اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ''بے شک ہم نے موسیٰ کو اپنی نشانیاں دے کر(اس ہدایت کے ساتھ )بھیجاکہ اپنی قوم کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لاؤاور اُن کو اللہ کے دنوں کی یاد دلاؤ، بے شک بہت صبر کرنے والے ، بہت شکر کرنے والے ہر شخص کے لیے اس میں(ہدایت کی) نشانیاں ہیں‘‘(ابراہیم:05)۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام کو عطا کی جانی والی نشانیاں یہ ہیں:''عصا، یدِ بیضا، ٹڈیوں کا لشکر، جوؤں کا تسلُّط، ماکولات ومشروبات کی خون سے آلودگی، مینڈکوں کی یلغار، سمندر کا پاٹ دینا، پتھروں سے چشموں کا جاری ہونا،(میثاق لینے کے لیے )ان کے اوپر طور کا اٹھا لینااور مَنّ وسلویٰ کا نزول وغیرہ‘‘۔
مفسرینِ کرام نے :''ایّام اللہ‘‘ کی متعدد تفاسیر بیان کی ہیں:وہ ایام جن میں اللہ تعالیٰ نے کسی قوم پر خصوصی انعام فرمایا ہو ، یا کسی مشکل سے نجات عطا فرمائی ہو۔اس معنی کی تائید ان آیاتِ مبارَکہ سے بھی ہوتی ہے:''جب حواریوں نے کہا:اے عیسیٰ ابن مریم! کیا آپ کا رب ہم پر آسمان سے خوانِ(نعمت) نازل کرسکتا ہے؟ (عیسیٰ نے) کہا:اللہ سے ڈرواگر تم ایمان والے ہو، انہوں نے کہا:ہم تو یہ چاہتے ہیں کہ ہم اس خوان سے کھائیں اور ہمارے دل مطمئن ہوجائیں اور ہمیں یقین ہوجائے کہ ہم سے سچ کہا تھااور ہم اس پر گواہی دینے والوں میں سے ہوجائیں۔عیسیٰ ابن مریم نے دعا کی: اے ہمارے رب! ہم پر آسمان سے کھانے کا (تیار) خوان نازل فرماتاکہ (وہ دن) ہمارے اگلوں اور پچھلوں کے لیے عید ہوجائے اور تیری طرف سے (قدرت کی )نشانی بن جائے اور ہمیں رزق عطا فرما اور تو سب سے بہتررزق عطا فرمانے والا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:میں اس خوان کو تم پر نازل کیے دیتا ہوں ، پھر تم میں سے جو (قدرت کی یہ نشانی) آنے کے بعد کفر کرے گا، تو میں ضرور اس کو ایسا عذاب دوں گا، جو تمام جہان والوں میںسے کسی کو بھی نہ دوں گا‘‘(المائدہ:112-15)
اِن آیاتِ مبارَکہ میں نزولِ نعمت کے دن کو عید سے تعبیر فرمایا گیا ہے ۔ یہ امر ملحوظ رہے کہ نعمت کا اطلاق عطا پر بھی ہوتا ہے اور مصائب وبلیّات کے رَد پر بھی ہوتاہے، اس کی تائید اِس حدیثِ مبارَک سے ہوتی ہے۔ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں: رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو آپ نے دیکھاکہ یہود عاشورا کا روزہ رکھتے ہیں، آپﷺ نے اُن سے فرمایا: تم اس دن کا روزہ کیوں رکھتے ہو؟ انہوں نے کہا: یہ بڑا دن ہے، اللہ نے اس دن موسیٰ علیہ السلام اور ان کی قوم کو نجات عطا فرمائی اور فرعون اور اس کی قوم کو سمند ر میں غرق فرمادیا، تو موسیٰ علیہ السلام نے اِس دن نعمتِ باری تعالیٰ کے شکرانے کے طور پر روزہ رکھا ، لہٰذا ہم بھی اِس دن روزہ رکھتے ہیں، تو رسول اللہﷺ نے فرمایا: ہماری موسیٰ علیہ السلام کے ساتھ نظریاتی قُربت اِن سے زیادہ ہے، تو رسول اللہﷺ نے خود بھی روزہ رکھا اور صحابہ کو روزہ رکھنے کا حکم دیا‘‘(بخاری:2004) (رسول اللہﷺ سوموار کا روزہ رکھا کرتے تھے) آپﷺ سے دریافت کیا گیا کہ آپ ہر پیر کو روزہ کیوں رکھتے ہیں؟ تو آپﷺ نے فرمایا:''اِس دن میری ولادت ہوئی اور اِسی دن میری بعثت ہوئی یا مجھ پر پہلی بار وحیِ ربّانی نازل ہوئی‘‘(صحیح مسلم:197) یعنی آپ اپنی نعمتِ ولادت اور عطائے نبوت کے شکرانے کے طور پر ہر پیر کو روزہ رکھتے تھے۔
اِن آیات واحادیثِ مبارَکہ سے معلوم ہوا کہ جس دن کسی نعمتِ باری تعالیٰ کا نزول ہوا ہویا کسی گمراہ قوم پر عذاب آیاہو، وہ ''ایام اللہ‘‘ کہلاتے ہیں۔ مختلف مذاہب واقوام کے لوگ اِن ایام کو اپنے اپنے انداز سے مناتے ہیںاور اِسی کو ''تذکیرِ ایام اللہ‘‘ کہا جاتاہے۔ سیدالمرسلینﷺ اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کے شِعار سے معلوم ہوا کہ اللہ کی نعمت کے دن کو منانا مستحسن ہے اور اس کے منانے کا اَحسن طریقہ ذکر وفکر اور عبادتِ الٰہی میں مصروف رہنا ہے، جیسے عاشورا اور پیر کا روزہ رکھنا وغیرہ ۔
آج کل دن منانے کے کئی اور طریقے بھی رائج ہوئے ہیں، مثلاً جلوس نکالنااور مجالس منعقد کرنا وغیرہ ۔ میلادالنبیﷺ کی مجالس اور جلوس اور محرم الحرام کی مجالس اور ماتمی جلوس اسی قبیل سے ہیں۔ ایک طبقہ اِن جلوسوں کا مخالف تھا اور انہیں بدعت قرار دیتا تھا، مگر اب انہوں نے بھی عظمتِ صحابہ اور مدحتِ صحابہ کے جلوس نکالنا شروع کردئیے ہیں۔ ظاہر ہے کہ اس کا مُحرِک بھی مذہب ہی ہے، یہ الگ بات ہے کہ بعض کام اپنی آدرش اور اپنی تحریک سے کیے جاتے ہیں اور بعض دوسروں سے مسابقت اور مقابلے کے سبب کیے جاتے ہیں۔ عظمتِ صحابہ کے جلوس اسی قبیل سے ہیں۔ اب ہمارے ملک میں ایامِ خلفائِ راشدین اور دیگر بزرگانِ دین کے ایام پرقومی تعطیل کے مطالبات بھی کیے جاتے ہیں۔ حکومت کے لیے مذہبی جلوسوں کی حفاظت بھی ایک مسئلہ ہے۔ ہمارے بعض حضرات نے حال ہی میں دینی جذبے کے تحت جلوسِ غوثیہ کا بھی آغاز کیا ہے۔
میں نے ایک اعتدال پسند اور محقق شیعہ عالم سے پوچھا کہ آپ کے مسلک میں محرم الحرام کے ماتمی جلوس کی شرعی حیثیت کیا ہے؟ انہوں نے کہا:اگر مُنکَرات اور بدعات سے پاک ہو، خلافِ شرع اُمور کا ارتکاب نہ کیا جائے، جلوس کے دوران نمازوں کا باقاعدہ التزام کیا جائے، مردوزن کا بے حجاب اختلاط نہ ہو،تو زیادہ سے زیادہ اسے مستحب قرار دیا جاسکتا ہے،مگر ہمارے ہاں مذہبی جذباتی فضا ایسی ہوتی ہے کہ بعض اوقات سچ اور صحیح بات کرنا بھی خطرہ مول لینے کے مترادف ہے۔سچ اور حق بات یہی ہے کہ اہلسنت وجماعت کے نزدیک بھی میلادالنبیﷺ کے جلوس کی شرعی حیثیت یہی ہے، اس سے زیادہ کچھ نہیں‘ لیکن اب یہ سلسلہ دراز ہوتاجارہاہے اور تعطیلات کے مطالبے کو حکومت قبول کرے یا نہ کرے، جس علاقے میں جلوس نکلتا ہے، وہاں کاروبارِ زندگی معطل ہوجاتاہے، ایمرجنسی کی صورت میں بھی اُن مقامات پر آنا جانا دشوار بلکہ عملاً ناممکن ہوجاتاہے۔ یہ تو میں نے مذہبی جلوسوں کی بات کی ہے، سیاسی جلوسوں کی وبااس سے بھی زیادہ ہے اور اس کا کوئی موسم بھی متعین نہیں ہے ، جب کسی کے دل میں جوش آجائے نکل کھڑے ہوتے ہیں۔
کیا اب مناسب وقت نہیں ہے کہ اِس شِعار پر غور کیا جائے اور جلوسوں کوشرعی حدود وقیود کے مطابق میلادالنبیﷺ اور محرم الحرام تک محدود رکھا جائے اور باقی مقاصد کے لیے جلسوں پر اکتفا کیا جائے۔ حال ہی میں عالمی مالیاتی اداروں نے جنوبی ایشیا کے ممالک کی سالانہ ترقی کا ایک اِشاریہ شائع کیا ہے، جسے معاشی زبان میں جی ڈی پی کی شرح ترقی کہا جاتاہے، اُس کی رُو سے پاکستان کی سالانہ شرحِ ترقی اپنے خطے کے تمام ممالک یعنی بھارت، بنگلہ دیش، سری لنکا، نیپال، برما اور بھوٹان سے بھی پیچھے ہے، یہ ہمارے لیے شرم کا مقام ہے۔ حکومت نے تو اپنی طَمانیت کے لیے بتا دیا ہے کہ پیپلز پارٹی کے دور اور ماضی کے سالوں سے یہ شرح دگنی ہے، مگر فی نفسہٖ اقوامِ عالَم کے مقابلے میں کم ہے اور پوری قوم کے لیے لمحۂ فکریہ ہے۔
ہمارے ہاں ایک اور المیہ یہ ہے کہ کوئی بھی طبقہ، جب چاہے اپنے مطالبات کے لیے سڑکوں پہ آجاتا اور نظامِ زندگی کو مفلوج کردیتا ہے۔ اس کا ایک سبب تو یہ ہے کہ حکمران اُس وقت تک کسی بات یا کسی کے مطالبے کو سنجیدگی سے لینے کے لیے تیار ہی نہیں ہوتے جب تک کہ نظام کو مفلوج نہ کردیا جائے۔ دوسری جانب میڈیا کو اس سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ وفاقی یا صوبائی وسائل کے اندر رہتے ہوئے ان مطالبات کو مِن وعَن پورا کرنا حکومت کے لیے عملاً ممکن بھی ہے یا نہیں، کیا ترقیاتی عمل کو جامد کرکے صرف اِن مطالبات ہی کو پورا کیا جائے یا توازن کے ساتھ دونوں شعبوں کے تقاضوں کو پورا کیاجائے، یہ مقامِ غور ہے، حکومت کوئی بھی ہو ، ملک ہم سب کا ہے۔ہمارے میڈیا کی ترجیحات کاعالم یہ ہے کہ کوئی شخص اپنے جائز یا ناجائز مطالبات کو پورا کرنے کے لیے بجلی کے پول پر چڑھ جائے تو سارا میڈیا اُس کی لائیو کوریج میں لگ جاتاہے اور پوری قوم کو اُسی کے تصوُّر میں محو کردیتاہے۔ کیا وقت نہیں آگیا کہ لائیو کوریج کے لیے کوئی معیار اور ترجیحات متعین کی جائیں۔
اِن تمام گزارشات کا مقصد یہ ہے کہ ہمیں تعطیلات اورجلوسوں کے لیے اتفاقِ رائے سے کوئی فارمولا وضع کرنا چاہیے اور بزرگانِ دین اور اکابرِاُمّت کی یاد منانے، انہیںخراجِ عقیدت پیش کرنے اور ان کے تذکرے کو زندہ رکھنے کے لیے کوئی ایسے شِعار وضع کریں کہ معیشت کا پہیہ رواں دواں رہے اور یہ تقاضے بھی پورے ہوتے رہیں۔