تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     22-04-2015

ہم انتظار کر لیں گے

چین کی طرف سے سرمایہ کاری کے بہت بڑے بڑے منصوبے آ گئے۔ چینیوں کی دلچسپی اس میں ہے کہ یہ پایہ تکمیل کو پہنچ جائیںاور پاکستانی عوام‘ ان سے استفادہ کرتے ہوئے غربت‘ بیروزگاری‘ جہالت اور بے مقصدیت سے نکل کر ترقی و خوشحالی کے راستے پر گامزن ہو جائیں۔ لیکن ہمارے حکمران طبقوں کو یہ سب کچھ اچھا نہیں لگتا۔ دنیا میں کسی بھی طرف سے سرمایہ کاری‘ قرضے یا امداد ملے‘ حکمران کلب کی کوشش ہوتی ہے کہ اسے نقدی کی صورت میں جلد ازجلد بیرون ملک منتقل کر دیا جائے۔ پیسہ پاکستان میں رہ گیا تو عوام کے کام آئے گا۔ اس مرتبہ پیسہ بہت ہے۔ چینیوں نے زرمبادلہ بڑی محنت‘ جانفشانی‘ صبر اور قربانیوں کے بعد حاصل کیا ہے۔ وہ یقینا چاہیں گے کہ یہ پیسہ پاکستانی عوام کے کام آئے۔ ہمارے حکمرانوں کی کوشش ہو گی کہ اسے پاکستان میں ''ضائع‘‘ کرنے کی بجائے‘ بیرون ملک ‘بنکوں میں اپنے کھاتوں کے سپرد کر دیا جائے۔ دیکھنا یہ ہے کہ چینی‘ اپنی رقوم صحیح طریقے سے‘ صحیح جگہ اور صحیح لوگوں تک پہنچانے میں کامیاب رہتے ہیںیا ہمارے حکمران اپنے بیرونی کھاتوں میں پہنچا کر محفوظ کرتے ہیں؟ جلد ہی اس کشمکش کا آغاز ہو جائے گا۔ جہاں تک میں نے میری ٹائم سلک روڈ کے منصوبوں کا جائزہ لیا ہے‘ یہ سمجھ پایا ہوں کہ چینی ان منصوبوں کو‘ کاغذ سے لے کر‘ زمین تک براہ راست اپنی نگرانی میں پایہ تکمیل تک پہنچائیں گے۔ یعنی خود ہی براہ راست ٹھیکے دیں گے۔ خود ہی تعمیراتی کاموں کی نگرانی کریں گے۔ خود ہی مکمل ہونے والے کاموں کے معیار کو پرکھیں گے۔ خود ہی رقوم کی ادائی کریں گے اور مکمل ہونے والے تمام کارخانے‘ سڑکیں‘ پاور ہائوسز وغیرہ ایسے اداروں کی تحویل میں دیں گے‘ جن میں چینیوں کی موثر نمائندگی ہو اور وہ انتظامی امور کڑی نگرانی میں انجام دیں۔ اگر یہ کوشش کی گئی‘ تو ایک بہت بڑی کشمکش دیکھنے میں آئے گی۔ ہم اہل پاکستان تو اس کشمکش کو چھ عشروں سے دیکھ رہے ہیں‘ لیکن چینیوں کواتنے بڑے پیمانے پر پہلی بار تجربہ ہو گا۔
ہمارے حکمران‘ بیوروکریٹس‘ سرکاری ادارے چلانے والے اور ٹیکنوکریٹس ابھی تک چینیوں کے سامنے بچھے جا رہے ہوں گے اور جتنے ڈالر زیادہ ہیں‘ اتنے ہی زیادہ بچھیں گے‘ مگر ان کا یہ روپ اسی وقت تک باقی رہے گا‘ جب تک انہیں ڈالروں پر ہاتھ مارنے کی امید رہے گی۔ جیسے ہی انہیں اندازہ ہوا کہ چینیوں نے مال اپنی مٹھی میں رکھ کر‘ خود خرچ کرنے کا فیصلہ کیا ہے‘ تو پھر ان سب کے جلوے دیکھنے والے ہوں گے۔ چینی اپنا سرمایہ پاکستانی بنکوں میں کیسے لاتے ہیں؟ ایسا کرنے کے لئے کون کونسے ضابطوں کی پابندی کرنا ہوتی ہے؟ چیک کیش کرانے کے لئے کن کن پابندیوں سے گزرنا پڑتا ہے؟ ویزے کے مسائل کیا ہوتے ہیں؟ چینیوں کو آمدورفت کے لئے کہاں کہاں سے اجازت لینا ہوگی؟ غرض پاکستانی قوانین اور پابندیوں کا ایک ایسا گورکھ دھندہ سامنے آئے گا ‘ جس کی ایک الجھن دور کریں گے‘ تو دس الجھنیں سامنے آ جائیں گی۔ چینی اپنا ہی پیسہ پاکستان میں لا کر نہ تو بنکوں سے نکال پائیں گے اور نہ کسی منصوبے کی ابتدا کر سکیں گے۔ بہت جلد مایوس اور ناامید ہو کر‘ انہیں بوریا بستر لپیٹ کے واپس جانا پڑے گا۔ میں چینیوں کے عزم و ہمت کو جانتا ہوں۔ وہ جب کوئی کام کرنے پہ آتے ہیں‘ تو آخری حد تک کوشش کرتے ہیں۔ لیکن میں اپنے ارباب اقتدار کو بھی جانتا ہوں کہ وہ جب کسی کام کو بگاڑنے پر آتے ہیں‘ تو پھر دنیا کی کوئی طاقت انہیں ناکام نہیں کر سکتی۔ چینی پہلی مرتبہ پاکستانی عوام کی مدد کرنے کے لئے نہیں آ رہے۔ ایسے ان گنت ادارے موجود ہیں‘ جو پاکستان میں تعمیروترقی کے منصوبے لے کر آئے اور پورے کئے بغیر ہی نامراد چلے گئے اور ایسے بھی بہت سے آئے‘ جو بھاری سرمایہ لے کر نیک ارادوں کے ساتھ یہاں آئے اور سرمایہ ‘ حکومت پر قابض مافیائوں کی بھینٹ چڑھا کر واپس چلے گئے۔
یہ درست ہے کہ امریکیوں کی نیت ٹھیک نہیں ہوتی۔ لیکن وہ بھی اتنے گھامڑ نہیں کہ اپنا سارے کا سارا پیسہ‘ کرپشن کی نذر کر کے چلے جائیں۔ یہ کام انہوں نے برسوں کیا ہے۔ پاکستان میں عوامی بہبود کے کاموں پر خرچ کرنے کے لئے‘ انہوں نے حکومتوں کو بھاری رقوم دیں۔ منصوبوں پر عملدرآمد کرنے والے اداروں اور محکموں کو چلانے والوں کے پیٹ الگ سے بھرے۔ اس کے باوجود پیسہ جن کاموں کے لئے دیا گیا‘ وہ کام نہیں ہو سکے۔ امریکی جو پیسہ کھلانے کے لئے لائے‘ وہ بھی کھایا گیا‘ جو لگانے کے لئے لائے‘ وہ بھی کھایا گیا۔ اس صورتحال سے تنگ آ کر انہوں نے سوچا کہ حکومت سے آنکھ بچا کر‘ اپنا پیسہ عام لوگوں تک پہنچایا جائے۔ اس کے لئے این جی اوز کی ترکیب نکالی گئی۔ سرکاری لوگوں کے بجائے‘ غیرسرکاری لوگوں کے وارے نیارے ہو گئے۔ جس نے کسی بنک‘ کوآپریٹو کمپنی یا فراڈیوں کے ساتھ کام کیا تھا‘ وہ این جی او بنا کر قطار میں لگ گیا اور گرانٹس کی رقوم پھر وہیں پہنچنے لگیں‘ جہاں پاکستان میں پہنچا کرتی ہیں۔ آخرکار تنگ آ کر امریکیوں نے پاکستان کے امدادی پروگرام میں‘ ویلفیئر کا علیحدہ سیکشن رکھ دیا کہ یہ رقم عوامی سہولتوں کے لئے صرف ہو گی۔ دنیا تو اس پر یقینا حیران ہو گی‘ مگر اہل وطن کو حیران ہونے کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم ان کاموں کے عادی ہیں۔ ہوا یوں کہ ہماری اتھارٹیز نے‘ امریکیوں سے باضابطہ احتجاج کیا کہ آپ ہوتے کون ہیں؟ ہمارے عوام کی فلاح و بہبود کے لئے رقمیں مخصوص کرنے والے؟ رقم ہمارے حوالے کریں اور پلٹ کے یہ مت پوچھیں کہ خرچ کہاں کی؟ خود چین کا تجربہ میں دو دن پہلے لکھ چکا ہوں کہ چینیوں نے کس طرح پاکستان کو 30کروڑ ڈالر کا بلاسود قرضہ دینے کی پیش کش کی؟ اس زمانے میں چین سپیڈ منی دینے سے گریز کرتا تھا۔ ہمیں قرضہ دینے کے لئے ان کے 30 کروڑ ڈالر پڑے پڑے سڑ گئے‘ مگر پاکستان کے حکمرانوں اور بیوروکریٹس نے انہیں ہاتھ تک نہیں لگایا۔ خیر اب چینیوں سے یہ امید کی جا سکتی ہے کہ وہ تھوڑا بہت ''کمپرومائز‘‘ کر لیں گے‘ مگر چینیوں نے یہ ہنر بڑی دیر کے بعد سیکھا ہے۔ اب وہ لیٹ ہو گئے ہیں۔ اب ہمارے حکمران اور بیوروکریٹس حصہ پتی نہیں لیتے‘ ساری دیگیں لے جانا پسند کرتے ہیں اور یہ دیگیں اٹھا کر پاکستان کے اندر نہیں رکھتے‘ گرم گرم دیگوں کو بیرون ملک منتقل کر دیتے ہیں۔ ہو سکتا ہے‘ معاہدوں پر دستخط کرتے ہی ارباب اقتدار میں سے ‘کچھ لوگ بیرون ملک رابطے بھی کر چکے ہوں کہ چین سے مال آنے والا ہے۔ ٹرمز اور کنڈیشنز بتائیں‘ جن کے تحت آپ ہمارے ڈیپازٹ رکھیں گے اور ساتھ ہی یہ بتائیں کہ رازداری کی گارنٹی کیا ہو گی؟یہ بھی ہو سکتا ہے کہ پاکستانی کالے پیسے کا کاروبار کرنے والوں کے نمائندے ابھی سے پاکستان کا رخ کر چکے ہوں اور پس پردہ ڈیلز شروع کی جا چکی ہوں۔ دبئی میں بیٹھے سوداگر یقینا سرگرم ہو چکے ہوں گے۔ آخر 45ارب ڈالرآنا ہے۔
ہو سکتا ہے بعض شرفاء کو میرے شکوک و شبہات اچھے نہ لگیں۔ لیکن انہیں یاد ہو گا کہ ہم سعودی حکمرانوں سے دفاع کے نام پر‘ اربوں ڈالر بٹورتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم تحفظ حرمین شریفین پر اپنی جانیں نثار کرنا جانتے ہیں۔ ان دنوں بھی جانیں نثار کرنے کے کاروبار گرم ہیں۔ وہ مردمومن جو پٹاخے کی آواز سن کر کچن میں چھپ جاتا ہے‘ وہ بھی بڑھ چڑھ کر بیان دے رہا ہے کہ ہم حرمین شریفین کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیں گے اور اس امید میں بیٹھ جاتا ہے کہ کب سعودی عرب کا کوئی نمائندہ اس سے رابطہ کر کے‘ ڈالروں کا پیکٹ پہنچائے؟ اور وہ ثواب دارین حاصل کرے۔مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آ سکی کہ و ہ بندگان خدا‘ جو خیالی دہشت گردوں سے بچنے کے لئے صوبائی اور وفاقی حکومتوں سے سکیورٹی مانگتے ہیں‘ وہ خانہ خدا کی حفاظت کیا کریں گے؟ اور بنیادی بات یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ تو خود اپنی مخلوق کی حفاظت کرتا ہے۔ وہ قادرِ مطلق ہے۔ اس کے گھر کو خطرہ کہاں سے ہو سکتا ہے؟ یہ بات نام نہاد محافظین بھی جانتے ہیں۔ انہیں پتہ ہے کہ خدا اپنے گھر کی حفاظت کرنے پر قادر ہے۔مگر سب بڑھ بڑھ کراپنی جانیں نثار کرنے کے نعرے لگا رہے ہیں۔ ان کی سوچ یہ ہے کہ سعودی عرب کو تو امریکیوں کاتحفظ حاصل ہے۔ ہم پیٹروڈالر ز پر ہاتھ مار لیں تو کیا ہرج ہے؟ چینیوں کی مخلصانہ کوششیں انشاء اللہ بارآور ہوں گی۔ اللہ تعالیٰ سے امید ہے کہ دوچار سال میں پاکستان کی حکومت اچھے اور ذمہ دار لوگوں کے پاس چلی جائے گی اور مجھے یقین ہے کہ 45ارب ڈالر‘ دوسال میں ختم ہونے والے نہیں ہیں۔ ہم انتظار کر لیں گے۔امید ہے چینی بھی کر لیں گے۔پاکستانی عوام کی قسمت اتنی بھی خراب نہیں کہ اچھے دن ہی نہ آئیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved