تحریر : منیر احمد بلوچ تاریخ اشاعت     18-04-2015

ہاتھی کے دانت

سعودی وزیر مذہبی امور کے ہنگامی دورۂ پاکستان پر وزیر اعظم پاکستان کا عجلت میں چند منٹ کا پالیسی بیان متوقع تھا ۔ان الفاظ اور اسلام آباد کے اس منظر کی تصویر کشی بھارت کے دانشور ایم کے بھد ر کمار نے پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جانے والی قرا زداد سے8 دن قبل 2 اپریل کو اپنے ایک مضمون میں کر دی تھی۔ بھدر کمار نے لکھا تھا کہ ''فوجی مدد کے عوض سعودی حکمرانوں نے پاکستان کو جو پیشکش کی ہے ،اسے ٹھکرانے کا پاکستان کے حکمران تصور بھی نہیں کر سکتے‘‘۔۔۔۔ وزیر اعظم کو ہی کیوں یہ پالیسی بیان دینے کی ضرورت محسوس ہوئی؟ یہ تو سیکرٹری خارجہ یا وزیر اعظم کے خارجہ امور کے مشیر بھی دے سکتے تھے ۔کسی ملک کے مذہبی امور کے وزیر کی آمد پر وزیر اعظم کی، اپنی کچن کیبنٹ کے ہمراہ پریس بریفنگ کی خبر آنے سے ہی پتہ چل گیا تھا کہ بھدر کمار کا لکھا ایک ایک لفظ سچ ثابت ہو رہا ہے۔ سوال یہ پیدا ہو تا ہے کہ پھر اپنی ہی قوم کے ساتھ یہ قرار داد والا معاملہ کیوںرچایاگیا ؟۔ کیا پاکستان کو اندازہ نہیں تھا کہ 10اپریل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کی جانے والی قرار داد کی باز گشت بہت دور تک سنائی دے گی؟۔ جب اس قرار داد کی نوک پلک سنواری جا رہی تھی اور پھراسے مسلم لیگ نواز کی عددی برتری سے پارلیمنٹ سے منظور کرایاجا رہا تھا تو کیا حکمرانوں کو اندازہ نہیں تھا کہ اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں؟۔ قرارداد کی منظوری کے بعد اس پر ہونے والا رد عمل کوئی ڈھکا چھپا نہیں بلکہ سب کو سامنے نظر آ رہا ہے۔ ایک بات سب کو ہمیشہ ذہن میں
رکھنی چاہئے کہ دوستوں اور اپنے ملک کے عوام سے کبھی اپنی بات یا جذبات کا اظہار مبہم الفاظ میں نہیں کرنا چاہئے۔ اگر آپ کسی کے دوست ہیں تو کھل کر کہیں کہ ہاں ہم آپ کے دوست ہیں اور قوم کو کھل کر بتائیں کہ اس دوستی کو ہم ہر حالت میں نبھائیں گے، چاہے اس کی جو بھی قیمت ادا کرنی پڑے۔ جب قرارداد منظور کرائی جا رہی تھی تو کیا اس وقت وزیراعظم صاحب کو اندازہ نہیں تھا کہ وہ اپنے دوست سے اس کے گھر میں بیٹھ کر کیا کیا وعدے کر کے آئے تھے؟کیا انہیں مشکل وقت میں اپنے دوست کی ضروریات کا اندازہ نہیں تھا؟ ۔کیا ان کو آج یہ پتہ چلا ہے کہ یمن میں قانونی حکومت کو ختم کرنے والے با غی ہیں؟۔ اس وقت وہ کہاں تھے جب مصر میں اخوان المسلمون، لیبیا کے کرنل قذافی، شام کے بشارالاسد اور عراق کی حکومتوں کے خلاف القاعدہ اور داعش باغیانہ اقدام کر رہی تھی؟۔
متحدہ عرب امارات کے خارجہ امور کے وزیر مملکت انور قرقاش نے پارلیمنٹ کی قرار داد پر جو کہا‘ اس پر ہمیں سیخ پا ہونے کی نہیں بلکہ یہ سوچنے کی ضرورت ہے کہ ہمارے دوست کو یہ کہنے کی ضرورت کیوں پڑی۔ سوشل میڈیا پر امارات کے وزیر مملکت کے ٹوئٹ کے بعد ہنگامی طور پر سعودی وزیر مذہبی امور کی پاکستان آمد اور ان کی مولانا فضل الرحمن اور وفاق المدارس کے علماء سے ملاقاتیں بہت سے سوالات کو جنم دے رہی ہیں۔ چاہئے تو یہ تھا کہ عمران خان، آصف علی زرداری اور ڈاکٹر طاہر القادری کو بھی اعتماد میں لینے کی کوشش کی جاتی لیکن نہ جانے حکمرانوں سے قریبی تعلق اور ان کے نقطہ نظر سے مطابقت رکھنے والے گروپ کو ہی کیوں اس قابل سمجھا گیا اوروہ سیاسی پارٹی‘ جس پر اس ملک کے ایک کروڑ سے زائد نوجوانوں نے اعتماد کا اظہار کیا‘ اس سے بات کرنا بھی منا سب نہیں سمجھا ؟۔ اگر یہ خبر سچی ہے اور دعا ہے کہ سچی نہ ہو کہ پاکستان سے تحریک طالبان کی سوچ کے حامل جہادیوں پر مشتمل ایک ڈویژن کے قریب افراد کو اسی طرح عرب بھجوانے کا منصوبہ تیار ہو چکا ہے
جس طرح دو سال قبل بحرین میں امن و امان کیلئے بنایا گیا تھا‘ تو سوچئے تحریک طالبان کی سوچ رکھنے والے یہ جہادی لوگ کسی ملک کے مسلکی نقطہ نظر کے خلاف لڑنے کے بعد جب بھی کبھی واپس پاکستان آئیں گے تو یہ اپنے نظریئے میں پختہ اور ضدی ہونے کے علا وہ کس قدر تربیت یافتہ اور سخت جان ہو چکے ہوں گے ؟۔ اس وقت فرقہ واریت کی جو جنگ پاکستان میں شروع ہو گی‘ اس کا تصور بھی رونگٹے کھڑے کر دینے والا ہے۔ یہ وہی 35 سالہ پرانی افغانستان والی مشق ہو گی جس کا خمیازہ ہم سب ابھی تک بھگت رہے ہیں۔فرمانروا سعودی عرب کی خصوصی دعوت پر میاں نواز شریف، اسحاق ڈار، میاں شہباز شریف اور میاں حسین نواز جب سعودی عرب پہنچے تھے تو اس وقت شاہی محل میں ان کی جو بھی بات چیت ہوئی تھی اس کا کوئی بھی گواہ نہیں تھا۔ اگر شاہ سلمان نے پاکستان کے حکمرانوں سے مشکل اور مصیبت کے وقت کوئی مدد مانگی تھی تو کیا کوئی سوچ سکتاہے کہ اسی وقت ان سے اس کا وعدہ نہیں کیا گیا ہو گا؟۔ اور یہ حقیقت ہے کہ اسی وقت وعدہ ہو گیا تھا اور سعودی عرب اور یمن کی صورت حال پر پانچ دن تک اراکین سینیٹ اور قومی اسمبلی کے بحث مبا حثہ کے بعد جومشترکہ قراد دار منظور کی گئی تھی اس کا ایک ایک حرف پڑھتے اور اسحاق ڈار کی زبان سے سنتے ہوئے کچھ بھی تعجب نہیں ہورہا تھا کیونکہ تھوڑی سی بھی عقل رکھنے والے اسی وقت کہہ رہے تھے کہ یہ ہاتھی کے وہ دانت ہیں جو صرف دکھانے کے لیے ہیں کیونکہ کھانے والے دانت اور ہیں جنہیں بعد میں سامنے لایا جائے گا۔
بھدر کمار اپنے 2اپریل کو شائع ہونے والے مضمون میں امریکہ کے تعاون سے پاک سعودیہ نئے جہادی تعاون کی خبر پر بھارتی حکومت کو خبردار کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اس کا نتیجہ بھارت کے لیے وہی ہو سکتا ہے جو1980ء کے عشرے میں سوویت یونین کے افغانستان پر حملہ آور ہونے کے بعد اور پھر کشمیر جہاد کی صورت میں سامنے آیا تھا اور جس کا اعلان تین فروری1980ء کو امریکہ کی نیشنل سکیورٹی کے ایڈوائزر برزنسکی نے خیبر پاس پر کھڑے ہو کر کیا تھا۔ پاکستانی حکومت نے سعودی عرب کیلئے جو بھی کرنا ہے وہ پہلے ہی کر چکی ہے اور جو کچھ چاہے گی کرے گی کیونکہ ریاض کی طرف سے پاکستان کو اس کے بدلے میں جو پیشکش کی گئی ہے اسے ٹھکرانے کا ایک فیصد امکان بھی نہیں ہے۔ بھدر کمار کہتے ہیں کہ حکومت پاکستان اپنے عوام کو رام کرنے اور ان کے جذبات کو ٹھنڈا کرنے کیلئے یہی کہتی رہے گی کہ پاکستان کی اولین ترجیح سعودی عرب کی سرحدوں اور حرمین شریفین کی حفاظت ہے‘ اگر کوئی ان کی طرف بڑھے گا تو پھر یہ پاکستان کی جنگ ہو گی۔ حکمرانوں کا فیصلہ سر آنکھوں پر لیکن یہ شرط سمجھ میں نہیں آئی کہ پاکستان کے چالیس سال کی عمر سے زائد کے لوگ ہی عمرہ کی ادائیگی کیلئے سعودی عرب آ سکتے ہیں !

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved