تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     17-04-2015

جعلی اور بغیر ٹکٹ

مسافروں سے کھچا کھچ بھری ہوئی ریل گاڑی فراٹے بھرتی ہوئی جا رہی تھی کہ اچانک ٹکٹ چیکر مسافروں کے ٹکٹ چیک کرنے کیلئے ایک بوگی میں آ پہنچا۔ بہت سے مسافروں کے پاس ٹکٹ نہیں تھے اور کئی مسافر ایسے تھے جن کی منزل کئی اسٹیشن پیچھے تھی۔ کچھ ایسے تھے جن کو حکومت کے طاقت ور لوگوں نے بغیر ٹکٹ کے بوگیوں میں بٹھایا ہوا تھا اور کچھ ایسے بھی تھے جن کے پاس باقاعدہ اپنی منزل کے اصلی ٹکٹ موجود تھے لیکن ان کی نشستوں پر منظور نظر لوگ حکام بالا کی ملی بھگت سے اس طرح قبضہ جمائے بیٹھے تھے کہ ٹکٹ رکھنے والے نہ تو بیٹھ سکتے تھے اور نہ ہی اچھی طرح کھڑے ہو سکتے تھے ۔ ٹکٹ چیکر بغیر کسی کارروائی کئے خاموشی سے دوسری بوگی کی جانب بڑھ گیا۔ اس بوگی میں بھی بغیر ٹکٹ اور جعلی ٹکٹ والوں کے ہاتھوںاصلی ٹکٹ والے مسافر وں کی درگت بن رہی تھی کیونکہ ٹکٹ والے بے چارے بڑی مشکل سے دروازوں سے لٹکے ہوئے ہاتھ پائوں مارتے نظر آ رہے تھے۔ اصلی ٹکٹ والے مسافروں نے بوگی میں جعلی اور بغیر ٹکٹ مسافروں کو لیکچر دینا شروع کر دیا کہ آپ کو اس طرح سفر کرنے کا کوئی حق نہیں ہے‘ کس قدر افسوس کی بات ہے‘ سوائے ہم چند لوگوں کے باقی سب ہی ناجائز طریقے سے اس بوگی پر قابض ہیں اور وہ بھی اس طرح کہ بجائے بیٹھنے کے پائوں پسارے ہماری ہی نشستوں پر قبضہ کئے ہوئے ہیں۔آپس کی اس ابتدائی بحث سے معاملہ جب طول پکڑنے لگا اور بات لڑائی جھگڑے اور توتکار تک پہنچ گئی تو اصلی
ٹکٹ رکھنے والے اس بوگی سے دوسری بوگی کی جانب چلے گئے لیکن وہاں بھی یہی صورت حال تھی کیونکہ ہر بوگی اسی طرح کے مسافروں سے کھچا کھچ بھری تھی۔
گاڑی جب ایک بڑے اسٹیشن پررکی تو تمام بوگیوں سے اصلی ٹکٹوں والے مسافر پلیٹ فارم اور پٹڑی پر یہ کہتے ہوئے دھرنا دے کر بیٹھ گئے کہ یہ کون سا قانون ہے کہ جن کے پاس با قاعدہ ٹکٹ ہیں وہ یا تو کھڑے ہوئے ہیں یا دروازوں سے لٹکے سفر کر رہے ہیں اور وہ جو جعلی اور بغیر ٹکٹوں وا لے ہیں ہر بوگی پر قبضہ جمائے بیٹھے ہیں معاملہ طول پکڑ گیا تو ان سے مذاکرات شروع کر دیئے گئے کہ اپنا سفر مکمل کرنے کیلئے آپ ٹرین میں تو آئیں لیکن کوئی بھی نہ مانا‘ جس پراعلیٰ حکام نے پٹڑی پر دھرنا دینے والوں کو وارننگ دی کہ اگر پٹڑی خالی نہ کی تو ریلوے انجن تمہارے اوپر سے گذار دیا جائے گا لیکن مسافر اس دھمکی پر ڈٹ گئے۔ اب حکام نے انجن ڈرائیور کو حکم دیا کہ انجن ان کے اوپر سے گذار دو لیکن انجن ڈرائیور اور اس کے معاون نے ایسا کرنے سے انکار کر تے ہوئے کہا کہ اس طرح ہم انسانی جانوں کے قتل کے گناہ میں شریک نہیں ہونا چاہتے۔ اس پر کراچی سے ایک کانٹے والے کو‘ جو سفارشی بھرتی ہوا تھا اور انجن کی تکنیک کے بارے میں کچھ بھی نہیں جانتا تھا‘ انجن کا ڈرائیور بنا دیا ۔ جب یہ خطرناک حالات دیکھے تو ایک عقل رکھنے والے مقتدر اہلکار ہر ایک بوگی میں پہنچا اور اصلی ٹکٹ والے مسافروں کو ان کی نشستوں پر بٹھا کر کسی بھی ممکنہ جھگڑے کو روکنے اور ٹرین کو اپنی
منزل تک پہنچانے کیلئے سب کی منت سماجت کی جب یہ مسافر دھرنا چھوڑ کر گاڑی میں بیٹھ گئے تو بوگیوں پر قابض لوگوں نے ان پر آوازے کسنا شروع کر دیئے کہ جس بوگی کو تم لوگ شور مچا مچا کر بدنام کرتے تھے کہ یہ جعلی ٹکٹ والوں کی ہے ہمیں ایسے لوگوں میں بیٹھتے ہوئے شرم آتی ہے‘ اگر اتنے ہی شرم والے ہو اتنی ہی غیرت والے ہو اتنے ہی با اصول تو یہاں سے نکلو اور واپس جائو‘ اب یہاں اس بوگی میں کیا لینے آئے ہو؟اگر اتنے ہی غیرت والے ہو تو اپنے لیے کوئی نئی صاف ستھری بوگی انجن کے ساتھ لگو الو۔اس طرح کے آوازے کسنے والے جب للکار لکار کر اس قسم کے آوازے کس رہے تھے تو ان کے منہ سے آنے والی بو سے ساری بوگی اس طرح بدبودار ہو رہی تھی کہ وہاں بیٹھنا محال ہو رہا تھا۔ لگتا تھا کہ کئی دنوں سے انہوں نے اپنے دانت صاف نہیں کئے تھے یا ان کے معدے خراب تھے۔
اسی بد بودار فضا میں ایک انتہائی قابل وکیل نے اپنی ناک پر ہاتھ رکھتے ہوئے للکارے مارنے والوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ سابق صدر آصف علی زرداری نے مئی2013ء کے انتخابات کے چند روز بعد لاہور کے بلاول ہائوس میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس طرح کے ریٹرننگ آفیسر‘ جو پنجاب بھر میں تعینات کئے گئے تھے‘ اگر مجھے مل جائیں تو اگلا صدارتی الیکشن بھی آسانی سے جیت سکتا ہوں۔ ان کے عام انتخابات بارے کہے گئے یہ الفاظ دریا کو کوزے میں بند کئے ہوئے تھے‘ جس نے سب کو چونکا دیا۔ آصف علی زرداری کے بعد پاکستان کی کونسی سیا سی جماعت ہے جس نے ان انتخابات کو جعلی اور دھاندلی کی پیداوار قرار نہیں دیا تھا۔ مولانا فضل الرحمان اور عوامی نیشنل پارٹی بھی انہی آوازے کسنے والوں کے ساتھ ہے جو کہہ رہے ہیں کہ اس ٹرین میں کیوں سفر کر رہے جسے بد بودار کہتے ہو۔ اب ان سے اگر کوئی یہ پوچھے کہ جناب والا جنہوں نے جی بھر کر پاکستان بننے کی مخالفت کی‘ جنہوں نے شمال مغربی سرحدی صوبے میں پاکستان یا ہندوستان کے ساتھ رہنے کیلئے انگریز کے کرائے جانے والے ریفرنڈم میں گاندھی اور نہرو کا ساتھ دیا‘ پاکستان میں کیا لینے کیلئے بیٹھے ہیں تو شاید اس کا
کوئی جواب نہ ملے۔ کون نہیں جانتا کہ پاکستان میں بھی کئی لوگ آج بھی ڈیورنڈ لائن کو تسلیم نہیں کرتے۔ تو جس پاکستان کی سرحدوں کو ہی آپ نہیں مانتے جس کی حدود کو آپ پاکستان کا حصہ ماننے سے اب تک انکاری ہیں ا س میں کس لئے بیٹھے ہیں؟
مئی2013ء کے انتخابات کے بعد ملک بھر میں جو انارکی پھیلی اور نوجوان نسل کا جمہوریت اور انتخابات پر سے جس طرح ایمان اٹھا یہ پاکستان کیلئے اچھا نہیں کہا جا سکتا لیکن نوجوان نسل شاید نہیں جانتی کہ2008ء کے اور یہ انتخابات با قاعدہ ایک منصوبے کے تحت کروائے گئے اور اس کی ڈوریاں پاکستان میں نہیں بلکہ امریکہ اور برطانیہ میں بیٹھی ہوئی طاقتوں کے ہاتھوں میں تھیں۔ برطانیہ نے پاکستان اور ہندوستان کو دو علیحدہ علیحدہ ملکوں میں تقسیم کرتے وقت جس طرح کشمیر کا پھڈا ڈالا تاریخ کا حصہ ہے۔ دونوں ملک ابھی تک ایک دوسرے کے ساتھ سر پھٹول میں لگے ہوئے ہیں۔ دونوں ملک نہ تو اچھی طرح رہ سکتے ہیں اور نہ ہی کھا سکتے ہیں ۔ 2008ء کے انتخابات تو پانچ سال تک دونوں بھائیوں نے مل بانٹ کر گذار لئے لیکن 2013ء کے انتخابات میں عمران خان اچانک ان کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑا ہو گیا اور پھر جلدی میں کہیں سے پنکچر لگانے والے پکڑے تو کہیں سے عطائیوں کو ترقیوں کے لالچ دے کر ( اور وہ ترقیاں ہو بھی چکی ہیں) اس طرح کے انتخابات کروائے کہ ابھی تک ہر پولنگ اسٹیشن سے گرد اٹھ رہی ہے!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved