تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     18-04-2015

انقلابات ہیں زمانے کے

اپنے کے ٹو خور حکمرانوں کے‘ سمندر سے بڑے معدے دیکھ کر‘ الطاف حسین تو اس بچے کی طرح لگتے ہیں‘ جو انگوروں سے بھرے ٹرک میں سے‘ ایک دانہ توڑ کے بھاگ نکلا اور پولیس کے سامنے پیشیاں بھگت رہا ہو۔ الطاف حسین کے زمانے لد گئے۔ وہ ایک مظلوم کمیونٹی کے نمائندے تھے‘ جس کے طلباوطالبات‘ جماعت اسلامی والوں کے ڈنڈے کھاتے اور پختون ڈرائیوروں کی گاڑیوں سے ٹکریں۔ جماعت اسلامی نے طلبا کی ایک تنظیم‘ جمعیت طلبہ کے نام سے قائم کر رکھی تھی۔ اس کا کام یونیورسٹیوں میں ''اسلام‘‘ نافذ کرنا تھا۔ نفاذ اسلام کے لئے چونکہ ڈنڈا بہت ضروری ہے‘ اس لئے جماعت نے ایک خاص ڈیزائن اور سائز کے ڈنڈے بنوا کر‘ مختلف مقامات پر رکھے ہوئے تھے۔ کراچی یونیورسٹی کے ڈنڈے کہاں رکھے جاتے؟ اس کی تو مجھے خبر نہیں‘ لیکن ناظم آباد اور گردونواح کی درسگاہوں کے نوجوانوں کے لئے‘ ڈنڈوں کا ذخیرہ چورنگی پر ملااحمد حلوائی کی دکان میں رکھا جاتا اور جیسے ہی ضرورت پڑتی‘ جماعت کے جہادی‘ موٹرسائیکلوں اور سوزوکیوں پر چورنگی آتے اور ڈنڈے بھر کے جائے واردات پر پہنچ جاتے۔ ان دنوں الطاف حسین پٹنے والوں کے لیڈر تھے۔ پٹتے پٹتے آخر انہیں خیال آیا کہ میں پیٹنے والا کیوں نہ بن جائوں؟ انہوں نے اپنی ایک چھوٹی سی تنظیم بنائی اور پیٹنے والے بن گئے۔ ایسے بنے کہ اب ہر کوئی یہ الزام لگاتا نظر آتا ہے کہ مجھے ایم کیو ایم والوں نے پیٹ دیا۔ گزشتہ چند روز سے‘ قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر 246 میں ضمنی انتخابات کی مہم چل رہی ہے۔ ایسا دھماکے دار ضمنی الیکشن کم از کم میرے مشاہدے میں نہیں آیا۔ میں نے لاہور میں صوبائی اسمبلی کے حلقہ نمبر 6 کا الیکشن دیکھا ہے‘ جب مصطفی کھر آزاد امیدوار کی حیثیت سے اپنے استاد ذوالفقار علی بھٹو کی پارٹی کے سامنے کھڑے ہو گئے تھے۔ ساری حکومت کو مصیبت پڑ گئی کہ اس بلا سے جان کیسے چھڑائی جائے؟ بہت ترکیبیں سوچی گئیں۔ کسی کو یہ خیال نہ آیا کہ اگر حکومتی مشینری ہی استعمال کرنا ہے‘ تو مصطفی کھر کو پارٹی ٹکٹ دے کر کیوں نہ ہرا دیا جائے؟ یاد رہے‘ کھر صاحب آخری وقت تک پارٹی ٹکٹ مانگتے رہے ۔ حکومت نے انہیں دھکے دے کر آزاد امیدوار بنا دیا۔
بھٹو صاحب کی اپوزیشن تو سب جانتے ہیں کہ بڑی نحیف و نزار تھی۔ یہ انہی کا کمال تھا کہ وہ اسے تھوڑے تھوڑے وقفے سے‘ طاقت کا انجکشن دیتے رہتے اور جب اپوزیشن کے پاس کچھ نہ رہتا‘ تو اپنا کوئی آدمی دے کر‘ اس میں جان ڈال دیتے۔ مصطفی کھر بھی اپوزیشن کے لئے‘ حکومت کا ایک تحفہ تھے۔ ان کی انتخابی مہم اتنے زوروں سے چلی کہ میڈیا میں تجزیئے ہونے لگے‘ مصطفی کھر کی جیت سے حکومت پر کیا اثرات پڑیں گے؟ حکومت کی برطرفی کے مطالبے آئیں گے؟ یا احتجاجی تحریک ‘ بھٹو صاحب کو اقتدار سے باہر کر دے گی؟ مگر افسوس کہ کھر صاحب کو شادیوں کے سوا کوئی کام ہی نہیں آتا تھا۔ اتنی شادیاں کیں کہ تھوڑا بہت حصہ بعد میں آنے والے وزرائے اعلیٰ کے لئے بھی چھوڑ گئے۔ شومئی قسمت کہ میں کھر صاحب کے اس انتخابی جلسے میں چلا گیا‘ جسے ہم تاریخی سمجھ رہے تھے۔یہ جلسہ لاہور کے ایک مضافاتی علاقے تاجپورہ میں تھا۔ مجھے پتہ چل چکا تھا کہ اسلام آباد سے حفیظ پیرزادہ جلسے کا ''بندوبست‘‘ کرنے لاہور تشریف لا رہے ہیں۔ وہ بہت ہی اچھی تشریف لائے۔ انہوں نے آتے ہی لاہور پولیس کی کمان سنبھال لی اور آٹھ نو ہزار کے قریب پولیس کی نفری‘ جلسہ گاہ کے گردونواح میں واقع گلیوں کے اندر کھڑی کر دی۔ کھر صاحب تقریر کے لئے سٹیج پر آئے۔ ابھی ابتدائی جملے ہی ادا کئے تھے کہ کسی ستم ظریف یا پولیس والے نے‘ چپکے سے مجمعے کے اندر سانپ چھوڑ دیا۔ مجھے یہ معلوم نہیں کہ کھر صاحب نے خود سانپ دیکھا یا کسی کی آو از سنی ''سانپ! سانپ!‘‘ ؟ایسی برق رفتاری سے پلٹے کہ سٹیج کے عقب میں واقع آٹھ فٹ اونچی دیوار پر وہ جست لگائی کہ پار ہو گئے۔ آنے والی آفت سے بے خبر ہم کھر صاحب کا ہائی جمپ دیکھنے میں لگے رہے۔ ہم یہ نہ دیکھ سکے کہ پولیس نے چاروں اطراف سے گھیرا ڈال کے پیش قدمی شروع کر دی ہے۔ میں کسرتی قسم کا آدمی نہیں۔ جسم و جان کو ورزش‘ سیر اور صحت بنانے والی دیگر چیزوں سے‘ بڑی احتیاط کے ساتھ بچا رکھا ہے۔ چاروں طرف سے ہجوم کے دبائو میں جب ''جوں ویلن وچ گنا‘‘ جیسی پوزیشن میں آیا‘ تو کوئی امید نہیں تھی کہ باہر چھلکا بن کر نکلوں گا؟ یا تھوڑا بہت رس بچا پائوں گا؟ میرے ساتھ عادی ایجی ٹیٹر خالد چوہدری تھے۔ دبلے پتلے سے مضبوط آدمی۔ مجھے یاد نہیں ‘ انہوں نے کیسے جگہ بنائی؟ اور کیسے کرتب دکھائے کہ میں بھی کودنے پھاندنے لگا؟ ایک جگہ بیسیوں سائیکلیں کھڑی تھیں۔ ہم ان کے اوپر چڑھ گئے اور کودتے پھاندتے کہیں سے کہیں جانکلے۔ میری سیاسی زندگی کا یہ سب سے بڑا معرکہ تھا۔کھر صاحب الیکشن اور سیاست بھٹو صاحب سے ہار گئے۔ حال میں جاوید ہاشمی کا مقابلہ بھی ایک ضمنی الیکشن میں حکومت وقت کی بھرپور سرپرستی میں ہوا۔ کمال کے امیدوار تھے کہ شروع سے ہی‘ چاروں طرف پولیس کے نرغے میں آ کر‘ انتخابی مہم چلاتے رہے‘ لیکن ووٹر‘ پولیس سے اتنا ڈرے کہ ووٹ ڈالنے کی ہمت بھی نہ کر سکے۔ یہ انتخابی معرکہ بھی بڑی دھوم دھام سے ہوا‘ مگر ہاشمی صاحب نہ الیکشن میں جیت سکے‘ نہ سیاست میں۔ ایک ہی فخر لئے پھرتے ہیں کہ میں نے اپنی جماعت کی سازش کامیاب نہیں ہونے دی اور جس ن لیگ کو لات مار کے‘ تحریک انصاف میں آئے تھے‘ اسی ن لیگ کا اقتدار مستحکم کر کے‘ گھر بیٹھ گئے۔
ایم کیو ایم کے ضمنی انتخابات ہمیشہ پُرہنگام ہوتے ہیں۔ جو مخالف امیدوار‘ ان سے مقابلے کے لئے میدان میں اترتے ہیں‘ بہت بڑی معرکہ آرائی کے مناظر دکھاتے ہیں۔ ایم کیو ایم بھی بڑے بڑے دعوے سن کر‘ حریفوں کا نخرہ توڑنے پہ تل جاتی ہے اور حریفوں کو ایسے مزے چکھاتی ہے ‘ جس کے لئے ایم کیو ایم مشہور ہے۔ انتخابی نتائج آنے پر ان کے حریف آنکھیں ملتے اور فریاد کرتے یہ کہتے ہوئے گھر کو لوٹتے ہیں ''اس نے مجھے بہت مارا۔‘‘ ان دنوں ایم کیو ایم کو زکام ہوا لگتا ہے اور زکام ایک ایسی لعنت ہے‘ کہ نہ اس میں ناک رکتی ہے‘ نہ آنکھ۔ منہ سے مزہ غائب ہو جاتا ہے۔ مجھے لگتا ہے‘ حالیہ ضمنی الیکشن بھی ایم کیو ایم زکام کی حالت میں لڑ رہی ہے۔ ایک وقت تھا کہ مخالف امیدوار‘ اس محلے سے نہیں گزرتے تھے‘ جہاں الطاف حسین کا گھر واقع ہے اور اب حالت یہ ہے کہ مخالف امیدوار روز ہی اس گلی میں ضرور جاتے ہیں‘ جہاں الطاف حسین کاگھر واقع ہے۔ الطاف بھی لندن میں بیٹھے‘ اپنے مخالف امیدواروں کے پھیرے گن رہے ہوں گے۔ ان کے اناڑی پن نے انہیں پھنسا دیا‘ ورنہ پاکستان سے دولت باہر لے جانا کون سا بڑا کام ہے؟ کیا لندن میں رہ کر انہیں یہ بھی معلوم نہیں ہوا کہ وہاں جائیدادیں کیسے خریدی جاتی ہیں؟ اور برطانیہ کے قریب‘ آئل آف وائٹ اور آئل آف مین کس کام آتے ہیں؟ کاش! انہوں نے مسلم لیگ یا پیپلزپارٹی میں چند روز گزار لئے ہوتے‘ تو انہیں پتہ چل جاتا کہ دولت بیرون ملک منتقل کیسے کی جاتی ہے؟ تربیت لے کر ایم کیو ایم بناتے‘ تو آج انہیں زکام کی گولیاں لینے پولیس سٹیشن نہ جانا پڑتا۔ ادھر پاکستان میں یہ حال ہے کہ ان کا امیدوار ‘ انہی کے محلے میں ضمنی الیکشن میں حصہ لے رہا ہے اور مخالف امیدوار جب جی چاہتا ہے نہاری کھانے وہاں جا دھمکتے ہیں۔ ایم کیو ایم کے کارکن بھی کتنا بدل گئے ہیں؟ کہاں وہ زمانے ؟ جب سیاسی مخالفین محلے کے قریب سے بھی گزرتے‘ تو کارکن غضب ناک ہو کر ان پر جھپٹ پڑتے تھے اور اب جھپٹتے بھی ہیں‘ تو لیڈر شپ کو کہنا پڑتا ہے کہ یہ تو ہمارے بندے نہیں تھے۔ سچی بات ہے‘ الطاف بھائی پارٹی بنانے میں کامیاب ترین لیڈر ثابت ہوئے کہ ایسی منظم پارٹی کوئی بھی لیڈر نہیں بنا سکا‘ جتنی ایم کیو ایم ہے۔ مال بنانے میں الطاف بھائی مار کھا گئے۔ یہ مار کھانا نہیں تو کیا ہے ؟کہ تھوڑا سا پیسہ لندن منگوا کر پکڑے گئے اور اب پیشیاں بھگت رہے ہیں۔انقلابات ہیں زمانے کے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved