و روز پہلے سری نگر سے ایک پیکٹ موصول ہوا‘ اس میں ایک کتاب ''تاریخ سیاست کشمیر‘‘ تھی۔ اس کے مصنف ڈاکٹر آفاق عزیز‘سنٹر آف سنٹرل ایشین سٹڈیز کشمیر یونیورسٹی سری نگر‘ کا خط تھا۔ پیش خدمت ہے۔
''سب سے پہلے آپ مبارکباد قبول کریں۔ وہ‘ اس لئے کہ آپ جس بے باکی اور حقیقت پسندانہ طرزعمل کو اپنائے ہوئے ہیں‘ وہ انتہائی قابل قدر اور قابل ستائش ہے۔ تحقیق اور حقیقت پر مبنی مضامین‘ جو آپ کے قلم سے صفحہ قرطاس پر رقم ہوتے ہیں‘ سماج کے آئینہ دار ہوتے ہیں۔ اگر آپ کا قلم اسی طرح جاری رہا‘ توسوسائٹی میں سدھار آنے کی امید کی جا سکتی ہے۔‘‘
دو دن پہلے‘ کشمیریوں نے سری نگر میں جو زبردست احتجاجی مظاہرہ کیا‘ اسے دیکھ کر اندازہ ہوا کہ آزادیٔ کشمیر کی تحریک ‘ کشمیریوں کی نئی نسل میں‘ کس حد تک گہری ہو چکی ہے؟ اگر تحریک آزادی کے دور کا کوئی کشمیری زندہ بھی ہے‘ تو اس کی عمر 80سال کے لگ بھگ ہونی چاہیے۔ اس عمر میں ‘ انسان عملی زندگی سے عموماً ریٹائر ہو چکا ہوتا ہے۔ جو لوگ مظاہرے میں شریک تھے‘ انہوں نے مقبوضہ کشمیر کے اندر ہوش و حواس سنبھالا اور ان کے لئے آزادی کشمیر کا نعرہ لگانا ‘ جان پر کھیلنے کے مترادف ہے۔ لیکن وہ لوگ‘ بھارتی فوج کے ہوتے ہوئے‘ جرأت اور بہادری کے ساتھ سڑکوں پر نکل کر نہ صرف کشمیر کی آزادی بلکہ پاکستان زندہ باد کے نعرے بھی لگاتے ہیں۔ ''تاریخ سیاست کشمیر‘‘ ایک تحقیقی مقالہ ہے‘ جس میں مصنف نے ایک کشمیری کے نقطہ نظر سے ریاست کی المناک تاریخ کا جائزہ لیا ہے۔ ارادہ ہے کہ اسے سنڈے ایڈیشن میں قسط وار شائع کروں۔ انشاء اللہ جلد ہی تاریخ کا اعلان کر دیا جائے گا۔ آج میں اس کتاب کے چند صفحات پیش کر رہا ہوں۔
''یہ بات اظہرمن الشمس ہے کہ 1320ء سے لے کر دور حاضر تک کسی بھی حکمران نے کشمیریوں کو اعتماد میں لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ رینچن کشمیر کے تخت شاہی پر بیٹھا لیکن شب خون مار کر شہمیر بادشاہ بنا۔ مگر مقامی عہدیداروں کو ہٹا کر۔ مغلوں نے شیعہ سنی فسادات کروا کر کشمیر پر قبضہ کیا۔ افغانوں اور سکھوں نے طاقت کے بل پرکشمیر کو اپنے ماتحت کیا‘ جبکہ ڈوگروں نے انسانوںسمیت کشمیر کا ذرہ ذرہ خرید کر اس پر مالکانہ حقوق حاصل کئے۔ اسی طرح 1947ء میں پاکستان نے مسلم کانفرنس جیسی پاکستان حامی تنظیم کو اہم مشوروں اور فیصلوں سے دور رکھا۔ اس تنظیم نے ابتداء سے ہی کشمیر کا الحاق پاکستان کے ساتھ کرانے کی منظم تحریک چلائی تھی‘ جس کے روح و رواں چودھری غلام عباس خان‘ عبدالقیوم خان‘ سردار محمد ابراہیم خان‘ مولوی محمد یوسف شاہ‘ خواجہ غلام الدین وانی‘ چودھری حمید اللہ خان اور محمد یوسف قریشی تھے۔ 12 ستمبر 1947ء کو جب پاکستانیوں نے ملک کشمیر پر حملہ کرنے کا فیصلہ کیا تو مذکورہ لیڈروں کے ساتھ صلاح و مشورہ کرنا انہیں گوارا نہ ہوا۔ مولوی محمد یوسف شاہ اور الحاق پاکستان کے سب سے بڑے حامی سردار محمد ابراہیم خان سمیت سبھی لیڈران ان دنوں پاکستان میں موجود تھے۔ موخرالذکر کے تئیں پاکستانی رویہ کے بارے میں صراف لکھتے ہیں:
"Even Sardar Ibrahim then chief whip of the parliamentary group who was already in Pakistan and who unmistakably poised for leading role, was not invited."
پاکستان نے سردار محمد ابراہیم خان کے ساتھ مشورہ کرنے کی زحمت گوارا کیوں نہیں کی؟ ممکن ہے کہ اس کی چند وجوہات ہوں۔ ایک یہ کہ مسلم کانفرنس کا اثر ملک کشمیر خاص کر وادی میں نہ ہونے کے برابر تھا۔ جس کا اعتراف سردار ابراہیم خان مندرجہ ذیل الفاظ میں خود کرتے ہیں۔
"The Muslim Conference organisation was much weaker in Srinagar and throughout the valley."
پاکستان کا رویہ سردار محمد ابراہیم خان کے ایک اور بیان سے یوں مزید واضح ہو جاتا ہے۔
''اس نے یہاں امیرالدین سے ملاقات کی اور اس کے ذریعہ قائد اعظم محمد علی جناح سے ملاقات کرنے کی کوشش کی تاکہ انہیں کشمیر کی تازہ صورتحال سے آگاہ کیا جا سکے... لیکن قائد اعظم نے مجھے ملاقات کا موقعہ نہ دیا۔ اس کے بعد میں نے راجہ غضنفر علی خان کے ذریعہ ملاقات کی کوشش کی لیکن وہ بھی ناکام ہوا۔ میں پورے ایک ہفتہ تک مختلف سیاسی رہنمائوں اور کارکنوں سے ملاقاتوں میں مصروف رہا تاکہ کسی طرح کشمیری حریت پسندوں کی عملی امداد کرنے کے لئے کوئی صورت پیدا ہو سکے مگر مجھے ہر جگہ ناکامی کا ہی سامناکرنا پڑا...‘‘
اسی طرح مسلم لیگ اور پاکستان کی اعلیٰ قیادت نے شیخ محمد عبداللہ کو بھی اعتماد میں لینے کی کبھی مخلصانہ کوشش نہیں کی۔ لیگ سے وابستہ جن لوگوں کو جب کبھی شیخ صاحب کے ساتھ بات چیت کرنے کا خیال آیا‘ تنظیم میں ان کی اہمیت کوئی خاص نہ تھی۔ لیگ کے ایک ثالث میاں افتخار الدین نے جب بڑی مشکل سے شیخ محمد عبداللہ کو 29ستمبر 1947ء میں رہا ہونے کے فوراً بعد بات چیت کی غرض سے خفیہ طور پر پاکستان پہنچایا تھا تو قائد اعظمؒ نے شیخ صاحب کے ساتھ بات چیت کرنے سے انکار کر دیا۔ حواس باختہ ہو کر جب میاں نے یہ خبر شیخ محمد عبداللہ کو سنائی تو ان کا جواب یہ تھا:
"I came here at your persuation; true you are all Pakistani, but i am also a Kashmiri."
لیگ کے رہنمائوں نے اکتوبر 1947ء میں کشمیری لیڈروں کو بات چیت کرنے کے لئے پھر آمادہ کیا لیکن پاکستانی حکام حسب سابق نہ صرف وفد سے دور رہے بلکہ لاہور چیئرنگ کراس کے قریب ان کو پکڑ کر اتنا مارا پیٹا گیا کہ وفد کے ایک رکن کے سارے دانت ٹوٹ گئے۔ اگر بلقیس تاثیر کے بیان کو صحیح مان کر چلیں تو لیاقت علی خان کے بقول ‘جناح صاحب‘ شیخ عبداللہ کے ساتھ بات چیت کرنے کے حق میں نہیں تھے۔ اسی طرح جب 1965ء میں وزیرخارجہ ذوالفقار علی بھٹو‘ کیبنٹ سیکرٹری جناب عزیز احمد اور جناب نذیر احمد کے کہنے پر صدر پاکستان ایوب خان نے ہندوستان کے ساتھ جنگ کا اعلان کیا تو کشمیر کے آر پار لوگوں کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ اطلاع ہے کہ جب پاک مقبوضہ کشمیر کے سابقہ صدر جناب کے ایچ خورشید نے ایک نجی محفل میں یہ سوال اٹھایاکہ پاکستان نے کشمیریوں سے مشورہ کئے بغیر جنگ کا اعلان کیوں کیا؟ تو یہ بات پاکستانی حکام کو ناگوار گزری۔ انہوں نے وقت ضائع کئے بغیر خورشید صاحب کو راولپنڈی میں گرفتار کر لیا اور انہیں دلائی کیمپ میں مقدمہ چلائے بغیر ہی قید میں رکھا گیا۔ تاہم یہ بات سمجھ سے بالاتر معلوم ہوتی ہے کہ اس جنگ کے تین ترجمانوں میں دو کشمیریو ں کو کیوں کر شامل کیا گیا۔ جس میں مولوی محمد یوسف شاہ ترجمان برائے پاکستان اور شیخ محمد عبداللہ کے فرزند طارق عبداللہ باقی دنیا کے لئے ترجمان اعلیٰ مقرر کئے گئے تھے۔ مبصرین کی یہ رائے درست معلوم ہوتی ہے کہ یہ محض ایک سیاسی تماشا تھا۔ ورنہ مندرجہ بالا واقعات سے یہ بات صاف ہو چکی ہے کہ پاکستانی حکام کشمیری قائدین کو ابتداء سے ہی کسی خاص وجہ سے لائق احترام نہ سمجھتے تھے۔ اسی لئے محمد یوسف صراف کشمیریوں کے تئیں روا رکھی گئی سیاسی پالیسی کو اس کشمیری مقولہ سے تعبیر کرتے ہیں:
یس کور خاندر‘ سو کو‘ رلوبرن
چوبرن کری تو مانزے راتھ
یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ شعر کا دوسرا بند عمومی طور اس طرح بیان کیا جاتا ہے جو زیادہ برموقع و محل‘ موزوں اور صحیح ہے:
نحقے چو برن مانزے راتھ
اس صورتحال سے کشمیری قوم آج بھی دوچار ہے اور کل بھی رہے گی۔ وجوہات وہی ہوں گی جو سات سو سال پہلے یا 1947ء میں تھیں۔‘‘