تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     21-04-2015

معصوم بچے

غلطیوں سے نہیں ، آدمی اپنی غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں۔
''م: سر! خان صاحب اور سراج الحق کے درمیان معاملہ کرانے کے لیے آپ کو اپنا کردار ادا کرنا چاہیے۔ آپ کا زیادہ تر وقت سب پہ تنقید کرتے ہوئے گزرتا ہے۔ معلوم نہیں کیوں؟
ح: گھر بیٹھے دوسروں پہ تنقید کرنا کتنا آسان کام ہے۔ اس کام پر جو آپ نے مجھے بتایا ہے، میں نے بہت سا وقت صرف کیا۔ جماعت اسلامی اپنا امیدوار بٹھانے پر آمادہ تھی لیکن پہلے خان صاحب ، پھر ان کے سیکرٹری جنرل کے پاس وقت نہ تھا۔ سیاست، آپ اور خان صاحب ایسے بچوں کا کام نہیں۔
م : سر! یہ اب بھی ممکن ہے۔ براہ کرم سراج صاحب کو ساتھ لے کر خان صاحب کے گھر بنی گالہ جائیں۔ امید ہے آپ کے لیے اور سراج صاحب کے لیے انا کا مسئلہ نہیں ہوگا۔ جناب ! یہ پاکستان کی خدمت ہوگی۔ براہ کرم غصہ تھوک دیجیے!
ح: اب اس کا وقت گزر چکا۔ جیسا کہ عرض کیا، سیاست آپ ایسے بچوں کا کام ہے اور نہ عمران خان کا۔
م : جناب ! کیا آپ کی رائے میں سیاست نوازشریف، زرداری، الطاف حسین اور فضل الرحمن ایسے کرپٹ لوگوں کا کام ہے؟ عمران خان اکیلے کی ساکھ ان سب ...سے زیادہ ہے۔ آپ کو غصہ ہے کہ عمران خان نے ٹائم نہیں دیا۔ پاکستان کی کسی کو پروا نہیں۔ آپ اپنے مداحوں کو مایوس کرتے ہیں۔ ان لوگوں کو جو آپ کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔
ح: اگر انا کا مسئلہ ہوتا تو میں اپنی زندگی کے اٹھارہ سال انہیں کیوں دیتا؟ ان ناشکرگزار لوگوں کو۔
م : پھر تو مسئلہ ہی نہیں۔ براہ کرم دونوں لیڈروں سے بات کیجیے۔ انہیں بتائیے کہ یہ قومی مفاد کا معاملہ ہے۔ این اے 246میں جماعت اسلامی کو تحریک انصاف کے امیدوار کی پوزیشن بہتر بنانے کے لیے کام کرنا چاہیے۔ ہم جانتے ہیں کہ آپ یہ کرسکتے ہیں۔ اس بارے میں ہمیں رتی برابر شبہ نہیں۔ ایک اور بات۔ آپ کو اندازہ ہی نہیں کہ اٹھارہ سال تک پی ٹی آئی کی حمایت کرکے آپ نے کتنی عزت کمائی ہے۔ یہ ساری کاوش ملک کو بہتر بنانے کے لیے تھی۔ ہم سب اس ملک کو بدعنوان اشرافیہ کے پنجوں سے چھڑانے کے آرزو مند ہیں۔ براہ کرم پتوار نہ ڈالیے۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ آپ کی کوشش رائگاں نہ رہے گی۔
ح: آپ سمجھ نہیں سکتے۔ یہ معاملہ اب ختم ہوچکا۔ زندگی حکمت پہ بسر ہوتی ہے، جنون سے نہیں۔ قرآن کریم میں یہی لکھا ہے اور رحمۃللعالمین ؐنے یہی سکھایا تھا۔ ظفر مندی کا انحصار خلوص اور دانش پہ ہوتا ہے۔ ناکامی، خود غرضی کی پیداوار ہوتی ہے یا کم عقلی کی۔
م : میں ایک رجائیت پسند ہوں۔ آپ نے ہمیں پاکستان کے درخشاں مستقبل کی نوید دی تھی اور اب یہ بھی آپ ہی ہیں جو مایوسی پھیلا رہے ہیں۔ لگتا ہے، نوازشریف نے آپ پر کوئی جادو کردیا ہے۔ جب تک عمران خان وزیراعظم نہیں بن جاتے اس طرح کی تنقید ، ان کی ٹانگیں کھینچنے کے مترادف ہے۔ وزیراعظم بن کر اگر پرفارم نہ کرے تو سوجوتے ماریں۔ میں آپ کے ساتھ ہوں گا۔ میں کوئی فلسفی نہیں۔ میرا خیال یہ نہیں کہ آپ اتنی سادہ سی بات نہ سمجھ سکیں۔
