افغانستان، صومالیہ، سعودی عرب، مالی، شمالی نائیجیریا، یمن اور پاکستان کے قبائلی علاقوں میں کیا قدر مشترک ہے؟ ان تمام علاقوں میں سنی مسلمانوں کی اکثریت ہے۔ یہ تمام علاقے پس ماندگی کا شکار ہیں‘ عورتو ں کے ساتھ برا سلوک اور جدید تعلیم اور عقل اور منطق سے کنارہ کشی کا طبعی رجحان رکھتے ہیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ یہ قبائلی معاشرے مذہب کے نام پر اپنے قدیم قبائلی رسوم و رواج، اقدار اور قوانین کا جواز فراہم کرتے ہوئے ان کا تسلسل قائم رکھنے پر مُصر ہیں۔ ان معروضات کے ہوتے ہوئے یہ جائے حیرت نہیں کہ ان میں سے زیادہ تر عقیدے، جہالت اور قبائلی وفاداریوں کی وجہ سے خونیں کشمکش کا شکار ہیں۔ اس کے علاوہ شیعہ سنی کشمکش مسلم دنیا کو تقسیم کرنے والی ایک فالٹ لائن ہے تو جمہوریت پسندوں اور جابر آمروں، جو عوام کو دبانے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتے ہیں، کے درمیان سیاسی تنائو دوسری فالٹ لائن ہے۔ تیسری فالٹ لائن کا تعلق تاریخ اور سماجی ترقی ہے۔
دنیا بھر میں وہ تمام اقوام‘ جن کے تجارتی روابط سمندر کے ذریعے ہوتے استوار تھے، نت نئے تصورات کو اپنانے اور اُن سے استفادہ کرنے کی صلاحیت سے بہرہ مند ہوئے کیونکہ جہاز نہ صرف سامان تجارت کی نقل و حمل کرتے بلکہ دیگر سرزمینوں سے مسافر اور کتابیں بھی لاتے تھے۔ اس کے برعکس سمندر سے دور معاشرے محدود تصورات کے ساتھ وابستہ رہتے۔ ان کے تجارتی قافلے کم فاصلوں سے سامان لاتے۔ اگرچہ یمن کے تجارتی روابط صدیوں سے مختلف ممالک کے ساتھ قائم تھے لیکن ملک کا شمالی حصہ بڑی حد تک جنوبی ساحلوں سے دور ہی رہا۔
جن معاشروں نے اسلام قبول کیا، ان کے سیاسی اور سماجی خدوخال جدا جدا تھے، لیکن انہیں بنیادی طور پر دو گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے... ایک وہ ممالک جو اسلام سے قبل بھی ایک حد تک تہذیب، ثقافت اور علوم سے بہرمند ہو چکے تھے اور دوسرے وہ جو اسلام قبول کرنے سے پہلے اپنی علمی و تہذیبی شناخت نہیں رکھتے تھے۔ جب تہذیب و ثقافت کے حامل ممالک نے اسلام کو اپنی مذہبی شناخت بنایا تو انہوں نے مذہب کے علمی و فکری پہلو کو اجاگر کیا۔ ایران، قاہرہ، بغداد اور دمشق اسلام سے پہلے بھی، صدیوں سے تہذیب اور ثقافت کے مراکز تھے۔ جب ترکوں نے استنبول پر قبضہ کیا تو انہوں نے بازنطینی ثقافت کے خدوخال بھی اپنا لیے۔ انڈیا میں سلاطین دہلی اور مغل حکمرانوں کے ادوار میں دہلی، لکھنو اور حیدر آباد اعلیٰ تہذیب کے مراکز تھے۔ شاید اسلامی تہذیب کا نقطۂ عروج سپین میں مسلمانوں کے علوم و فنون کے مراکز میں جلوہ گر ہوا۔ حتیٰ کہ ٹمبکٹو میں بھی لائبریریاں اور تعلیمی ادارے ملتے ہیں‘ لیکن تہذیب، علم اور ثقافت کی ایسی جھلک ہمیں ریاض یا موگادیشو میں دکھائی نہیں دیتی۔
