تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     16-04-2015

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹے

ہم گالی نہیں دیتے‘ عوام کی سیاست
کرتے ہیں... نوازشریف
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''ہم کنٹینر پر کھڑے ہو کر گالیاں نہیں دیتے‘ عوام کی سیاست کرتے ہیں‘‘ جس کا سب سے بڑا ثبوت یہ ہے کہ یہ عوام ہی کا پیسہ ہے جس سے طرح طرح کے گلچھرے اُڑائے جا رہے ہیں اور گالی اس لیے نہیں دیتے کیونکہ جس طرح دونوں ہاتھوں سے ملک اور عوام کی خدمت ہم کر رہے ہیں‘ اس کے بعد اس کی کیا ضرورت رہ جاتی ہے‘ ویسے بھی ایک وقت میں ایک ہی کام ہو سکتا ہے کہ یا تو مال پانی بنائیں یا گالی دیں۔ انہوں نے کہا کہ ''کنٹینر والے صرف گالی دینے کے ماہر ہیں‘‘ اور جن فنون میں ہماری مہارت کا ڈنکا بج رہا ہے ان کا مقابلہ ممکن ہی نہیں۔ ایسی کوئی کوشش محض ایک طفلانہ حرکت ہوگی۔ انہوں نے کہا کہ ''کرپشن کسی صورت برداشت نہیں کی جائے گی‘‘ کیونکہ کرپشن کرنا اور کرپشن برداشت کرنا دو بالکل مختلف چیزیں ہیں‘ ہیں جی؟ انہوں نے کہا کہ ''نوجوانوں کی زندگیوں میں تبدیلی لائیں گے‘‘ جبکہ بوڑھوں کی زندگیوں میں پہلے ہی تبدیلی لا چکے ہیں جو چند ہی برس پہلے نوجوان ہوا کرتے تھے۔ آپ اگلے روز گلگت میں ایک اجتماع سے خطاب کر رہے تھے۔
لوگ آج بھی مجھے وزیراعظم کہتے ہیں... راجہ پرویز اشرف
سابق وزیراعظم‘ رینٹل پاور پلانٹس فیم شخصیت راجہ پرویز اشرف نے کہا ہے کہ ''لوگ آج بھی مجھے وزیراعظم سمجھتے ہیں‘‘ اور‘ یہ بات شاید نیب والوں کو معلوم نہیں ہے جو میرے خلاف کیس دوبارہ کھولنے کی تیاری کر رہے ہیں‘ بلکہ لوگ تو مجھے یوسف رضا گیلانی صاحب سے بھی زیادہ وزیراعظم سمجھتے ہیں کیونکہ میرے کمالات زیادہ تر درپردہ تھے اور اپنی مختصر مدتِ وزارتِ عظمیٰ کے دوران میں نے کافی لیٹ نکال لی تھی اور کروڑوں کے عوض ایسے شرفاء بھرتی کیے تھے‘ بعد میں‘ جن کے بڑے بڑے مطالبات اور سکیمیں تسلیم اور منظور کی جانی تھیں جبکہ گیلانی صاحب سارے کام علی الاعلان کرتے تھے اور اسی لیے بدنام بھی زیادہ ہوئے جبکہ میں موجودہ حکومت کے طریق کار پر عمل کرنے کا زیادہ قائل ہوں جو پوری شرافت اور رازداری سے کام کرتے ہیں اور عام طور پر ڈھکے چھپے بھی رہتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ''عمران دھرنے میں بے نقاب ہو گئے‘‘ جبکہ خاکسار کا نقاب اسی طرح قائم و دائم ہے۔ آپ اگلے روز لاہور میں ایک اخبار کو انٹرویو دے رہے تھے۔
اوکاڑہ کے مزارعے
17 اپریل کو ملٹری فارمز اوکاڑہ کے مزارعین کی طرف سے اپنے حقوق کے لیے پنجاب اسمبلی کے سامنے احتجاج کرنے کی دھمکی کے پیش نظر حکومت‘ مزارعین کے نمائندوں اور متعلقہ افسران کے ایک اجلاس کا لاہور میں اہتمام کیا گیا لیکن اس دوران فریقین کے درمیان کوئی تصفیہ یا مصالحت نہ ہو سکی جبکہ مزارعین نے ڈی پی او اوکاڑہ کے تبادلے تک اپنا احتجاج ختم کرنے یا کال واپس لینے سے انکار کردیا‘ جن کے خلاف ان کا الزام تھا کہ انہوں نے اس جھگڑے میں فریق کی حیثیت اختیار کر لی ہے اور ان کے خلاف غیر قانونی گرفتاریوں اور جھوٹے پرچوں کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے۔ یہ اجلاس بورڈ آف ریونیو کی عمارت میں ہوا جس کی صدارت زکوٰۃ و عشر کے وزیر ملک ندیم کامران نے کی جبکہ اوکاڑہ سے ممبر قومی اسمبلی ندیم عباس ربیرہ‘ سیکرٹری زراعت‘ سیڈ کارپوریشن‘ ساہیوال اور ملتان کے کمشنرز اور دیگران شریک تھے جس میں مزارعین کی نمائندگی غلام عباس سیال‘ قاضی سلیم‘ وزیر سیال‘ لیاقت چیئرمین وغیرہ نے کی۔ پولیس کے مطابق مزارع لیڈر مہر عبدالستار اور مسٹر جھکھڑا‘ چوری وغیرہ کے مقدمات میں مطلوب تھے جبکہ مؤخر الذکر ایک ماہ سے گرفتار تھے۔ مزارعین نے اس سلسلے میں وزیراعلیٰ کو ایک درخواست یاددہانی تحریر کرنے کا اعلان کیا جس میں صاحبِ موصوف نے ان مزارعین کو مالکانہ حقوق دینے کا وعدہ کر رکھا تھا۔ یاد رہے کہ حصولِ حقوق کی تگ و دو میں چند مزارعین نہ صرف قیدو بند کی صعوبتیں اٹھا چکے ہیں بلکہ جانوں کی قربانی بھی دے رکھی ہے۔ ان کا سلوگن ہے ملکیت یا موت! یہ چونکہ قدیمی مزارعین ہیں اس لیے حقوق ملکیت کے لیے ان کی جدوجہد بھی برسوں پر محیط ہے جنہیں تسلیم کرنے کا حکومتیں وعدہ کرتی اور بعد میں مُکر جاتی ہیں! کچھ عرصہ پہلے ان کسانوں کو احتجاج کرنے پر لاٹھی چارج اور دھلائی کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ اس کے بعد نابینائوں کی باری آئی اور اب خبر ہے کہ ان کے مطالبات تسلیم کر لیے گئے ہیں؛ چنانچہ اگر مطالبات تسلیم کروانے کی شرط یہی ہے تو مزارعین کو بھی لاٹھی چارج کے مرحلے سے گزر جانا چاہیے۔
آج کا مقطع
اصرار تھا انہیں کہ بھلا دیجیے‘ ظفرؔ
ہم نے بھلا دیا تو وہ اس پر بھی خوش نہیں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved