اہلِ مغرب نے کائنات کو مُسخّر کرنے کا مِشن شاید مکمل کرلیا ہے تبھی تو وہ اب معاشرتی معاملات کا تیا پانچا کرنے پر تُل گئے ہیں!
مغربی دنیا میں ماہرین کے پاس جب کچھ نہیں بچتا تو وہ چند پسندیدہ ترین موضوعات کو لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ ایسی حالت میں اُن کے مُنہ سے نکلنے والی ہر بات لوگوں کو ہنسا ہنساکر بے حال کردیتی ہے۔ مغربی ماہرین کے پسندیدہ ترین معاشرتی موضوعات دو ہیں۔ ایک تو ازدواجی زندگی کی ناہمواریاں اور دوسرے موٹاپا۔ ہم نے اکثر دیکھا ہے کہ میاں بیوی میں اَن بَن نہ بھی ہو تو ماہرین انٹ شنٹ آراء کے ذریعے کچھ نہ کچھ گڑبڑ گھوٹالا کرکے دم لیتے ہیں! اگر کوئی جوڑا بھرپور شادماں ہوکر زندگی بسر کر رہا ہو تو تحقیق کی جاتی ہے کہ ایسا کیونکر ممکن ہوسکا ہے! اور اگر کوئی جوڑا رات دن لڑتا رہتا ہو تو ماہرین یہ سوچ سوچ کر قبض میں مبتلا رہتے ہیں کہ اِس لڑائی میں وقفہ کس طور متعارف کرایا جائے!
اگر ماہرین کی پسند کے دونوں موضوعات ایک پیج پر آجائیں تو؟ یہ بھی ماہرین کی مہربانی اور کمال ہے کہ ازدواجی زندگی اور موٹاپے کو ایک مرکز پر لے آئے ہیں۔ برطانوی ماہرین کی ''سائنسی‘‘ تحقیق کی بدولت ''انکشاف‘‘ ہوا ہے کہ بہت سی بیویاں جان بوجھ کر لذیذ کھانے پکاتی ہیں تاکہ اُن کے میاں وہ لذیذ کھانے کھا کھاکر موٹے ہوجائیں اور کوئی خوبصورت عورت اُنہیں گھاس نہ ڈالے!
ازدواجی زندگی، کھانوں اور موٹاپے کے باہمی تعلق پر کی جانے والی اِس ''تحقیق‘‘ سے یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ بہت سے لوگ شادی کے بعد نئی نویلی دلہن کو خوش رکھنے کے لیے اُس کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا خوب کھاتے ہیں اور پھر اُنہیں بیوی کے ہاتھ کے مسالے دار کھانوں کی عادت سی ہو جاتی ہے!
اِس پُرلذّت تحقیق کا تیسرا پہلو یہ ہے کہ شادی کے بعد بہت سے مرد یہ سوچ کر خوب کھاتے رہتے ہیں کہ اب اُنہیں کون سا کسی لڑکی نے پسند کرنا ہے!
دیکھا آپ نے؟ ماہرین نے کتنی خوبصورتی سے کئی اُمور ایک ہی تحقیق میں نپٹادیئے۔ لوگ سوچتے ہی رہتے تھے کہ شادی کے بعد عام طور پر مرد اِتنے موٹے کیوں ہوجاتے ہیں۔ ماہرین نے یہ عُقدہ ایسی خوبصورتی سے وا کیا ہے کہ کئی گِرہیں کُھل گئی ہیں، بہت سے اِشکال دور ہوگئے ہیں۔
غور فرمائیے کہ کوئی دُبلا رہ جائے تو ماہرین کو پریشانی لاحق رہتی ہے کہ وہ موٹا کیوں نہیں ہوتا۔ اور اگر کوئی موٹاپے کی راہ پر گامزن ہو تو ماہرین اِس غم میں دُبلے ہوئے جاتے ہیں کہ وہ دُبلا کیوں نہیں ہوتا! اب اگر کوئی خوشی خوشی زندگی بسر کر رہا ہے اور خوشی سے پُھولا نہیں سما رہا تو ماہرین وسوسے کا بیج بو رہے ہیں کہ بیوی جان بوجھ کر زیادہ اور لذیذ و مُرغّن کھانے کھلا رہی ہوگی تاکہ کوئی دوسری عورت اُس میں خاطر خواہ دلچسپی نہ لے!
یہ بات تو اب تک آپ بھی سمجھ گئے ہوں گے کہ ماہرین کبھی نہیں چاہتے کہ کسی بھی گھر میں ازدواجی سطح پر شادمانی پائی جائے۔ وہ ہر معاملے میں شک کا بیج بونے اور وسوسے کی فصل اُگانے پر متوجہ رہتے ہیں۔ اور یہ کام وہ ایسی سنجیدگی اور انہماک سے کرتے ہیں جیسے اُنہیں اِس دنیا میں وسوسے پیدا کرنے اور انتشار پھیلانے ہی کے لیے بھیجا گیا ہے!
ایک طرف بے چاری بیویوں کو یہ طعنہ سُننا پڑتا ہے کہ وہ شادی کے بعد شوہر کا خیال نہیں رکھتیں۔ اگر میاں کی صحت اچھی نہ ہو تو ہر شخص بیوی ہی کو موردِ الزام ٹھہراتا ہے کہ وہ کھانے پینے کا خیال نہیں رکھتی اور جب وہ شوہر کا خیال رکھنے پر مائل ہوتی ہیں اور شوہر کچھ جان پکڑنے لگتے ہیں تو ماہرین کی طرف سے یہ شوشہ چھوڑا جاتا ہے کہ وہ جان بوجھ کر ایسا کرتی ہیں تاکہ کوئی پرائی عورت اُن کے سہاگ کی طرف نہ دیکھے! بیویوں کے لیے تو ماہرین نے وہی کیفیت پیدا کردی ہے کہ اِدھر پہاڑ اور اُدھر کھائی۔ بے چاری بیویاں چلیں تو کیسے اور جائیں تو کہاں؟
اِس کا مطلب یہ ہے کہ اب اگر کوئی عورت اپنے شوہر کے لیے اچھا کھانا پکائے اور خوب کھلائے تو ہم اور آپ اِس شک ہی میں مبتلا ہوں کہ شوہرِ نامدار کے خلاف سازش ہو رہی ہے۔ یعنی لذیذ کھانے کے ذریعے سہاگ کا دفاع کیا جارہا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ شوہر بھی ماہرین کا سُجھایا ہوا یہ نکتہ پڑھیں اور خوب مزے لے لے کر کھائیں! بہت سے شادی شدہ مرد ذرا سی عقل سے کام لے کر گھر کے مینو میں مزید ورائٹی پیدا کرسکتے ہیں۔ یعنی کسی تقریب میں وہ کسی خاتون سے ہنس کر دو چار باتیں کرلیں اور بیوی خوفزدہ ہوکر اُن کے لیے اور بھی لذیذ کھانے بنانے لگے! یعنی ماہرین نے مرد کو بیوی کی نفسیات سے کھیلنے یا کھلواڑ کرنے کا راستہ دکھایا ہے!
شادی کے بعد ابتدائی چند ماہ کے دوران ہر شخص کو اپنی بیوی جنت کی حُور جیسی دکھائی دیتی ہے۔ ایسے میں اُس کی دِل جُوئی لازم سی ہوجاتی ہے۔ یہاں بھی ماہرین وسوسوں کی فصل اُگانے سے باز نہیں آئے۔ کہتے ہیں کہ مرد شادی کے بعد کچھ عرصے تک بیوی کو خوش رکھنے کے لیے اُس کے ہاتھ کا کھانا خوشی خوشی کھاتا ہے۔ ہم تو شادی کے اکیس سال بعد بھی بیگم کے ہاتھ کا پکا ہوا کھانا ''بخوشی‘‘ کھارہے ہیں۔ ہمارے بارے میں ماہرین کیا فرمانا پسند کریں گے! کیا ماہرین دِلوں میں جھانکنے کی بھی صلاحیت رکھتے ہیں؟ میاں بیوی راضی بہ رضا ہیں اور ماہرین کو صرف یہ فکر لاحق ہے کہ اِس ''رضا‘‘ میں ''جبر و سزا‘‘ کا کوئی پہلو تلاش کیا جائے، تھوڑی بہت آگ لگائی جائے تاکہ جو ذرا سی ''ہم آہنگی‘‘ بھی پائی جاتی ہو وہ راکھ کا ڈھیر بن جائے!
یہ بھی ماہرین کا مفروضہ ہی ہے۔ جسے گھاس ڈلوانی ہوتی ہے وہ گھاس ڈلواکر ہی دم لیتا ہے۔ ماہرین اگر یہ سمجھتے ہیں کہ لڑکیاں موٹے، ہَٹّے کٹّے لڑکوں پر نہیں مرتیں تو یہ اُن کی خوش فہمی، یا شاید غلط فہمی ہے۔ لڑکیاں موٹے اور تگڑے لڑکوں پر زیادہ مرتی ہیں کیونکہ اُنہیں بھی اندازہ ہوتا ہے کہ زندگی کی گاڑی کو تیز دوڑانے کے لیے اُس میں جوتے جانے والے گدھے کا طاقتور ہونا لازم ہے!
عام طور پر شادی بیاہ کی تقریبات میں لڑکیاں ٹھمکتے مٹکتے دُبلے پتلے نوجوانوں میں دلچسپی لے رہی ہوتی ہیں۔ یہ معاملہ صرف تقریب تک ہوتا ہے۔ تگڑے نوجوانوں سے ڈانس وانس نہیں ہو پاتا۔ ایسے میں لڑکیاں سنگل پسلی نوجوانوں ہی کو انجوائے کریں گی! جب بات جیون ساتھی کے انتخاب کی آتی ہے تو لڑکیاں ماہرین کی تمام آراء کو اپنے سینڈل کی نوک پر رکھتے ہوئے (شالا نظر نہ لگے!) ہم جیسے تگڑے نوجوانوں کی طرف دیکھتی ہیں۔ سیدھی سی بات ہے۔ زندگی کے میدانِ جنگ میں ہاتھی کام آتے ہیں نہ کہ ڈنڈوں اور گنّوں جیسی نحیف جسامت رکھنے والے کانکڑی ٹھمکے باز!
بیویوں کے لیے ہمارا مشورہ ہے کہ ماہرین کی آراء کو خاطر میں نہ لائیں اور اپنے اپنے شوہر کو بھرپور پیٹ پوجا کراتی رہیں۔ اور شادی شدہ مردوں کے لیے مشورہ ہے کہ اِدھر اُدھر کی سوچنے کے بجائے صرف کھانے پینے پر دھیان دیتے رہیں۔ موٹاپے کے خوف سے کھانے میں دلچسپی کم نہ کریں۔ اگر کسی کے نصیب میں بربادی ہی لکھی ہوگی تو وہ اِس حالت میں بھی آپ پر مر مِٹے گی کہ آپ پُھول کر کُپّا ہوچکے ہوں!