آج ہم جس مقام پر کھڑے ہیں، اس سے کچھ صدیاں پیچھے نگاہ دوڑائیں تو یہ سنگین احساس دل میں تیر کی طرح پیوست ہو جاتا ہے کہ عرب مہذب دنیا کے سفر سے بہت دور رہے ہیں۔ ان کی تخلیقی صلاحیتیں جمود کا شکار رہیں؛ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ کچھ بھی تبدیل نہیں ہوا۔ آج کی دنیا میں ان میں سے کچھ کا کردار ضرور تبدیل ہوا ہے۔ جہاں تک سعودی عرب اور خلیجی ریاستوں کا تعلق ہے تو تیل کی دریافت کے بعد سے ان کی قسمت کا ستارہ چمک گیا اور وہ عالمی معاملات میں اہم کھلاڑی بن گئے‘ لیکن اس سے ان کے قبائلی رویوں میں کوئی فرق نہیں پڑا۔ 1973ء کے تیل کے بحران نے اس کی قیمت میں بے حد اضافہ کر دیا تھا۔ اس نے سعودی عرب کو دولت کی وجہ سے اس قابل بنا دیا کہ وہ اپنے مسلک کو دیگر مسلم ممالک تک پھیلائے۔ اس مقصد کے لیے اُس نے اپنے مسلک کی تبلیغ کرنے والے مدرسوں کو بھاری فنڈز مہیا کرنا شروع کر دیے۔ بہت سے غریب ممالک میں ایسے مدرسے قائم کیے گئے۔ ان مدرسوں میں طلبہ کو تعلیم کے نا م پر مذہبی کتب کو زبانی یاد کرایا جاتا ہے۔ اس مسلک کے نظریات اور دولت کی ترسیل نے ان ممالک کی سماجی، نظریاتی اور مذہبی حرکیات کو متاثر کرنا شروع کر دیا۔ مذہب کی من پسند تشریح کرتے ہوئے رجعت پسندی کو فروغ دیا گیا۔ القاعدہ اور داعش اسی مسلک کی انتہائی اشکال ہیں۔
مہذب معاشروں میں رہنے والے قدرے جدت پسند اور وسیع القلب جبکہ قبائلی معاشروں میں رہنے والے مسلمان نظریاتی طور پر رجعت پسند اور بنیاد پرست ہوتے ہیں۔ اگرچہ ہوائی جہاز نے دنیا کے فاصلے سمیٹ دیے لیکن پرانے تصورات آسانی سے معاشرے سے نہیں نکلتے اور پھر قبائلی سوچ تو معاشرے کو بمشکل ہی اپنی گرفت سے نکلنے دیتی ہے۔ قبائلی رہتل سے لبرل جمہوریت کی طرف سفر یا تو جاگیرداری کی راہوں پر طے ہوتا ہے یا صنعتی کاری کی سڑک پر؛ تاہم مندرجہ بالا قبائلی معاشروں میں نہ تو زراعت تھی اور نہ صنعتی ڈھانچہ، اس لیے وہاں کی سنگلاخ راہوں سے جمہوریت اور لبرل ازم کی طرف جانے والے راستے نہ پھوٹ سکے۔ اگرچہ تیل کی دریافت نے اُن میں سے کچھ کو دولت مند بنا دیا اور وہاں جدید شہر تعمیر ہو گئے لیکن اس ترقی سے وہاں سماجی اور سیاسی انقلاب کی راہ ہموار نہ ہو سکی۔ اس لیے ہو سکتا ہے کہ دولت مند عرب باشندے مہنگی گاڑیاںچلاتے ہوں، جدید سہولیات سے آراستہ پُرتعیش گھروں میں رہتے ہوں لیکن ان کے دل سے قبائلی بدو کی سوچ کا نکلنا ابھی باقی ہے۔
قبائلی سوچ کے ساتھ وابستہ رہنے میں کوئی حرج نہیں تھا اور نہ ہی یہ کوئی بری چیز ہے لیکن ستم یہ کہ اسے ایک نظام، بلکہ عقیدے کا نام دے کر ہر کسی کو اس کی اندھی پیروی کرنے پر مجبور کیا گیا۔ اس سے انحراف پر سخت سزائیں دی جاتی ہیں۔ جو لوگ اور معاشرے اس نظام کو نہیں اپناتے، اُنہیں کم تر اور گمراہ سمجھا جاتا ہے۔ درحقیقت اس سوچ نے دنیا کو بے حد متاثر کیا۔ یہ کوئی محض اتفاق نہیں تھا کہ نائن الیون سانحے کے ذمہ دار زیادہ تر بمباروں کا تعلق عرب ممالک سے تھا۔ اگرچہ ہم داعش کے مظالم سے لرز جاتے ہیں لیکن ہمیں ہرگز فراموش نہیں کرنا چاہیے کہ سخت جغرافیائی ماحول اور قبائلی قوانین ایسے ہی سخت نظام کی تشکیل کا باعث بنتے ہیں۔
درحقیقت اس صورت حال کی ذمہ داری اسلام پر نہیں بلکہ اس کی غلط اور من پسند تشریح پر عائد ہوتی ہے۔ انتہاپسندی، دہشت گردی اور فساد کے ذریعے ان گروہوں نے اسلام جیسے پُرامن مذہب کو بدنام کیا۔ اگر غیرملکی ان فالٹ لائنز کو سمجھنے کی زحمت نہیں کرتے اور وہ اس عقیدے میں ہی خامی تلاش کرتے ہیں تو بھی اس میں ہمارا ہی قصور ہے۔ اس وقت سب سے ضروری بات یہ ہے کہ ہم دیکھیں کہ ہمارا مذہب کس نے اور کس طرح اغوا کرکے اس پر اپنی اجارہ داری قائم کر لی۔