کیا آپ تصور کرسکتے ہیں کہ بڑے بڑے جہادی لیڈر بیکریاں یا روز مرّ ہ کا سودے سلف فروخت کرنے والی دکانیں چلانا شروع کردیں گے کیونکہ ان کا جہادی کاروبار بند ہوگیا ہے؟ فی الحال یہ منظرناقابل ِ یقین دکھائی دیتا ہے لیکن جنوبی ایشیا اور اس کے گردو نواح کے خطے میں تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی و جغرافیائی ماحول کی وجہ سے ایسا ہونا بعید از قیاس نہیں۔ امریکہ اور ایران کے تبدیل ہوتے ہوئے تعلقات بھی اس سمت ایک اہم پیش رفت کا باعث ہو سکتے ہیں۔ تہران اور واشنگٹن کے درمیان دوطرفہ تعلقات کا مطلب ایران اور غیر عرب دنیا کے زیادہ تر ممالک کے درمیان روابط کا استوار ہونا ہے۔ اس سے خطے اور ہمارے ملک میں بہت سے معروضات تبدیل ہونے جارہے ہیں۔
1979ء کے اسلامی انقلاب کے بعد مغرب، خاص طور پر امریکہ ، کے ایران کے ساتھ تعلقات کشیدہ ہوگئے؛ تاہم ان کے درمیان روابط مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے۔ درحقیقت ان کے درمیان کئی سطحوں پر تعلقات قائم رہے۔Iran-Contra تعلق بھی ان میں سے ایک تھا۔ اس کے تحت امریکہ نے اسرائیل کے ذریعے خفیہ طور پر ایران کو ہتھیار فراہم کیے۔ اسی طرح ایران سے نقل مکانی کرنے والے افراد کی ایک بڑی تعداد نے مغربی ممالک میں سکونت اختیار کرتے ہوئے ایرانی مسائل، امکانات اور پیچیدگیوں کی بابت اپنے میزبان ممالک کو آگاہ کیا۔ ایران کے جوہری پروگرام پر خدشے کے باوجود ایرانی معاملات کے امریکی ماہرین نے واشنگٹن کو مشورہ دیا کہ ایران کی سٹریٹیجک اہمیت کے پیش ِ نظر اس سے روابط قائم رکھنا اور بات چیت کرتے رہنا بہتر ہوگا۔ ایران کا تبدیل ہوتا سماجی اور سیاسی نظام بھی مغرب کو یاددہانی کراتا تھا کہ انقلاب کے باوجود ابھی تک ایرانی معاشرے میں سیاسی اور سماجی قدریں زندہ اور متحرک ہیں۔
آج بھی امریکی ماہرین کا کہنا ہے کہ نائن الیون کے بعد کی دنیا میں تہران کے ساتھ تعلقات امریکہ کے لیے بہت فائدہ مند ہوں گے ۔ مغربی دنیا میں یہ احساس بڑھتا جارہا ہے کہ انقلاب نے ایرانی معاشرے کے خدوخال کو مکمل طور پر تبدیل نہیں کیا اور سب سے بڑی بات یہ کہ ایرانی، جیسا کہ عام تاثر ہے، فطری طور پر مغرب مخالف ذہنیت نہیں رکھتے۔ ان دونوں عوامل کا ملاپ تہران اور مغرب کے درمیان روابط کی راہ ہموار کرنے میں مدد گار ثابت ہوا۔ اس دوران امریکہ اور ایران کے درمیان ہونے والا ایٹمی معاہدہ مشرق ِ وسطیٰ اور جنوبی ایشیا میں گیم چینجر ثابت ہوگا۔ ہو سکتا ہے کہ تہران ایٹمی ہتھیار بنانے کی صلاحیت پر سمجھوتہ کرلے ، لیکن ایسا کرتے ہوئے وہ خطے میں سیاسی طور پر بہت کچھ حاصل کرلے گا۔ بطور ایک ذمہ دار ریاست‘ ایران کی سیاسی اور آئینی حیثیت کا اعتراف اس کے سیاسی قدکاٹھ کو بڑھا دے گا۔ اس پیش رفت سے مشرق ِ وسطیٰ، خلیجی ممالک اورجنوبی ایشیا میں بسنے والی شیعہ آباد ی کو زیادہ اعتماد ملے گا۔ان علاقوں میں اہل ِ تشیع کی بہت بڑی آبادی ہے اور ماضی قریب میں یہ تشدد اور دہشت گردی کا نشانہ بنی تھی۔ ہو سکتا ہے کہ حالات راتوں رات تبدیل نہ ہوں لیکن اب اگر کوئی ریاست تشدد کو سپانسر کرنا چاہے گی تو اسے زیادہ مزاحمت اور کشمکش کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ معاشی پابندیوں سے آزاد ایران تشدد کا شکار شیعہ آبادی کو ماضی کی نسبت زیادہ تقویت کے ساتھ سپورٹ کرنے کی پوزیشن میں ہوگا۔
اسلام آباد کی طرف سے یمن کی سرحد پر فوجی دستے بھیجنے سے گریزکرنے کی بہت سی وجوہ میں سے ایک ملک میں مسلکی بنیادوں پر نہ ختم ہونے والے تصادم کو شدت اختیار کرنے سے روکنا تھا۔ یمن میں فوجی دستے بھجوانے کا مطلب مشرقِ وسطیٰ کے ایک سرے سے لے کر ایران کی سرحدتک بھڑک اٹھنے والی آگ میں قدم رکھنے کے مترادف ہوگا۔ یہ آگ اُسی صورت بجھ سکتی ہے جب سعودی عرب اور ایران اپنے مشترکہ مسائل اور مسلکی اختلافات کو دوستانہ بنیادوں پر حل کرنے کے لیے تیارہوجائیں۔ اس تصادم کے پاکستان میں ہونے والے اثرات سے سندھ اور بلوچستان ، بلکہ کچھ اور علاقے بھی، عدم استحکام سے دوچار ہوسکتے ہیں۔ اس کشمکش میں جہادی تنظیموں کو جھونکنا عالمی برادری کوپسند نہیں آئے گا۔ مزید یہ کہ اس سے ماضی کی نسبت سکیورٹی کے زیادہ بھیانک مسائل پیدا ہوجائیں گے ۔ یمن کی صورت ِحال پاکستان کے معاشی عوامل کو بھی متاثر کرسکتی ہے۔ درحقیقت پاکستان اور ایران کے درمیان انرجی سیکٹر میں تعاون کے امکانات موجود ہیں۔ فوجی دستے نہ بھیجنے کے فیصلے کے پیچھے شاید یہ بھی ایک عامل ہے۔ اس صورت میں عرب ریاستوں کو اس بات پر غورکرنا ہوگا کہ وسائل کے بل بوتے پر صارفین سے اپنی بات منوانے کی پالیسی اب کام نہیں دے گی۔ یقینا پاکستان سعودی عرب کی سلامتی کے تحفظ کے لیے پرعزم ہے لیکن اُس وقت جب اس پر کوئی غیر مسلم ملک حملہ آور ہو، نہ کہ یہ کسی اور مسلم ملک پر چڑھائی کردے۔ اس کے علاوہ، پاکستان نے سب سے پہلے اپنی سلامتی کو بھی دیکھنا ہے۔
تبدیل ہوتے ہوئے سیاسی‘ جغرافیائی حالات کے حوالے سے با ت کرتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی اور معاشی طورپر مضبوط ایران خطے میں زیادہ اہم کردار ادا کرسکتا ہے ،خاص طور پرا ُس وقت جب وہ امریکہ کے ساتھ مل کر القاعدہ اور دیگر انتہا پسند تنظیموں کے خلاف لڑنے کے لیے تیار ہو۔ اس جنگ میں ساتھ مل کر لڑنے کے لیے اسے نہ صرف مغربی پارٹنر مل جائیں گے بلکہ چین، روس اور بھارت بھی اس کے شانہ بشانہ ہوں گے۔ ان ممکنہ تبدیلیوں کے بہت سے دوررس مضمرات ہوں گے۔ ان میں سے دو ،خاص طورپر پاکستان کے حوالے سے قابلِ ذکر ہیں۔۔۔ پہلا یہ کہ جہادی سوچ کے فروغ کا زمانہ اختتام پذیر ہوجائے گا۔ ہو سکتا ہے کہ راولپنڈی کچھ جہادی تنظیموں کو برقرار رکھنا چاہے لیکن پھر ان کی قیمت بھی بہت بھاری ادا کرناہوگی اور ہو سکتا ہے کہ بدلتے ہوئے حالات میں وہ پراکسی دستے بھارت کے خلاف موثر طریقے سے استعمال بھی نہ ہوسکیں۔ اس کا امکان موجودسہی ، لیکن بھاری قیمت پر۔ کہا جاتا ہے کہ یہ گروہ ریاست کی بل بوتے پر لڑتے رہے ہیں اور بعض مواقع پر ریاست کی خارجہ پالیسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش کرتے بھی پائے گئے ہیں۔ اس وقت کئی گروپ اور تنظیمیں دبائو ڈال رہی ہیںکہ پاکستان سعودی عرب کا دفاع کرتے ہوئے خود کو یمن کی جنگ میں جھونک دے۔ ان جہادی تنظیموں کی جانب سے جہادکو جاری رکھنے کے اصرار کے پیچھے طاقت، وسائل اور مالی فوائد کا حصول اور نظریات کا فروغ کارفرما محسوس ہوتا ہے۔ یقینا وہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی دکان بند ہوجائے ۔ اگرچہ اس وقت حکومت نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد کرنے میں تامل کا شکار ہے، لیکن اسے زیادہ سنجیدگی سے سوچتے ہوئے عوام کے سامنے ایک متبادل بیانیہ رکھناہوگا تاکہ اُن کی فکری رہنمائی کی جاسکے۔
دوسرا اثر یہ کہ سکیورٹی خدمات کی مارکیٹنگ کا دور ختم ہوسکتا ہے۔ اس سے پہلے ہمارا اتحادی، امریکہ بھارت کے ساتھ روابط بڑھا چکا، اور اب اس کے ایران کے ساتھ بھی تعلقات قائم ہورہے ہیں۔ اس دوران تہران اور دہلی کے ماسکو کے ساتھ بھی اچھے تعلقات ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ ان کے درمیان مفادات کا ٹکرائوموجودرہے لیکن یہ اپنے معاملات کوتصادم کی طرف نہیں لے جائیں گے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے تو یمن جنگ کے بعد شاید پاکستان کے عرب دنیا کے تعلقات اُس سطح تک کبھی نہ جاسکیں جس پر یہ پہلے موجود تھے۔ ان حالات میں پاکستان(اور عرب دنیا بھی) پرتشدد تنظیموں کو برداشت کرنے کا متحمل نہیں ہوسکتا۔ اسلام آباد خود کو چین کے مزید قریب کرنا چاہے گا۔ گزشتہ چند ایک دہائیوں سے ہم تنیوں افواج کے ہارڈوئیرکے لیے بیجنگ پر انحصار کررہے ہیں۔ اسلام آباد امریکہ کاحلیف بھی رہے گا لیکن اس کا دفاعی انحصار واشنگٹن کی بجائے بیجنگ پر ہے۔ اس دوران اہم بات یہ ہے کہ ہمیں اپنے سکیورٹی پیراڈائم پر نظر ِ ثانی کرتے ہوئے اپنی ترجیحات کا جائزہ لیناہوگا۔