حالات کا دھارا ایک عجیب سمت میں بہہ رہا ہے ۔ کسی کو اس پر اختیار نہیں ۔ یہ دور پاکستانی تاریخ کے فیصلہ کن لمحات میں شمار ہوگا۔ آنے والا وقت اپنے دامن میں خوشحالی اور امن لے کر آئے گا۔ انشاء اللہ ۔
قرآن میں لکھا ہے کہ اللہ کے لشکروں کو اس کے سوا اور کوئی نہیں جانتا۔حالات اسی کے ہاتھ میں ہیں ۔ سب انسانوں کے دماغ اس کی مٹھی میں ۔انہیں آپس کی لڑائیوں میں وہ کمزوراور تباہ کر ڈالتاہے ۔ (مفہوم)
یمن کو چھوڑیے کہ یہ ایک عارضی مسئلہ ہے ۔حوثی تادیر اپنی مرضی نہ کر سکیں گے ۔ صدر منصور ہادی کی حکومت بحال ہو گی یا ایک قومی حکومت تشکیل دی جائے گی ‘ایک توازن پاکستان کو بہرحال برقرار رکھنا اور ہر قیمت پر یمن کی اندرونی محاذ آرائی میںشراکت دار بننے سے بچنا ہے ۔ سعودی عرب کی حدود کے اندر پاک فوج کی تعیناتی سے ناراضی ختم کی جا سکتی ہے اور اس میں کوئی حرج نہیں ۔ یہ بات اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہے کہ شدید خطرات سے دوچار عر ب ریاستیں پاکستان جیسے اعلیٰ عسکری صلاحیت رکھنے والے دوست ملک سے تعلقات مستقل طور پر ختم نہیں کرسکتیں ۔
پاکستانی سیاست کو دیکھیے ، جہاں ایک کے بعد دوسری پیش رفت جنم لے رہی ہے ۔ حالات میں جوہری تبدیلی ہو رہی ہے ۔ ابھی کچھ عرصہ قبل تک کو ئی سوچ بھی نہ سکتاتھا کہ جرائم پیشہ افراد کے تعاقب میں رینجرز نائن زیرو کے اندر داخل ہوں گے ۔ کسی کو کیا خبر تھی کہ متحدہ میں شامل ہونے کے بعد نبیل گبول مستعفی ہو جائیں گے ۔ این اے 246میں دوبارہ الیکشن ہوگا اور رینجرز کی نگرانی میں ۔یہ انتخاب بذاتِ خود دھاندلی جانچنے کا ایک پیمانہ ہوگا۔ عمران اسمٰعیل اگر جیت گئے ؛ حتیٰ کہ چند ہزار ووٹوں کے فرق سے ہار بھی گئے تو شہر کی سیاست بدل کے رہ جائے گی ۔ پھر کون یہ مانے گا کہ 2013ء میں ایم کیو ایم کی فتح شفاف تھی ۔
کراچی سمیت پورے ملک کے الیکشن ہوں تو من مانی کی جا سکتی ہے ۔ ایک واحد حلقے کے انتخاب میں دھاندلی ناممکن ہی ہوگی ۔ وہ بھی اس وقت جب رینجرز کے آپریشن نے مجرموں کا خوف بڑی حد تک دور کر دیا ہو ۔ گزشتہ دنوں حلقے میں تحریکِ انصاف اور جماعت ِ اسلامی سے ایم کیو ایم کی جو جھڑپیں ہوئی ہیں ، بظاہر خرابی کے باوجود درحقیقت وہ شفاف الیکشن کی بنیاد بنیں گی ۔ انہی کی بنیاد پر الیکشن کمیشن نے تحریکِ انصاف کی یہ درخواست منظور کی کہ پولنگ سٹیشنوں کے اندر اور باہر مسلّح اہلکار تعینات کیے جائیں ۔ کراچی کی نفسیات پر جس خوف نے غلبہ پا رکھا تھا، عمران فاروق قتل اور منی لانڈرنگ کیس کے آگے بڑھنے کے ساتھ ساتھ وہ ٹوٹتا جا رہا ہے ۔ملک کا سب سے بڑا شہر آزادی کی طرف بڑھ رہا ہے ۔
ادھرچیف جسٹس کی سربراہی میں اعلیٰ عدالتی کمیشن کی تشکیل سے دھاندلی کا تنازعہ اب تصادم کی بجائے تصفیے کی طرف بڑھے گا۔ چیف جسٹس کی سربراہی میں کمیشن کے فیصلے پر نون لیگ اور تحریکِ انصاف ، دونوں کے لیے اعتراض کی گنجائش باقی رہے گی اور نہ حکم عدولی کا کوئی راستہ ۔کسی سیاسی جماعت نے ایسا طرزِ عمل اختیار کرنے کی کوشش کی تو وہ نقصان اٹھائے گی ۔
جہاں تک سکیورٹی معاملات کا تعلق ہے ،دہشت گردوں کے لیے ایک ہدف کا تعین ، طویل منصوبہ بندی اور پھر اس پر عمل درآمد آسان ہے ۔ اسی لیے پشاور اور تربت جیسے سانحے رونما ہوتے ہیں۔ اعدادو شمار کی روشنی میں ، یہ بات واضح ہے کہ شمالی وزیرستان آپریشن کے بعد سے دہشت گرد حملوں میں نمایاں کمی آئی ہے ۔جنرل کیانی کی پیشین گوئی کے مطابق چالیس فیصد تک ۔ افغانستان سے جڑے ہوئے قبائلی علاقوں پر فوج کی گرفت مضبوط ہوئی ہے ، جو دہشت گردوں کا سب سے بڑا ٹھکانہ تھے ۔افغانستان میں طالبان اور اشرف غنی کی حکومت اگر شراکتِ اقتدار کے کسی معاہدے پر متفق ہو سکی تو پاکستان کی سلامتی پر اس کے مثبت اثرات ہوں گے۔ پاک افغان سرحد پر نگرانی کا مشترکہ اور فعال سسٹم بنایا جا سکتاہے ۔ غیر قانونی آمدورفت والے مقامات پر باڑ اور بارودی سرنگیں بچھائی جا سکتی ہیں ۔دونوںحکومتوں کے لیے یہ آمدورفت پریشانی کا باعث ہے ۔
پیپلز پارٹی بھی اپنی تاریخ کے بدترین دور سے گزر رہی ہے ۔ اس قدر کمزور وہ کبھی نہ تھی ۔ اسے خوب آزمایا گیا او روہ ناکام رہی ۔ اب کوئی مظلومیت، کوئی حیلہ اس کے کام آنے کا نہیں ۔ دھڑے بندی ، اختلافات ، سکینڈل ، ایسا لگتاہے کہ مکمل بربادی اس کی منتظر ہے ۔ مجھے تو ایسا لگتاہے کہ آنے والے برسوں میں پیپلز پارٹی کا تنظیمی ڈھانچہ بھی برائے نام ہی رہ جائے گا۔
ادھر کشمیر میں فتح کے بعد کراچی کے میدان میں اترنے والی تحریکِ انصاف بھی جوہری تبدیلی کے عمل سے گزرنے والی ہے ۔پانچ ماہ قبل پیش کی جانے والی جسٹس وجیہہ الدین کمیٹی کی سفارشات کے مطابق گزشتہ پارٹی انتخابات دھاندلی زدہ قرار دیتے ہوئے پارٹی تنظیمیں تحلیل کر دی گئی ہیں ۔ فی الحال یہ سارا معاملہ کراچی الیکشن کے ہنگامے میں چھپا ہوا ہے ۔ آنے والے مہینوں میں پارٹی کو بہرحال بڑی کانٹ چھانٹ کے عمل سے گزرنا ہوگا۔ پارٹی الیکشن میں دھاندلی کے مرتکب افراد کے خلاف کارروائی اور فیصلہ سازی کے عمل کو درست نہ بنایا گیا اور مصلحت سے کام لیا گیا تو آنے والے برسوں میں وہ سخت خسارے کا شکار ہو گی ۔ اسی طرح ، جیسے اہلیت رکھنے کے باوجود 2013ء کے الیکشن میں اسے شکستِ فاش سے دوچار ہونا پڑا۔ اس عمل میں دھاندلی نے کتنا کردار ادا کیا ،اس کا فیصلہ تو جوڈیشل کمیشن ہی کرے گا۔ بہرحال درجنوں ایسے امیدواروں کی مثال دی جا سکتی ہے ، جن کی کمزور ساکھ اور نا اہلیت نے اس شکست میں اپنا کردار ادا کیا۔ درست فیصلے کیے جاتے تو پنجاب سے وہ قابلِ ذکر تعداد میں سیٹیں جیت جاتی ۔
تحریکِ انصاف کے دبائو پر نون لیگ کا روّیہ کسی حد تک تبدیل ہوا ہے ۔ اپنے شاہی اندازِ حکمرانی پربہرحال اسے قابو پانا ہوگا۔کپتان کی صورت میں ایک ایسا جلّاد اس کے درپے ہے، جو اس کی ہر غلطی سے فائدہ اٹھانے اور اسے زندہ دفن کرڈالنے کی پوری کوشش کرے گا۔
یہاں میں یہ سوچتا ہوں کہ چند برس بعد جب توانائی بحران ختم ہو چکا ہو گا۔ کراچی آزاد ، سکیورٹی کی صورتِ حال بہتر، خنجراب کاشغر شاہراہ اور اقتصادی زون کی صورت میں جب معاشی سرگرمیاں اپنے عروج پر ہوں گی‘ جب پاکستانی سیاست پہ چھائی دھند صاف ہو گی تو 2001ء سے شروع ہونے والے اس خوفناک عشرے کو ہم ایک ڈرائونے خواب کی طرح یاد کیا کریں گے ۔ایسا خواب جسے بھول جانا ہی بہتر ہوتاہے ۔