر میں ایک عارضی انتظام کر کے 25سال کے لئے اسے چلایا جانا تھا اور اس کے بعد فیصلہ کرنا تھا کہ تینوں طاقتیں یعنی کشمیر‘ بھارت اور پاکستان کیا اس انتظام کو مستقل کرنا چاہتے ہیں یا مزید کچھ عرصے کے لئے طول دینا؟ یہ امن کا ایک جامع منصوبہ تھا۔ اس میں تینوں فریق اپنا اپناحصہ ڈالتے۔ لیکن اس سے پہلے کہ مذاکرات آگے بڑھتے‘ پاکستانی فوج کے کچھ جنونی اور باغی جنرلوں نے‘ ایک بار پھر وزیراعظم کی اجازت لئے بغیر ‘ پاکستانی فوج کے افسروں اور جوانوں کو وردی کے بغیر کارگل پر چڑھا دیا۔ امن معاہدے کے خواب ٹوٹ گئے۔ پاک بھارت کشیدگی ایک بار پھر عروج پر پہنچ گئی اور اس وقت کے لگے ہوئے زخم دوبارہ نہ بھر سکے۔ بلکہ ہر گزرتے دن کے ساتھ ان زخموں کو ناخن سے کریدا جا رہا ہے۔ مجھے نہیں لگتا کہ اب پیشگی شرطوں کے بغیر‘ پاکستان اور بھارت مذاکرات شروع کر سکیں گے۔ اب مجھے بھارت کی ضد ہی پوری ہوتی ہوئی لگتی ہے۔ پہلے ہم کہاکرتے تھے کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ حل کرو۔ اس کے بعد باقی باتیں ہوں گی۔ اب بھارت یہ کہا کرے گا کہ پہلے کشمیر کا مسئلہ حل کرو‘ باقی باتیں بعد میں ہوں گی۔ ہماری آخری جنگ‘ افغانستان کے محاذ پر ہوئی۔ وہ بھی ہم نے حسب روایت کسی منصوبہ بندی اور تیاری کے بغیر کی۔ بلکہ یوں کہیے کہ اس جنگ کو آگے بڑھ کر اپنے آپ پر مسلط کیا۔ اب یہ جنگ ٹلتی نظر نہیں آ رہی ۔ اس ایک جنگ میں سے‘ اب تک تین جنگیں نکل چکی ہیں۔ پہلی سوویت یونین کے خلاف‘ دوسری امریکہ کی پٹھو افغان حکومت کے خلاف اور تیسری ان طالبان کے خلاف‘ جنہوں نے ہماری ہی سرزمین پر جنم لیا اور اب ہمارا ہی خون بہا رہے ہیں۔ میں پاک افواج کو سلام کرتا ہوں کہ انہوں نے بے مثال قربانیاں دے کر‘ تحریک طالبان کے مراکز ختم کئے‘ لیکن جنگ ابھی ختم نہیں ہو گی۔ یہ نئے نئے روپ دھارکے ہمارا پیچھا کرے گی۔ یہاں تک کہ جنگ کا یہ سلسلہ پھیلتاہواشرق اوسط کے مرکز تک جا پہنچے گا۔ اس مرکز کی طرف ہم براستہ ایران نہیں‘ براستہ یمن جائیں گے۔ یمن کی جنگ ‘ حوثیوں اور سعودیوں کے درمیان نہیں‘ اس کے بہت سے فریق ہیں۔ پہلے تو دونوں سابق صدور کے حامی ہیں‘ جو باہم برسرپیکار ہیں۔ یمن کے اندر ہی القاعدہ ہے‘ جو بہت بڑے علاقے پر قبضہ جما چکی ہے اور یمنی تیل کے ذخیرے سب کے نشانے پر ہیں۔ اندازہ یہ ہے کہ ان پر القاعدہ قبضہ جمائے گی۔ القاعدہ‘ سعودی عرب کے اندر کارروائیاں کرے گی اور بعد میں سعودی عرب اور اس کے حامی ‘ القاعدہ کا پیچھا کرتے ہوئے یمن میں داخل ہوں گے۔ آگے‘ چل سو چل۔ کون سے مذاکرات؟ کون سا امن؟ کئی ملک پڑے ہیں۔ کئی حکومتیں پڑی ہیں۔ تہہ در تہہ جنگ۔ افغان جنگ کا خرچ‘ امریکیوں نے اٹھایا۔ یمن کی جنگ کا خرچ‘ سعودی اٹھائیں گے۔ ہم صرف میتیں اٹھائیں گے اور نوٹوں کے بنڈل۔