تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     19-04-2015

گولڈ میڈل

کنیئرڈ کالج لاہور کا 78واں کانووکیشن 16اپریل کو منعقد ہوا۔ کانووکیشن میں گریجویشن کی جن ذہین طالبات کو اعزازات سے نوازا گیا‘ ان میں میری بیٹی ردا فاطمہ میر بھی شامل ہیں۔ میری بیٹی کو میڈیا سٹڈیز گریجویشن میں امتیازی نمبر حاصل کرنے پر گولڈ میڈل سے نوازا گیا۔ کھیلوںاوردیگر غیر نصابی سرگرمیوں میں بہترین پرفارمنس پر بھی اسے گولڈ میڈل دیاگیا ۔ اس طرح ردا فاطمہ ماشااللہ ڈبل گولڈمیڈلسٹ ہوگئی ہے، اس کے تایا صاحبان ڈاکٹر طیب سرور میر اور سہیل احمد عزیزی نے اسے ''گولڈن گرل ‘‘ کے خطاب سے نوازا ہے۔ 16 اپریل کا دن میرے لئے مبارک ثابت ہوااور اب میں اس دن کو بطور ایک ''تہوار ‘‘ منایاکروں گا۔ 
میری اور ردا فاطمہ کی ''تعلیمی کہانی‘‘ میں ایک ایسا سبق موجود ہے جو میں دوسرے والدین سے شیئرکرنا چاہتا ہوں ۔ میری بیٹی چونکہ ہماری اکلوتی اولاد ہے اور ویسے بھی ہمارے خاندان میں تعلیم کی معاشرتی اہمیت پر بڑا زور دیا جاتا ہے‘ اس لیے بیٹی کے تعلیمی کیریئر کا آغاز صرف 3سال اور 4ماہ کی عمر میں کردیا گیاتھا ۔ یہ بات دلچسپی سے خالی نہیں کہ نرسری سے پانچویں اور چھٹی کلاسز تک وہ نمایاں پوزیشن حاصل کرتی رہی۔ پھر یہ ہوا کہ آٹھویں ،نویں اور دسویں میں اس نے اوسط درجے کی تعلیمی کارکردگی کامظاہرہ کیا۔میٹرک میں اس کی فرسٹ ڈویژن تو تھی لیکن اتنے نمبر نہیں تھے کہ اسے کنیئرڈ کالج میں داخلہ ملتا۔ میری اہلیہ مسمات غزالہ یعقوب بیٹی کو ڈاکٹر بناناچاہتی تھی جبکہ بیٹی کا خواب تھاکہ وہ میڈیا سٹڈیز میں پی ایچ ڈی کرے۔سچویشن ایسی ہوگئی تھی کہ دونوں کے سپنے اور خواب ادھورے دکھائی دینے لگے ۔انہی دنوں میری بیٹی نے مجھے کہا: ''پاپا! آپ ایک مرتبہ میرا داخلہ کنیئرڈ میں کرادیں ،اس کے بعد میں آپ کو کبھی مایوس نہیں کروں گی‘‘۔یہ لمحہ بھی عجیب ہوتاہے کہ جب بیٹی باپ سے فرمائش کرے اور باپ اسے پورا نہ کرپائے۔یہ سچویشن ابو،پاپا ،ڈیڈی اور بابل کے روایتی کردار کے منافی ہے ،لیکن شکر ہے اس سچویشن سے میں جلد ہی باہر نکل آیا اور سپورٹس سیٹ پر میری بیٹی کا داخلہ کنیئرڈ میں میرٹ پر ہوگیا۔ پسندیدہ کالج اور من چاہے مضامین اختیار کرنے کے بعد نتیجہ یہ نکلاکہ میری بیٹی نے ٹاپ کیااور گولڈ میڈلز حاصل کئے ۔سٹارکالم نگار برادرم حسن نثار کہاکرتے ہیں کہ والدین کی الٹی میٹ کامیابی بچوں کی تعلیمی قابلیت اور استطاعت ہوتی ہے جو انہیں سوسائٹی میں ایک کارآمد شخص کے طور پر اپنی ذمہ داریاں نبھانے کے قابل بناتی ہے۔ 
