تحریر : طاہر سرور میر تاریخ اشاعت     20-04-2015

ہیجڑوں کی کرکٹ ٹیم

کرکٹ ورلڈ کپ کے کوارٹر فائنل اور پھر بنگلہ دیش کے ہاتھوں قومی کرکٹ ٹیم کے ہارنے کے بعد ہیجڑوں نے اپنی کرکٹ ٹیم بنالی ہے۔ یہ واقعہ سکھر میں پیش آیا جہاں ہیجڑوں نے قومی کرکٹ ٹیم کی مسلسل ہار کے بعد دلبرداشتہ ہوکر اپنی کرکٹ ٹیم بنائی اورنمائشی میچ کھیلتے ہوئے مخالف ٹیم کے دانت اور ٹھمکے،دونوں کھٹے کردیے۔ سکھر سے موصول ہونے والی اطلاعات کے مطابق ہیجڑوں کی دوٹیموں میں کرکٹ کا دوستانہ میچ کھیلاگیاجس میں'' بوم بوم ہیجڑہ الیون‘‘ نے'' ٹُک ٹُک کھسرا الیون‘‘ کو شکست دے کر میدان مار لیا۔ فتح کے بعد بوم بوم الیون کے چیلوں نے اپنے گروئوں کو کندھوں پراٹھا کر ''لڈی ہے جمالو‘‘ پر والہانہ انداز میں رقص پیش کیاجبکہ شائقین ان پر نوٹ نچھاور کرتے رہے۔ یہ ایسا موقع تھا جب کرکٹ کے بعد ڈانس کا ٹیسٹ میچ شروع ہوگیا جو بالآخرپولیس کو مداخلت کرکے بند کروانا پڑا۔کہتے ہیں کہ کمان سے نکلا ہوا تیر اور گھر سے نکلا ہوا ہیجڑا کبھی ناچے بغیر واپس نہیں آتا،اس لیے وہاں نسوانی آوازوں پر مردانہ بلکہ مردانہ وار رقص پیش کیاگیا۔ قادر الکلام اور پُرگو شاعر جوش ملیح آبادی نے اپنی مشہور ِزمانہ نظم ''خونی بینڈ ‘‘ میں کسی اضطرابی کیفیت کے لیے کہاتھا:
گم ہیں رِستے ہوئے زخموں کی بہاریں تُجھ میں
خنجروں کی ہیں مچلتی ہوئی دھاریں تُجھ میں
نیوز چینلز پر گرم مزاج ہیجڑے اپنے کنگ سائز ہاتھوں سے تالیاں بجا کر قومی کرکٹ ٹیم کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنا رہے تھے۔ وہ کہہ رہے تھے کہ 'ہائے ہائے کپتان اظہر علی اپنے پہلے امتحان میں ہی فیل ہوگئے ‘ 'ہائے ہائے سعید اجمل تیرا'دوسرا‘ تو تیسرا اور چوتھا ہوگیا‘۔ وہ ایک ایک کھلاڑی کی انفرادی کارکردگی کو نشانہ بنائے ہوئے تھے۔ انہیں پتا تھاکہ وہاب ریاض نے چار بنگالیوں کو آئوٹ کیاجبکہ راحت علی کو ایک وکٹ ملی۔ ا س وقت ہیجڑے اینکر پرسنز دکھائی دیے۔ مشاہدے میں آیا ہے کہ گرم مرطوب علاقوں کے ہیجڑے بھی گرم مزاج ہوتے ہیں اور ٹھنڈے علاقوں کے کھسرے کُول رہتے ہیں۔گُرو عاشی بٹ اور گُرو الماس بوبی دونوں کی مشترکہ رائے ہے کہ کراچی کے کھسرے کاسموپولیٹن ہوتے ہیں۔ وہ ویلیں یا انعام نہیں بھتہ وصول کرتے ہیں اور ٹارگیٹڈ فنکشنزکرتے ہیں۔ ہیجڑوں کے عسکری ونگز نہیں ہوتے لیکن وہ اپنی حفاظت کے لیے فول پروف انتظامات کرتے ہیں۔ حالات خراب ہوجائیں تو ہیجڑے زیر زمین چلے جاتے ہیں، حالات زیادہ خراب ہوجائیں توگُرو کے مشورے سے ہیجڑے خود ساختہ جلاوطنی بھی اختیار کرجاتے ہیں۔ ملکہ ترنم نورجہاں کا ایک خادم کھسرا جس کا نام اچھی میاں ہے‘ ایک عرصہ سے خودساختہ جلاوطنی اختیار کیے ہوئے ہے ۔ اچھی میاں کا ایک مقامی گلوکارہ سے جھگڑا ہوگیا تھا جس کے بعد اس نے خودساختہ جلاوطنی اختیار کرلی تھی۔ وطن سے دور زندگی گزارنے وا لے پردیسیوں کی ترجمانی افتخار عارف نے عمدہ انداز سے کی تھی ، شاید مذکورہ مترنم کھسرے کی کھسرانہ کیفیات کو بھی یوں عنوان دیاجاسکے :
میں اپنے خواب سے کٹ کر جیوں تو میرے خدا
اجاڑ دے مری مٹی کو، در بدر کر دے
ہیجڑوں کاکہنا ہے کہ مردوں اور عورتوں کے علاوہ کرکٹ ٹیم تو نابینائوںکی بھی ہے، تو پھر ہم سے یہ امتیازی سلوک کیوں برتا جارہاہے؟ پاکستان سے پہلے بھارت کے شہروں بنارس اور لکھنو میں بھی خواجہ سرائوں نے مطالبہ پیش کیا تھا کہ کھسروں کی کرکٹ ٹیم بنائی جائے جسے سرکار کی سرپرستی حاصل ہو۔ ہمارے ہاں تو کھسروں نے اپنی مدد آپ کے تحت کرکٹ ٹیم بنالی ہے، اسے صرف سرکارکی سرپرستی درکار ہے۔ سرکارکو اس بابت کیا عذر درپیش ہے؟ نون لیگ کی حکومت کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ پھٹی (تختی ) لگانے والوں کی سرکار ہے۔ میٹرو ہو یا کوئی پاور پراجیکٹ ،گرین ٹیکسی ہو یا ییلو ٹرین منصوبہ، یہ سب عوام کے خون پسینے سے نچوڑے گئے ٹیکسوں کی رقم سے بنائے جاتے ہیں، لیکن ان پر پھٹے اور تختے میاں برادران کے نصب کیے جاتے ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ ،فرانس ،چین ،کینیڈا،آسٹریلیا اور جاپان میں تعمیر کیے گئے ان گنت انڈر پاسز اور اوور ہیڈ بریجز پر کسی اوباما، ڈیوڈ کیمرون، مینول والز،شی چن پنگ،سٹیفن ہارپر،ٹونی ایبٹ اور شیزو ایب کے نام کی پھٹی دکھائی نہیں دیتی۔ درج بالا ممالک سے تعلق رکھنے والا کوئی خادم اعلیٰ یا کوئی عظیم قائد پبلک پراپرٹی پر اپنے نام کی تختی نصب کرنا بھی چاہے تو اس ملک کے پڑھے لکھے عوام اسے ایسا کرنے کی اجازت نہیں دیتے۔ یہ مغلئی شہزادوں والی ساری حرکتیں اسی ملک میں ہوتی ہیں جہاں حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ ! اپنے دیس میں رائج اس روایتی اور گھسی پٹی سچوایشن کومنیر نیازی کے پُرمغز شعرکا عنوان یوں دوںگا جس میں مرحوم نے ہماری قومی ای سی جی (الیکٹر و کارڈیک گرافکس)رپورٹ پیش کردی تھی: 
منیرؔ اس ملک پر آسیب کا سایہ ہے یا کیا ہے؟
کہ حرکت تیز تر ہے اور سفر آہستہ آہستہ
بھارتی فلم ''شعلے ‘‘ کے ولن گبر سنگھ نے اپنے دشمن کے حفاظتی گارڈز کے متعلق کہا تھاکہ ''ٹھاکر نے ہیجڑوں کی فوج بنائی ہے‘‘۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہم نے ہیجڑوں کی کرکٹ ٹیم بنائی تو ان کی بری کارکردگی سے کرکٹ بورڈ کی بدنامی تو نہیں ہوگی؟سوال یہ بھی ہے کہ اگر ہیجڑوں کا کرکٹ بورڈ بنایاگیا تو اس کا سربراہ کون ہوگا؟ اور کیا اس کا بھی چیف سلیکٹر کسینو سے ''تناول ماحضر‘‘ فرماتے ہوئے رنگے ہاتھوں پکڑا بھی جائے گا۔ ہیجڑوں کی عادت ہوتی ہے کہ وہ اپنے نام مشہور ثقافتی شخصیات سے مستعار کرتے ہیں۔ اداکارہ ریماخان جن دنوں نمبر ون ہیروئن تھی، ریماجان نامی ہیجڑے کا شہرہ ہوا تھا۔ ہیجڑوںکی دنیا کے تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ریماجان کا زنانہ سٹارڈم ریماخان کے گلیمر سے کم نہیں تھا۔ ان دنوں مارکیٹ میں کپور، پیڈکون ، چوپڑہ اورکیف ہیجڑوںکا فیشن ہے۔ 
بات کھسروں کی چل نکلی ہے تو یہ دور تلک جائے گی۔کرکٹ سے وابستگی سے پہلے بھی ہیجڑوں میں بُوم بُوم اور ٹُک ٹُک کھسرے پائے جاتے ہیں۔ بوم بوم کھسرے فاسٹ میوزک پر ڈانس کرتے ہیں جبکہ ٹُک ٹُک کھسرے ہلکی تال کے ساتھ ساتھ المیہ گانوں پر ڈانس کرنے کے ماہر ہوتے ہیں۔ ہیجڑوں کی دنیا میں اوپنرز ہیجڑے وہ ہوتے ہیں جو شادی بیاہ ،منگنی ،گٹ ٹوگیدر جیسی تقریبات میں رقص کا آغاز کرتے ہیں۔کہتے ہیں کہ اگر اوپنرز کھسرے اوپنرز بلے بازوں کی طرح ففٹی یا سنچری بنانے میں کامیاب ہوجائیں تو ون ڈائون اور ٹوڈائون کھسرے پھٹے چک دیتے ہیں۔ اگر بدقسمتی سے اوپنرزکھسرے آغاز میں ہی کوئی تاثر قائم نہ کرپائیں تو سٹارز اورمیگاسٹارزکھسرے بھی فلاپ ہوجایا کرتے ہیں۔ لیفٹ ہینڈ کھسرے تماشائیوں کو ٹف ٹائم دیتے ہیں، وہ بایاں دکھاکر دایاں ٹھکما لگاتے ہیں اور لوگ دیکھتے ہی رہ جاتے ہیں۔کھسروں کے نرت باد اور ٹھمکوں پر اعتراض کر دیا جائے تو ان کے بائیو مکینیکل ٹیسٹ کرانے کی بجائے ان کا بخرہ ( حصہ ) روک دیاجاتاہے۔ آف سپنر کھسرے اور لیگ بریکر کھسرے بھی کمال کے ہوتے ہیں، ان کے ٹھمکوں اور خاص طور پر نسوانی خواہشات پر مبنی گیتوں کے انداز میں جذباتی پن ہوتا ہے۔ سپیڈ سٹارکھسرے اور مڈل آرڈر 
کھسرے بھی کھسروں کی ممتاز اقسام ہیں۔ آل رائونڈرکھسرے وہ ہوتے ہیں جو کتھک، کتھاکلی، بھارت ناٹیم، رمبا سمبا اور بریک ڈانس پر یکساں مہارت رکھتے ہیں۔ Tailendersہیجڑے وہ ہوتے ہیں جو آخری وقت میں میدان میں اترکر رقص کی محفل کا پانسہ پلٹ دیاکرتے ہیں۔ ٹیل انڈر کھسرے دھمال ڈال کر محفل کا اختتام کیاکرتے ہیں۔ ٹیم جب بحران میں ہوتی ہے توکھسروں کے کیپٹن ،کیپٹن اننگز کھیلنے کے لیے میدان میں نکلتے ہیں۔ اس وقت ان کی ٹانگوں پر پیڈزکی بجائے گھنگھرو ہوتے ہیں۔کھسرا کبھی ایل بی ڈبلیو آئوٹ نہیں ہوتا، وہ انزی بھائی کی طرح رن آئوٹ بھی نہیں ہوتا،کھسرے اپنا کھیل کھیلتے ہوئے آسٹریلین کھلاڑیوں کی طرح سُپر فیلڈنگ کرتے ہیں، مجال ہے کوئی ویل بائونڈری سے بھی ڈراپ ہوجائے۔کاروبار حکومت اور گلشن کے کاروبار کی طرح یہ کاروبار چل جائے تو ہیجڑوں کی کرکٹ لیگ بنائی جاسکتی ہے، پھر یہ سٹار ہیجڑے آئی پی پی ایل میں منہ مانگے داموں میں فروخت بھی ہوا کریںگے۔ یہ میچز شروع ہوگئے تو تجزیہ کارکے طور پر شین وارن، گواسکر، راجہ اور شاستری ہیجڑے معروف کمنٹیٹرز ہوںگے۔
گروعاشی بٹ کاکہنا ہے کہ فیشن انڈسٹری میںہماری برادری پہلے سے چھائی ہوئی ہے، اگر ہم کرکٹ کے میدان میں آگئے تو وہاں بھی چھکے چھڑا دیںگے۔ عورتوں کو تمثیلی طور پر صنفِ نازک کہاگیا ہے، ہیجڑے صنفِ چابک ہوتے ہیں۔گروئوں کے مطابق کراچی کے کھسرے کاسموپولیٹن جبکہ لاہور کے کھسرے میٹرو پولیٹن ہونے کے ساتھ ساتھ زندہ دل بھی ہوتے ہیں ۔ وہ خادم اعلیٰ کے ترقیاتی کاموںکو دل کھول کر سراہتے ہیں، مگر شادی بیاہ اور دیگر تقریبات پر لائوڈ سپیکرکے استعمال پر پابندی سے سخت نالاں ہیں۔ ایک کھسرے نے اپنا سیاسی اور معاشی موقف بیان کرنے کے لیے درویش منش شاعر ساغر صدیقی کے شعر میں یوں ترمیم کی:
جس دور میں لٹ جاتی ہے کھسروں کی کمائی 
اس دور کے سلطاں سے کوئی بھول ہوئی ہے 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved