یہ بات انتہائی خوش آئند ہے کہ مجید امجد صدی کا دور دورہ ہے اور اس درویش شاعر پر مسلسل کام بھی ہو رہا ہے۔ اس موضوع پر ڈاکٹر عامر سہیل کی غالباً یہ تیسری کتاب ہے‘ جس کا نام ''مجید امجد شناسی بحوالہ مجلّہ اوراق‘‘ رکھا گیا ہے۔ اسے مثال پبلشرز فیصل آباد نے بہت خوبصورت گیٹ اپ میں شائع کیا ہے اور قیمت 400 روپے رکھی ہے جو 280 صفحات پر مشتمل ہے اور جس کا انتساب نہایت واجب طور پر ڈاکٹر وزیر آغا کے نام ہے۔ 'چند باتیں‘ کے عنوان سے فاضل مرتب لکھتے ہیں:
''ادبی جرائد میں ''سویرا‘‘ وہ پہلا جریدہ ہے جس نے مجید امجد کے حوالے سے پہلا باقاعدہ گوشہ ترتیب دیا۔ 1955ء (شمارہ 17-18) میں شائع ہونے والے اس مختصر گوشے میں مظفر علی سید کا ایک تعارفی مضمون بہ عنوان ''مجید امجد کی نظمیں‘‘ اور ان کی نظموں کا انتخاب شامل تھا۔ اگرچہ یہ گوشہ بہت حد تک ناکافی تھا؛ تاہم یہ اپنے عہد کے ایک نہایت مؤقر ادبی جریدے کی طرف سے تفہیم مجید امجد کی روایت کا باقاعدہ آغاز تھا اور شاید مجید امجد پر شائع ہونے والا یہ پہلا مضمون بھی تھا‘‘۔
حصہ اول میں منظوم خراج تحسین ہے جس میں عبدالعزیز خالد اور ناصر شہزاد کی نظمیں شامل کی گئی ہیں۔ اس کے بعد یعنی حصہ دوم 'شعر مجید امجد‘ کے نام سے معنون ہے جس میں مجید امجد کی 18 نظمیں شامل کی گئی ہیں جبکہ حصہ سوم 'نثر مجید امجد‘ کا احاطہ کرتا ہے جس میں مجید امجد کے 3 مضامین شامل ہیں۔ حصۂ چہارم 'مضامین بحوالہ مجید امجد‘ ہے جس کے لکھنے والوں میں ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا‘ ڈاکٹر وزیر آغا‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ بلراج کومل‘ ڈاکٹر تبسم کاشمیری‘ ڈاکٹر انور سدید‘ ڈاکٹر سہیل احمد‘ پروفیسر نظیر صدیقی‘ علی تنہا‘ ڈاکٹر شبیر قادری‘ ڈاکٹر قاضی عابد‘ پروفیسر حامدی کاشمیری‘ محمد شہزاد انجم اور ڈاکٹر ناصر عباس نیر شامل ہیں۔
حصہ پنجم نظموں کے تجزیے بحوالہ مجید امجد ہے جس میں سجاد نقوی‘ انور سدید‘ حامدی کاشمیری اور ناصر شہزاد شامل ہیں جبکہ حصہ ششم کتب پر تبصرے بحوالہ مجید امجد ہے۔ حکمت ادیب پر کتاب ''مجید امجد ایک مطالعہ‘‘ پر ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور ''مجید امجد: بیاضِ آرزو بکف‘‘ از ڈاکٹر سید عامر سہیل پر ڈاکٹر محمد امین نے تبصرہ کیا ہے اور اس طرح مجید امجد فہمی کے حوالے سے یہ پہلی مبسوط تصنیف ہے جو اس بے مثل شاعر کو سمجھنے کی خواہش رکھنے والوں کے بے حد کام کی چیز ہے۔
''انگارے‘‘ بیادِ مجید امجد
ترقی پسند ادب کا ترجمان یہ رسالہ بھی ڈاکٹر عامر سہیل ہی ملتان سے کافی عرصہ سے شائع کر رہے تھے جو چند برسوں کے تعطل کے بعد دوبارہ جاری کیا گیا ہے۔ اس کے مضمون نگاروں میں صفدر سلیم سیال‘ ڈاکٹر نجیب جمال‘ ڈاکٹر طاہر مسعود‘ ڈاکٹر مختار ظفر‘ ڈاکٹر عبدالکریم خالد‘ طارق حبیب‘ ڈاکٹر عاصمہ اصغر‘ عابدہ نسیم‘ حسن رضا اعوان‘ افتخار عارف اور محمد دائود راحت شامل ہیں۔ جبکہ تجزیہ نگاری میں ڈاکٹر محمد امین‘ ڈاکٹر طارق ہاشمی‘ منزہ احتشام گوندل اور مسرت بانو شامل ہیں جبکہ آخری حصہ مجید امجد کے نام جن حضرات کے مکاتیب شامل کیے گئے ہیں‘ اُن میں الیاس کبیر‘ تخت سنگھ (5خط)‘ صفدر سلیم سیال (3خط)‘ جعفر طاہر (ایک خط)‘ شیر افضل جعفری (ایک خط)‘ تقی الدین انجم (ایک خط)‘ یحییٰ امجد (ایک خط)‘ یوسف کامران (ایک خط) اور عباس اطہر (2 خط) شامل ہیں۔
فاضل مدیر آغاز میں لکھتے ہیں کہ حد سے بڑھتی ہوئی تنگ نظری‘ تعصب‘ نفرت اور انتہا پسندی کے دور میں ''انگارے‘‘ ایک بار پھر ترقی پسند‘ روشن خیال اور خرد افروز رویوں کو آگے لے کر بڑھے گا۔ آج علم و ادب کے میدان میں جو نظری ابہام اور فکری بحران پیدا کیا جا رہا ہے اور جدید فکری نظریات کی جس طرح من چاہی تعبیر کی جا رہی ہے نیز فکری آزادی کے نام پر جس طرح دیگر افکار کو ردی کی ٹوکری میں ڈالنے کی کوشش کی جا رہی ہے‘ اس حوالے سے بحث و مکالمہ کو جاری کرنے کی کوشش کی جائے گی۔ اختلاف رائے کو احترام اور جگہ دیتے ہوئے ''انگارے‘‘ کا دورِ ثانی بھی اپنے اسی مؤقف کا اعادہ کرتا ہے جو ''انگارے‘‘ کی اولین اشاعت جنوری 2003ء میں اختیار کیا گیا تھا۔ یہ بیکن بکس ملتان نے شائع کیا ہے جس کی قیمت 60روپے ہے۔
آج کا مطع
یہاں کسی کو بھی کچھ حسب آرزو نہ ملا
کسی کو ہم نہ ملے اور ہم کو تُو نہ ملا