ردا نے میڈیا سٹڈیز میں جو گولڈمیڈل حاصل کیا‘ اس میں میرا اتنا ہی کردار ہے جتنا حکومت کا دہشت گردی کے خاتمے میں۔ بیٹی کے تعلیمی سیشن کے حوالے سے قسم اُٹھا سکتا ہوں کہ اس عرصہ میں اسے ایک دن بھی یہ نہ سمجھا سکا کہ میڈیا کس بلاکا نام ہے۔ وجہ یہ رہی کہ کالم نگاری ،مذاق رات کے لئے سکرپٹ رائٹنگ اور ثقافتی صحافت کی سرپرستی کرنے کے بعد ''ابّو جی ‘‘ کے فرائض پوری طرح ادا نہیں کرپایا۔ میری اہلیہ غزالہ بیگم یوں توکوالیفائیڈ ہیں مگر ان کا سبجیکٹ ایم ایڈایلیمنٹری ہے اس لیے وہ بھی اپنی اکلوتی بیٹی کو صحافتی زیورِ تعلیم سے آراستہ نہ کرسکیں۔ میری بیگم کا یہ کریڈٹ ضرور ہے کہ وہ پورا سیشن بیٹی کے لئے ماں کے ساتھ ساتھ Maid(گھریلوملازمہ) بھی بنی رہی ۔گھر میں شاہدہ اور نسرین کی شکل میں معاونین خصوصی موجود ہوتی ہیں لیکن ان کے جانے کے بعد اکیلی بیگم صاحبہ ہی گھر میں اس ''ریاست ہائے پانچ مرلہ متحدہ ‘‘ کا نظم ونسق سنبھالے ہوتی ہیں۔ رواں سال اگست میں ہماری شادی کی انشا اللہ سلور جوبلی بھی ہوجائے گی۔جمہوری ٹرم پانچ سالہ ہوتی ہے، اپنی ازدواجی زندگی کاموازنہ قومی جمہوریت سے کروں تو جمہوریت مجھے دہلی کی وہ راج دھانی دکھائی دیتی ہے جسے حملہ آوروںکے ساتھ ساتھ چھڑے(کنوارے ) بھی لوٹتے رہے ہیں‘ وہ بھی ''دوپہری دیوابال کے‘‘۔ دوسری طرف زوجہ محترمہ جمہوری عرصہ کے مطابق پچھلی پانچ ٹرموں مراد 25سال ہیں بلامقابلہ جیتتی آرہی ہیں ۔بیگم گھر سے ایسے ہی جیتتی ہیں جیسے متحدہ کراچی سے جیتتی ہے۔ سیاست کی بات کریں تو اب ایک عرصہ سے پی ٹی آئی بھی کراچی کے عوام کے دل میں گھر بنا نے کی کوششوں میں مصروف ہے۔یہ کوششیں جماعت اسلامی جیسی ''بڑی بی ‘‘ بھی جاری رکھے ہوئے ہے۔ دیکھیں کراچی میں حلقہ 246کا کیانتیجہ نکلتاہے؟ کہاجارہاہے کہ ''بڑی بی ‘‘ کو اس بار لیگی جیٹھانی اور سندھی دیورانی کی حمایت بھی حاصل ہے لیکن وہ جو ڈان کہاکرتا ہے‘ اسے یوں کہیے کہ '' ساس کو پچھاڑنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے‘‘۔
یوسفی صاحب کے مرزا ودود کے بقول بات شیطان کی آنت کی طرح لمبی ہوگئی ۔میرا آج کاموضوع میری بیٹی کے گولڈ میڈل سے زیادہ ہمارا وہ تعلیمی نظام ہے جس میںجکڑے ہوئے طالب علم اپنی بہترین صلاحیتوں کا مظاہرہ نہیں کر پاتے۔ ہم جب سٹوڈنٹس ہو ا 
کرتے تھے تو ڈاکٹر، انجینئر،پائلٹ اور سول سروسز کے علاوہ پانچواں کوئی محکمہ متعارف نہیں ہوا تھا۔ مذکورہ شعبوں کے بعد ایم بی اے اور پھر ماس کمیونی کیشن کے مضامین معاشی طور پر گلیمرائز ہوئے۔ جس زمانے میں ہم نے ایم اے جرنلزم کیا‘ تب تو جرنلسٹ کو کرایے کے مکان کے ساتھ ساتھ رشتہ بھی نہیں ملتاتھا۔ ہمارے ہاں ایجوکیشن ان مضامین کو ہی سجھاجاتاہے جن کی ڈگری سے غریب دے بال کونوکری دستیاب ہوسکے ۔ تعلیم کے شعبے کے لئے کام کرنے والی ایک تنظیم کے سروے کے مطابق پاکستان میں 5سے 16سال تک کی عمر کے بچوں کی تعداد 5کروڑ 30لاکھ ہے جن میں 2کروڑ اور 70لاکھ بچے ہی سکول جاپاتے ہیں۔ملک میں جو ڈھائی کروڑ بچے تعلیم سے محروم ہیں ان میں 50فیصد کا تعلق پنجاب سے ہے ۔یہ ڈھائی کروڑ بچے وہ بدنصیب ہیں جنہیں سابق وزیر اعلیٰ پنجاب چوہدری پرویزالٰہی اپنے پڑھے لکھے پنجاب میں بھی علم کا نور فراہم نہ کرسکے ،حالانکہ ان کے باوردی سیاسی سرپرست کے پاس ان دنوں روشن خیالی کی'' انٹرنیشنل ڈیلر شپ‘‘ بھی تھی۔بنیادی تعلیم سے محروم ڈھائی کروڑ بچوں‘ جن کا نصف سواکروڑ ہے‘ کا تعلق پنجاب سے ہے ،قا بل ذکر امریہ ہے کہ خادم اعلیٰ پنجاب کے دور میں بھی وہ بچے درس گاہوں سے دُور ہیں۔
تھنک ٹینکس اور دانشور جو یہ کہتے تھکتے نہیں کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ دہشت گردی ، بے روزگاری، غربت، جہالت، کرپشن اور بدامنی ہے‘ ان درجہ دوم ''حکیم الامتوں ‘‘ کو مرض کی صحیح تشخیص کرنا ہوگی۔پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ بڑھتی ہوئی آبادی ہے جو ایک گھر سے لے کر سارے ملک کے وسائل کو ہڑپ کررہی ہے۔آبادی کے اژدھے کے ساتھ ساتھ کرپٹ حکمران الیٹ اور چند ریاستی مقدس گائیں بھینسیں اور سانڈعوام کے حصے کی روٹی بھی نگل جاتے ہیں۔ تعلیم ہی وہ شعور ہے جس کے حصول کے بعد ایک عام شہری کو اپنے اورریاست کے مابین سوشل کنٹریکٹ اور اصل رشتے کی سمجھ آتی ہے۔ اس لیے دانستہ کوشش کی گئی کہ عوام کو ان پڑھ اورجاہل رکھاجائے۔1968-69ء کی عوامی تحریک کے بعد معرض ِوجود میں آنے والی بھٹو حکومت نے اپنے پہلے بجٹ میں تعلیم اور صحت کے شعبوں کے لئے مجموعی بجٹ کا 43.2فیصد رکھاتھا۔مذکورہ بجٹ وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے وفاقی وزیر خزانہ ڈاکٹر مبشر حسن نے بنایاتھا۔ 
بھٹو حکومت کے اس تاریخی بجٹ کا موازنہ بعد میں قائم ہونے والی جمہوری اور فوجی حکومتوں سے کرائیں تویہ رقم آٹے میں نمک برابر معلوم ہوتی ہے۔نون لیگ کی موجودہ حکومت نے صحت کے شعبہ کے لئے مجموعی بجٹ کا 0.4فیصد رکھا ہے۔ہماری حکومت کی یہ ''حاتم طایانہ‘‘حرکت اس سخی کی قبر پر فلائنگ کک کے مترادف ہے جو دنیا میں سخاوت کے سلسلہ میں تمثیلی طور پر پہلا نام ہے ۔صحت کے شعبے میں اتنا قلیل بجٹ دنیا کے 134غیر ترقی یافتہ ممالک میں 134واں ہی بنتاہے۔اسی طرح تعلیم کے شعبے پر حکومت نے مجموعی بجٹ کا 1.02فیصد تفویض کرکے دنیا کا 129واں ممالک کہلوانا پسند کیاہے۔ اپنی اوربیٹی کی تعلیمی کہانی کا تجزیہ کروں تو سمجھ میں آتاہے کہ وہ اس لیے بھی گولڈمیڈل حاصل کرسکی کہ اسے وسائل کے ساتھ آئیڈیل ماحول بھی میسرآیا۔ بیٹی کی کامیابیوں پر خوشی تو ہوئی ہے لیکن اصل خوشی اس دن ہوگی جب ملک کے تمام بیٹوں اور بیٹیوں کو حکومت اورریاست کی طرف سے گولڈمیڈلز جیتنے کا ماحول مہیاکیاجائے گا اور وہ گولڈمین اور گولڈن گرل کہلاسکیں گی۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved