تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     19-04-2015

ملتان میں ماضی کے مزار۔۔۔۔!

خبر ملی کہ اپنے یار بیلی جمشید رضوانی کی والدہ انتقال کر گئی ہیں۔ میں جمشید اور شعیب رضوانی کے گھر ٹھہرا ہوا ہوں ۔ ملتان ایئرپورٹ پر مجھے میرا دوست شکیل انجم لینے آیا۔ جمشید رضوانی کے چچا جمیل صاحب اپنی بہوکو لینے آئے ہوئے تھے۔ ملے تو رو پڑے کہ ہماری بھابی نے ہم سب کوپیار دیا، لگتا ہے ان کے جانے کے بعد سب کچھ اجڑ گیا ہے۔ اداسی اور دکھ جمشید کی آنکھوں میں صاف جھلک رہا ہے۔ کمرے میں ادھر ادھر چل رہا ہے، کہنے لگا تمہیں پتا ہے کیا ہوا؟ میں نے نظریں اٹھائیں تو بولا : آخری دنوں جب اماں ہسپتال داخل تھیں تو بلایا اورکہا: تمہارے ابو کے کزن مجھے قبر میں اتاریں گے اور دوسرا اپنے چھوٹے بھائی شعیب کوکہنا کہ وہ قبر میں اتارے۔ 
جمشیدکو دھچکا لگا کہ ماں نے اسے کیوں نہیں کہا۔بھیگی آنکھوں سے ماں کو دیکھا اور بولا:اماں میراکیا قصور ہے، ناراض ہو۔ ماں مسکرائی، جمشید کو قریب کیا،گال تھپتھپائے، بولیں تیرہ برس قبل تمہاری ریڑھ کی ہڈی کا آپریشن ہوا تھا، ڈاکٹر نے وزن اٹھانے سے منع کیا تھا، میت کا بھی وزن ہوتا ہے، میں نہیں چاہتی میری میت قبر میں اتارتے وقت تمہیں کچھ ہو۔مجھے یاد آیا 1992ء میں جب یونیورسٹی میں فرسٹ ایئر میں داخلہ لیا تو پتا چلا اماںکو کینسر ہے ۔ نعیم بھائی اور میں نے نشتر ہسپتال کے کینسر وارڈ میں اماں کے ساتھ آٹھ ماہ گزارے۔ ڈاکٹر ابرار احمد جاوید جیسے اچھے اور قابل ڈاکٹر نے علاج کیا۔ ایک رات نعیم بھائی بہاولپورگئے ہوئے تھے، میں اماں کے ساتھ وارڈ کے کمرے میں اکیلا تھا۔اچانک ان کی طبیعت خراب ہوگئی۔ رات گئے مجھے ذہنی طور پر اپنی موت کے لیے تیارکرنے لگیں۔ بولیں: تم میرے ساتھ اکیلے ہو،اگر مجھے کچھ ہوجائے تو بالکل ڈرنا نہیں، ہاتھ پائوں سیدھے کرنے ہیں، منہ کھلا نہیں ہونا چاہیے، بازو جسم کے ساتھ لگاکر سیدھے رکھنے ہیں۔۔۔۔ ہاں ڈرنا بالکل نہیں، اگر میری روح جسم سے نکل گئی تو بھی میں وہی ماں ہوںگی جو اس وقت تمہارے ساتھ ہے،اس لیے بالکل نہیںڈرنا، میری میت کو سلیقے سے بیڈ پر رکھنے کے بعد باہر جانا اوربھائی کو بتانا اور پھرگائوں لے جانا اور وہاں رونا بھی نہیں، میں تم سے خوش ہوں۔۔۔۔ بس ڈرنا نہیں‘ اگر میں اس وقت فوت ہوجائوں۔ 
اماں کو موت کا ڈر نہیں تھا، اگر ڈر تھا تو اس بات کاکہ ان کا چھوٹا بیٹا اکیلا ان کے پاس رات گئے موجود تھا اور اگر وہ فوت ہوگئیں تو یہ ڈر نہ جائے،اسے کچھ ہونہ جائے۔ پتا نہیں کتنی دیر تک وہ میرا حوصلہ بڑھاتی رہیں۔میں آج بھی سوچتا ہوں،کیا واقعی موت کے قریب پہنچ کر موت کا ڈر ختم ہوجاتا ہے یا اپنے پیاروںکی محبت موت کے خوف پر غالب آجاتی ہے۔ دوسروںکا علم نہیں لیکن ایک ماںکا ڈر تو ختم ہوجاتا ہے،موت کے وقت بھی اسے بچوںکی فکر ہوتی ہے کہ کہیں یہ ڈر نہ جائیں۔ آج بھی آنکھیں بھیگ جاتی ہیںکہ ماںکو موت کی نہیں اپنے بیٹے کی فکر تھی کہ کہیں وہ ڈر نہ جائے۔ 
جمشید رضوانی کے گھر رات گئے اکیلے کمرے میں لیٹے ماضی کی یادیں تازہ کرتے ہوئے یاد آیا کہ بہائوالدین زکریا یونیورسٹی میںداخلے کے بعد جو چند مستقل دوست بنے ان میں جمشید بھی تھا۔ وہ اردو ڈیپارٹمنٹ کا طالب علم اور ہم انگریزی ادب کے۔ عمارت ایک ہونے کی وجہ سے ملاقات ہوجاتی۔ ایک شرمیلا نوجوان ہر وقت چھپتا پھرتا تھا۔ میانوالی سے شعیب بٹھل اورلیہ سے میں۔۔۔۔ ہم دونوںدیہاتیوں نے نیا نیا شہرکا رخ کیا تھا، لہٰذا ایسے شرمیلے کردار ہمیں بھی اچھے لگتے جو باتیں کم اور مسکراتے زیادہ تھے۔ ہم پینڈو بتیاں دیکھنے یونیورسٹی کی بس پر ملتان شہر نکل جاتے۔ شعیب بٹھل کوایک دن کہاکہ یار ہم دیہاتی بھی عجیب ہوتے ہیں، شہرکی یونیورسٹی میں جو پہلی لڑکی اچھے کپڑے پہنے، بالوں کو سلیقے سے سجائے ہم سے مسکراکر بات کر لے، ہمیں اس سے اسی دن محبت ہوجاتی ہے اور ظالم ایسی ہوتی ہے کہ ہم گھر کے رہتے ہیں نہ گھاٹ کے۔ بس یونیورسٹی کی لڑکی کا ہمیں دیکھ کر مسکرانا ضروری ہوتا ہے کیونکہ ہم دیہاتیوں نے لڑکیوںکی مسکراہٹ پر ایک پوری رائے دے رکھی ہے کہ جو لڑکی ہنس پڑی سمجھو وہ آپ پر مر مٹی۔ 
ڈاکٹر انواراحمد سے جا کر ملا۔ انہیں بتایا: کچھ لکھا ہے۔ بولے: میرا شاگرد جمشید ہے،اسے جا کر ملو، اس کے والد خان رضوانی اور وہ خود جنگ میںکام کرتے ہیں۔ یونیورسٹی سے چلا اور جمشید کے گھر جا پہنچا۔ یہ جمشید سے پہلی ملاقات تھی۔ انواراحمدکا حوالہ دیا، لکھا ہوا مضمون پکڑایا اور اس امید پر واپس لوٹ گیا کہ کچھ روز بعد چھپ جائے گا۔ مجھے پتا نہیں تھا کہ جمشید سے ایک طویل دوستی کا سفر شروع ہورہا ہے۔ مضمون تو نہ چھپا لیکن جمشید رضوانی مل گیا۔ سودا ہرگز برا نہ تھا۔ ملتان میں جہاں باقر شاہ جی، ذوالکفل بخاری کے گھر جائے پناہ بن گئے تھے، ان میں جمشید رضوانی کا گھر بھی شامل ہوگیا۔ جب یونیورسٹی سے فارغ ہوا تو ملتان میں جہاں مظہرعارف کومل اور ان کے ساتھ چند ماہ کام کرنے کے بعد صحافی بننے کا شوق چرایا تھا وہاں خان رضوانی جیسے سادہ اورخوبصورت دل کے مالک لوگوں کا بھی ہاتھ تھا۔ چہرے پر ہر وقت مسکراہٹ سجائے رکھتے۔ ایک روایتی ریاستی سرائیکی۔
خان رضوانی کا ملتان کی صحافت میں بڑا نام تھا۔ ہم بھی بڑے سمجھدار نکلے اور ملتان میں ان کے بیٹوں سے دوستی لگا لی کہ شاید اس بہانے کچھ فیض مل جائے۔ ہر شام ان کے گھرکے ساتھ جڑے دفتر میں بیٹھے رہنا‘ آتے جاتے سیاستدانوں اور لیڈروںکی گپیں سننا۔۔۔۔ پریس ریلیز اور بیانات کو خبروںکی شکل میں ڈھلتے دیکھنا۔ مجھے علم ہوتاکہ گھر سے چائے بن کر آئے گی اور سب کے لیے بن کر آئے گی، چائے کے ساتھ لوازمات بھی ہوتے۔اس طرح ہم بیروزگاروں کا یہ پکا ڈیرہ بن گیا۔ مہمان نوازی کا سنا تھا لیکن اسے دیکھنے کا موقع ملتان میں اپنے چند دوستوںکے گھرملا۔ اس کے بعد اسلام آباد میںارشد شریف، ڈاکٹر ظفر الطاف اور میجر عامرکے گھر مہمان نوازی دیکھی۔ پھر ورجینیا (امریکہ) میں اوکاڑہ کے اکبر چودھری کے گھر مہمانوں کا ہجوم دیکھا۔ جب تک درجن بھر بندے اکٹھے نہ ہوجائیں ان سب کاکھانا ہضم نہیں ہوتا۔ ملتان میں ذوالکفل بخاری، مختار پارس، سعود نیاز اور جمشید رضوانی کے گھر ہر وقت مہمانوں سے بھرے ہوتے۔ پھر کہوں گا کہ روایتی مہمان نوازی کا احوال میں نے کتابوں میں پڑھ رکھا تھا لیکن اسے دیکھا ان چندگھروں میں۔ 
ملتان میں دوستیاں بڑھتی گئیں اور ایسی بڑھیںکہ پھر یوں لگتا کہ ملتان میں ہی ہمارا جنم ہوا تھا۔ دوستوں کے گھروں پر ہم نے قبضہ کر لیا، نہ صرف گھروں پر بلکہ ان کی مائوں پر بھی۔ دوستوں کی مائوںکو اپنی ماںکا درجہ دے دیا ۔ اللہ نے ایک ماں واپس لی تھی تو اس کے بدلے کئی دے دیں۔ پارس کی امی ہو یا پھر ذوالکفل کی۔۔۔۔جمشید، سعود نیاز یا پھر جمشیدکی ۔۔۔۔۔ہر جگہ ماں ڈھونڈ لی۔ 
جتنا مشکل وقت ملتان میں گزارا وہ اب اچھا لگتا ہے۔گزرے وقت سے سب ہی محبت کرتے ہیں۔ مشکل وقت حال کا لگتا ہے اور مستقبل سے سب خوفزدہ رہتے ہیں ۔ علی شیخ، فیاض، سجاد جہانیاں،انجم کاظمی، طاہر ندیم، عمران مرزا، ریاض گمب،کیپٹن زاہد اسلم۔۔۔۔۔ دوستوںکی ایک طویل رفاقت اس دن ختم ہوئی جب میں نے ملتان سے اسلام آباد جانے کا فیصلہ کیا۔ برسوں بعد،کچھ دن قبل ، نصرت جاویدکے منہ سے عامر متین کے گھر بیٹھے سنا، فیض احمد فیض نے انہیں کہا تھا کہ نصرت! مان لیا تم لاہور میں صحافی ہو لیکن صحافت تو ہمیشہ ملک کے دارالحکومت میں ہی ہوتی ہے۔ نصرت جاوید نے کیا اہم بات کہہ دی تھی۔ میرے لیے فیض احمد فیض کا یہ کردار جمشید رضوانی اور نذر بلوچ نے ادا کیا تھا۔ ملتان چھوڑنے لگا تو نذر بلوچ نے بلاکرکہا:ایک بات یاد رکھنا، میں تم سے پہلے اسلام آباد گیا تھا لیکن شہر نے مجھے دوبارہ اٹھاکر ملتان پھینک دیا۔اسلام آباد ظالموں کا شہر ہے۔ یہ چھ ماہ، سال تک کوشش کرتا ہے جو شخص یہاں رہنے اور کچھ کرنے آیا ہے اسے دوبارہ اپنے گھر بھیج دے۔ اگر تم نے چھ ماہ ضدکرکے وہاںگزار لیے تو یہ شہر تمہیں عمر بھرکہیں اور رہنے کے قابل نہیں چھوڑے گا اور خوب نوازے گا۔ وہی ہوا۔
میں اور جمشید کافی دیر سے کمرے میں ہیں ، دونوں چپ، ایک طویل خاموشی۔ بائیس برس سے زائد عرصہ گزر گیا ہے۔ کب سوچا تھا کہ رفاقت اتنی طویل ہوگی اور دکھ سانجھے ہوںگے۔ جمشید رضوانی کمرے کی کھڑکی سے ٹیک لگاکر دکھی آنکھوں سے دور ملتان کے آسمان میںکچھ ڈھونڈ رہا ہے۔ وہ مجھ سے اپنی ماں کی باتیں کر رہا ہے۔ ایک ایسی ماں جس کو موت سے زیادہ اس بات کی فکر تھی کہ کہیں اس کا بیٹا جمشید اسے قبر میں نہ اتارے کیونکہ ماں نے تیرہ برس قبل ڈاکٹر سے سن لیا تھا کہ اس کے بیٹے نے کوئی وزن نہیں اٹھانا۔ بھلا ایک ماں یہ بات موت کے بستر پر بھی کیسے بھول سکتی تھی کہ کچھ بھی ہو۔۔۔۔۔ میت کا بھی تو وزن ہوتا ہے! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved