آپ کو لکھنوی تکلف کی وہ مثال تو یاد ہو گی کہ دو معززین ریلوے سٹیشن پر‘ بے چینی سے ٹرین کی آمد کے منتظر تھے۔ جب ٹرین آئی تو ڈبے کے دروازے پر‘ ایک دوسرے سے التجائیہ انداز میں اصرار کرنے لگے: ''پہلے آپ! پہلے آپ!‘‘ پیچھے کھڑے مسافروں نے دونوں کو دھکا دے کر راستے سے ہٹایا اور تیزی سے اندر بیٹھنے لگے۔ ٹرین نکل گئی۔ دونوں حضرات‘ صورتحال سے بے خبر ایک دوسرے کو دعوت دیتے رہے ''پہلے آپ!‘‘۔ کراچی میں قومی اسمبلی کے حلقہ 246 کے دو امیدواروں کی حالت بھی یہی ہے۔ جماعت اسلامی‘ تحریک انصاف سے کہہ رہی ہے کہ پہلے آپ بیٹھ جائیں اور تحریک انصاف‘ بصدادب تقاضا کر رہی ہے کہ پہلے آپ بیٹھ جائیں۔ یوں لگتا ہے‘ الیکشن کا دن آ جائے گا‘ یہ دونوں ایک دوسرے کو پہلے آپ! پہلے آپ! کہتے رہیں گے اور الطاف حسین‘ ان دونوں کو کھڑے چھوڑ کر کہیں گے ''تم دونوں کھڑے رہو‘ میں بیٹھ جاتا ہوں۔‘‘ بندہ الیکشن میں کرسی پر بیٹھنے کے لئے کھڑا ہوتا ہے‘ کھڑے رہنے کے لئے نہیں۔ مگر کراچی میں صورتحال یہ ہے کہ خیبرپختونخوا میں‘ ایک دوسرے کے کولیشن پارٹنر‘ قبل ازوقت ایک دوسرے کو بیٹھنے پر مجبور کر رہے ہیں اور جب بیٹھنے کا وقت آیا‘ تو یہ دونوں کھڑے نظر آئیں گے اور کوئی تیسرا کرسی پر بیٹھا‘ پیر ہلا رہا ہو گا۔ خوش فہمیاں کئی طرح کی ہوتی ہیں۔ ایسی خوش فہمی بہت کم دیکھنے میں آئی کہ جن دو امیدواروں کی شکست یقینی ہے‘ وہ اسے مزید یقینی بنانے کے لئے‘ ایک دوسرے کے ساتھ مقابلے پر تلے کھڑے ہیں۔ بیٹھنے کو تیار نہیں۔ دونوں کی خواہش ہے کہ تیسرا بیٹھ جائے۔ اگر دونوں پارٹیوں کے امیدواروں کے دعووں کو مان بھی لیا جائے کہ اس کا پلہ بھاری ہے‘ تو ان دونوں کی کامیابی کی توقع کیسے کی جائے؟ نشست ایک ہے۔ اکثریت بھی کوئی ایک حاصل کر سکتا ہے۔ عام مبصرین کا خیال ہے کہ ایم کیو ایم پر کتنا بھی برا وقت آیا ہو‘ کم از کم مذکورہ حلقے میں ‘ ان دونوں سے مار نہیں کھا سکتی۔ یہ دونوں جو کچھ حاصل کر سکتے ہیں‘ وہ ہے ایک بھرم رکھنے والی شکست۔ ایسی شکست‘ جسے کھانے کے بعد‘ ہارنے والا بدمزہ نہ ہو۔
انتخابی میدان میں ڈٹے ہوئے دونوں کولیشن پارٹنر‘ ایک دوسرے کو آبرومندانہ شکست کا موقع دینے کو بھی تیار نہیں۔ دونوںکی خواہش ہے کہ مقابلے میں کھڑے رہیںتاکہ اگر دونوں کے ووٹ جمع ہو کر‘ ایم کیو ایم کو شکست دینے کے قابل ہو جائیں‘ تو یہ موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا جائے۔ ایم کیو ایم کے امیدوار نے بڑی اچھی تجویز پیش کی ہے کہ اگر یہ دونوں امیدوار ‘ پرنٹنگ پریس کا عملہ صوبے کے باہر سے منگوانا چاہتے ہیں اور پولنگ پر کام کرنے والے اہلکاروں کو بھی دوسرے صوبوں سے درآمد کرنے پر مصر ہیں‘ تو تھوڑی سی اور زحمت کر لیں‘ خصوصی ٹرینیں چلا کر ووٹر بھی پنجاب اور کے پی کے سے منگوا لئے جائیں۔ اور کچھ ہو نہ ہو‘ ایم کیو ایم کی شکست یقینی ہو جائے گی۔ دوسری سیاسی جماعتوں کے ساتھ‘ انتخابی لین دین کا عمران خان کو پہلا تجربہ ہو رہا ہے۔ سچی بات ہے‘ 2013ء تک تحریک انصاف کی ایسی پوزیشن نہیں تھی کہ کوئی اسے خاطر میں لاتا۔ یہ پوزیشن اسے گزشتہ انتخابات کے دوران حاصل ہوئی اور دھرنوں کے بعد ایسا لگتا ہے کہ اس کے ووٹر بہت بڑی تعداد میں میدان کے اندر اتر سکتے ہیں۔ مگر ایسا بھی نہیں کہ کراچی میں ایم کیو ایم کواس کے گھریلو حلقے میں شکست دے سکیں۔ جماعت اسلامی کی پوزیشن تو اور بھی مضحکہ خیز ہے۔ سب جانتے ہیں کہ ایم کیو ایم کی وجہ تخلیق جماعت اسلامی ہے۔ نہ یہ طاقت سے بدمست ہو کر نوجوان طلباوطالبات پر ڈنڈے برساتی‘ نہ ایم کیو ایم معرض وجود میں آتی۔ الطاف حسین نے یہ راز خود ہی کھول دیا کہ نوجوانی میں وہ جس لڑکی کو ٹیوشن پڑھایا کرتے تھے‘ اس پر فریفتہ ہو گئے تھے۔ نہ جماعت اسلامی ڈنڈے چلاتی‘ نہ الطاف حسین کا جوانی کا عشق رفوچکر ہوتا اور نہ جماعت کو یہ مصیبت پڑتی۔ الطاف کو عشق کے راستے سے ہٹا کر‘ جدوجہد کے راستے پر خود جماعت اسلامی نے ڈالا تھا اور جب سے ایم کیو ایم‘ میدان انتخاب میں اتری ہے‘ انتخابی کامیابی نے جماعت کی طرف پلٹ کر نہیں دیکھا۔ جب بھی اسمبلیوں میں نشستیں پائیں‘ فوج کی مہربانی سے پائیں۔ ورنہ ہر الیکشن میںایم کیو ایم کے ہاتھوں شکست ہی کھائی۔ یہ راز نہیں رہ گیا کہ جماعت ایم کیو ایم کا مقابلہ کرنے کے لئے سہارے ڈھونڈتی پھر رہی ہے۔ عمران سے کہا جا رہا ہے کہ اپنے امیدوار کو بٹھا لیں۔ پیپلزپارٹی سے کمک طلب کی جا رہی ہے کہ خدا را آئو! ہماری کشتی پار لگائو۔ ان اللہ کے بندوں سے کوئی پوچھے کہ اگر آپ نے ہر کسی کے آگے دست سوال ہی دراز کرنا تھا‘ تو آپ کو کس حکیم نے مشورہ دیا تھا کہ انتخابی دنگل کے میدان میں اتریں؟ گزشتہ چند برس سے جب بھی الیکشن ہوتا ہے‘ جماعت اسلامی ڈھول کی تھاپ پر بھنگڑا ڈالتے ہوئے‘ اکھاڑے میں اترتی ہے۔ تھوڑی سی پھرتیاں دکھاتی ہے۔ چشم زدن میں چت ہو جاتی ہے اور ناظرین ایک دوسرے سے پوچھتے ہی رہ جاتے ہیں ''یہ کیا ہو گیا؟ کیوں ہو گیا؟ کب ہو گیا؟‘‘ لوگ بھی کیا سادہ ہیں؟ پورے پاکستان نے انوکی اور اکی کا مقابلہ دیکھا۔ اکی چت ہو گیا‘ مگر کسی کو آج تک پتہ نہیں چلا کہ ہوا کیا تھا؟ صرف اکی کو آوازیں لگاتے سنا ۔ ''ہائے! میرا کندھا؟‘‘ اکی پھر حوصلہ مند تھا۔ اس نے دوبارہ انوکی سے کبھی یہ نہیں کہا کہ ''اِب کے آ۔‘‘ جماعت اسلامی کے حوصلے کی داد دینا پڑتی ہے کہ ہمیشہ یوںہارتی ہے کہ ''ہائے! میرا کندھا‘‘ اور للکارتی ہے تو یوں کہ ''اِب کے آ۔‘‘ ایک طرف ایم کیو ایم کو للکار رہی ہے اور دوسری طرف عمران خان سے درخواستیں ہو رہی ہیں ''بھا جی! اپنا عمران تے بٹھا دیو۔‘‘ مجھے اس وقت بڑا مزہ آتا ہے‘ جب جماعت کے مقررین ‘ جلسوں میں اپنا حق فائق ثابت کرنے کے لئے دلائل دیتے ہیں کہ ''ہم ‘ایم کیو ایم کے مقابلے میں زیادہ مرتبہ الیکشن لڑے ہیں۔ زیادہ مرتبہ ہارے ہیں۔زیادہ اکثریت سے مار کھائی ہے۔ اس لئے الیکشن لڑنے کا حق بھی ہمارا ہے۔‘‘ دلیل بڑی زبردست ہے۔ اگر یہ معیار مقرر کر دیا جائے‘ تو کون سی پارٹی ہے‘ جو جماعت پر اپنی فوقیت ثابت کر سکے؟ الطاف حسین برسوں سے خواتین کے خصوصی جلسے منعقد کرتے ہیں۔ اس مرتبہ جماعت بھی مقابلے پر اتر آئی۔ لیکن ہوا کیا؟ الطاف بھائی کی روایت ہے کہ ان کے جلسے میں کوئی دوسرا مقرر‘ تقریر نہیں کر سکتا۔بعد میں کرتا پھروں ٹکور تو فائدہ کیا؟ جماعت اسلامی کے جلسوں میں تو ایک مقرر نہیں بولتا‘ ایک طویل فہرست ہوتی ہے‘ جو تقاریر کے طومار باندھ دیتی ہے۔ اب کے جماعت کو کیا سوجھی کہ اس نے بھی ایم کیو ایم کی دیکھا دیکھی خواتین کا ایک جلسہ منعقد کر دیا۔ جلسے کی خاصیت یہ تھی کہ پنڈال میں خواتین تھیں اور سٹیج پر سارے مرد۔ کوئی مرد حاضرین میں نہیں تھا اور کوئی خاتون مقررین میں نہیں تھی۔ خواتین سن رہی تھیں۔ مرد سنا رہے تھے۔ بے چاریاں‘ گھر میں تو بولنے کو ترستی ہی ہیں۔ مولوی حضرات جلسوں میں بلا کر بھی بولنے کا موقع نہیں دیتے۔
اس ضمنی الیکشن کا سب سے زیادہ فائدہ ‘اس نہاری والے کو ہوا‘ جہاں پی ٹی آئی کے امیدوار بار بار نہاری کھانے جاتے ہیں۔ باربار مخالفانہ نعرے سنتے ہیں۔ نہاری والے کی کمرشل‘ پاکستان کے تمام ٹی وی چینلز پر دکھائی جاتی ہے۔ تحریک کا کام چلے نہ چلے‘ نہاری والے کا دھندہ چل گیا۔ اگر کوئی مجھ سے پوچھے تو عمران اسماعیل حلقہ نمبر 246 کی نمائندگی کے زیادہ حق دار ہو چکے ہیں۔ اسمبلی میں جانے والے تمام ‘نئے ممبر پہلے اپنا پیٹ بھرتے ہیں اور بار بار جانے والے ممبر‘ پیٹ بھرنے کے اتنے عادی ہو چکے ہوتے ہیں کہ کسی دوسرے کا پیٹ انہیں دکھائی ہی نہیں دیتا۔ عمران اسماعیل نے انتخابی مہم کے دوران‘ اتنی نہاری کھا لی ہے کہ جیت گئے تو آنے والے پورے پانچ سال انہیں کچھ کھانے کی ضرورت نہیں رہے گی۔ نکتے کی بات میں نے بتا دی ہے۔ لیکن اگر ووٹر حضرات ‘ اقتدار کے بھوکوں کی دوڑ میں‘ ایک بھوکے کا اضافہ کرنے پر بضد ہیں‘ تو یہ ان کی مرضی۔ ورنہ بھرے پیٹ والاامیدوار تو میں نے پیش کر دیا ہے۔