ح: نہایت مسرت کے ساتھ میں آپ کو مطلع کرتا ہوں کہ آپ کو سزا کا سامنا ہوگا اور نہ توہین کا۔ مجھ ناچیز کی رائے میں عمران خان کے وزیراعظم بننے کا اب کوئی امکان نہیں۔ جی ہاں ! (مالی طورپر) وہ دیانت دار ہے۔ ایک ایماندار مگر نالائق ڈرائیور۔ وہ مشہور افسانہ نگار سعادت حسن منٹو کی مانند ہے، جو قائداعظم کے ڈرائیور بن گئے تھے، مگر فوراً ہی نکال دیے گئے۔ محمد علی جناح بد دیانتی کے علاوہ نالائقی بھی گوارا نہ کرتے تھے۔
م : یہ دریافت کرنے میں آپ کو اٹھارہ برس لگے کہ وہ نالائق ہے اور وزیراعظم نہیں بن سکتا۔ عرصے تک آپ اس کا مقدمہ لڑتے رہے اور اب بالکل برعکس بات کررہے ہیں۔ وہ دیانت دار ہے اور وزیراعظم کے لیے یہ بات کافی ہے۔ ایسا ہی شخص ملک کو پٹڑی پر چڑھا سکتا ہے، اگر وہ ایساکرنا چاہے۔ خان صاحب یہ معرکہ سرانجام دے سکتے ہیں۔ ہم عوام اس پر مکمل یقین رکھتے ہیں۔ کیا وہ نالائق تھا کہ کرکٹ میں ایسا عظیم کارنامہ انجام دیا۔ شوکت خانم ہسپتال اور نمل یونیورسٹی بنائی۔ جب نوازشریف ایسا ... تین بار وزیراعظم بن سکتا ہے تو عمران خان کیوں نہیں ؟ عمران خان کے کریڈٹ میں اتنا بہت کچھ ہے۔ بی اے بھی چنے دے کر مشکلوں سے پاس کیا ہو جس نے۔ دو لفظ بول نہ سکتا ہو۔ واحد خوبی لوٹ مار اور دھاندلی ہے۔ کیا آپ کو خان صاحب سے اس کی آرزو ہے؟ عمران خان کی ٹیم اچھی نہیں۔ قائداعظم کے پاس بھی کھوٹے سکے تھے۔ اس کے باوجود انہوں نے پاکستان حاصل کرلیا۔
ح : نوازشریف کی مثال ایسی ہے، جیسے کوئی بدعنوان ڈرائیور ہو۔ ڈرائیور وہ ٹھیک ٹھاک ہو ، نکتہ بالکل واضح ہے مگر آپ نہ سمجھنے کے لیے پُرعزم ہیں۔ الٹا آپ میری نیت پہ شبہ کرتے ہیں۔ اسی کا نام'' جنون‘‘ ہے۔
م : بالکل نہیں ، جناب، آپ پر کوئی شبہ نہیں۔ آپ کی دیانت و امانت پر مکمل اعتماد ہے۔ صرف ایک التماس ہے ، پتوار نہ ڈالیے۔ ہم منزل کے بالکل قریب ہیں۔ اگر وہ ڈرائیونگ نہیں جانتا تو براہ کرم اسے سکھا دیجیے۔ وہ آپ کی بات سمجھ لے گا۔ خان صاحب سے میرا کوئی رابطہ نہیں۔ورنہ ان سے میں التماس کرتا کہ وہ آپ سے ملیں اور آپ کی بات سنیں۔ اگر آپ بھی ہمت ہار جائیں گے تو ہم عوام کا کیا بنے گا؟
ح: میرا ان سے رابطہ رہا اور میں نے اس کی قیمت ادا کی۔ اب بھی وہ ایک دوست ہیں۔ میرا مسئلہ یہ ہے کہ میں پی ٹی آئی سے وابستہ 70لاکھ ووٹروں میں سے ہر ایک کا مشیر نہیں بن سکتا ۔ عملاً یہ ناممکن ہے۔ سرکارؐ کا ارشاد ہے : مشورہ ایک امانت ہے۔
م : آپ کو پی ٹی آئی کے سب ووٹروں کا مشیر بننے کی ضرورت نہیں۔ اس حق سے تومگر ہمیں محروم نہ کیجیے کہ ہم اپنی رائے دیں، ٹھیک ہو یا غلط۔ ہماری معلومات کا ذریعہ آپ ایسے لوگ ہیں۔ براہ کرم امید کی مشعل کوفروزاں رکھیے‘‘۔
غلطیوں سے نہیں ، آدمی اپنی غلطیوں پر اصرار سے تباہ ہوتے ہیں۔
(موبائل فون پر ملنے والے پیغامات اور ان کے جوابات، جو من وعن نقل کردیے گئے)۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved