جھیل ولرکے مغربی سرے پر واقع وادیٔ کشمیر کے سوپور ْقصبہ سے دریائے جہلم نئی آب وتاب کے ساتھ ولر سے نئی توانائی لے کر اپنا سفرایک بار پھر شروع کرتا ہے۔پرانے شہر میں برلب دریا میر سید علی ہمدانی کی خانقاہ کے متصل میرے محلہ کے اطراف میں دو پنڈت بستیاں تھیں۔ویسے بھارتی شہروں اور دیہات کی طرح کشمیر میں ہندوئوں اور مسلمانوں کی کوئی علیحدہ بستیاں نہیں ہوتی تھیں۔ لکیروں کے بغیر ہی یہاںدونوں فرقے مل جل کر رہتے تھے۔ہمارے محلہ کے مشرقی سرے پر جامع قدیم میں آسودہ حال پنڈت برادری کی آبادی تھی۔ ان میںاکثر اعلیٰ سرکاری ملازم تھے، جو سردیوں میں جموں منتقل ہوجاتے تھے۔ مگر مغربی سرے پر صوفی حمام محلہ میں جو پنڈت رہتے تھے، وہ ہمسایہ مسلمانوں کی طرح ہی پسماندہ، سکول ڈراپ آئوٹ، معمولی ملازم تھے۔ کشمیر میں عسکری تحریک کے آغاز کے ساتھ ہی طوائف الملوکی پھیلی تو خوف کی فضا طاری ہوگئی۔ عسکریت پسندی پر کسی کا کنٹرول نہ ہونے کے باعث، آوارہ ، اوباش اور غنڈہ عناصر نے بھی اس میں پناہ لی۔ کئی افراد توبغیر کسی مقصد، محض ہیرو بننے کی غرض سے یا کسی سے بدلہ چکانے کی نیت سے بھی عسکریت پسندوں میںشامل ہوگئے۔ جموں و کشمیر لبرل فرنٹ (جے کے ایل ایف) اور حزب المجاہدین کو چھوڑ کرایک وقت تو وادی میں ایک سو سے زائد عسکری تنظیمیں تھیں۔
اس طوائف الملوکی کو مزید ہوا دینے میں بھارتی ایجنسیوں نے بھی بھر پور کردار ادا کیا۔ 1989ء میں گورنر بننے کے فوراً بعد جگ موہن نے پوری سیاسی قیادت کو ، جو حالات کنٹرول کر سکتی تھی، گرفتار کرکے بھارت کے دور دراز علاقوں کی جیلوں میں بند کردیا۔بھارت نواز سیاسی قیادت تو پہلے ہی فرار ہوکر جموںاور دہلی منتقل ہوچکی تھی۔ وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ بھی اپنے خاندان کے ساتھ لندن منتقل ہوگئے تھے۔اس انارکی کا خمیازہ کشمیری پنڈتوں کو ہی نہیں بلکہ مقامی اکثریتی آبادی مسلمانوں کو بھی بھگتنا پڑا۔سرکاری اعداد و شمار کے مطابق25سالوں میں 250 پنڈت قتل ہوئے، جس کی وجہ سے ڈھائی لاکھ کی آبادی نقل مکانی پر مجبور ہوگئی۔مگر اسی دوران کشمیر میں اندازاً ایک لاکھ مسلمان بھی مارے گئے۔ جموں خطہ کے دور دراز علاقوں میں 1500 کے قریب غیر پنڈت ہندو ، جو زیادہ تر دلت، اور راجپوت تھے، قتل عام کی وارداتوں میں ہلاک ہوئے، مگر ان خطوں میں آبادی کا انخلا ء نہیں ہوا۔ گورنر جگ موہن، پنڈتوں کے انخلاء میں براہ راست ملوث ہو یا نہ ہو، مگر اس نے حالات ہی ایسے پیدا کئے کہ ہر حساس شخص محفوظ پناہ گاہ ڈھونڈنے پر مجبور تھا۔ اگر معاملہ صرف پنڈتوں کی سکیورٹی کا ہوتا، توسوپور اور بارہ مولا کے پنڈت خاندانوں کو پاس ہی بھارتی فوج کے 19ویں ڈویژن کے ہیڈکوارٹر منتقل کیا جا سکتا تھا۔ایک تو اپنے گھروں کے ساتھ ان کا رابطہ بھی رہتا اور حالات ٹھیک ہوتے ہی واپس بھی آجاتے۔
جگ موہن کے آتے ہی افواہوں کا بازار گرم تھا، کہ آبادیوں پر بمباری ہونے والی ہے۔ کوئی ان افواہوں کی تردید کرنے والا نہیں تھا۔ سردیوں کے آتے ہی دارالحکومت سری نگر سے جموں منتقل ہو جاتا ہے؛ چنانچہ اس بار سردیوں میں جونہی دارالحکومت جموں منتقل ہوا‘ میرے محلے کے اطراف کے آسودہ حال ہندو بھی معمول کے مطابق جموں چلے گئے۔ مگر صوفی حمام کے ہندو وہیں مقیم رہے۔ ایک د ن بھارت کی نیم فوجی تنظیم انڈیا تبت بارڈر پولیس (آئی ٹی بی پی)کے ایک کمانڈنٹ مقامی پولیس افسران کے ساتھ محلے میں وارد ہوئے، اور پنڈتوں کی سکیورٹی کا جائزہ لیا۔ مگرپنڈتوں نے کمانڈنٹ سے کہا کہ ان کی سکیورٹی کی فکر کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ، ان کے پڑوسی (مسلمان) ہی ان کی سکیورٹی ہیں۔ محلے کے مقتدر افراد نے بھی افسر کو یقین دلایا کہ اقلیتی افراد کی حفاظت کرنا ان کافرض ہے اور وہ یہ فرض نبھائیں گے۔مگر دو دن بعد ہی آدھی رات کے لگ بھگ لائوڈ سپیکروں سے کرفیو کا اعلان ہو گیا، سڑک پر فوجی بوٹوں کی ٹاپوں اور ٹرکوں کی آوازیں آرہی تھیں۔ پنڈت مکانوں سے بھی آہ و زاری کا شور برپا تھا۔ گھپ اندھیر میں پتہ نہیں چل رہا تھا کہ کیا ہورہا ہے، لگ یہی رہا تھا کہ شاید فوجی آپریشن شروع ہو گیا ہے؛ اسی اثنا میں گلی میں کوئی سایہ نمودار ہو کر ہمارے دروازے پر دستک دینے لگا۔ میرے والد نے دروازہ کھولا تو سامنے ان کے دیرینہ بے تکلف پنڈت دوست اور آفس کے ساتھی امر ناتھ بٹ تھے‘ وہ کہہ رہے تھے کہ نیم فوجی تنظیم کا افسر پورے لائو لشکر اور ٹرکوں کے ساتھ وارد ہو ا ہے، اور سبھی پنڈت برادری کو جموں لے جارہا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ اگلے چند روز کے اند ر کوئی آپریشن ہونے والا ہے۔ہوسکتا ہے کہ ہوائی بمباری بھی ہو۔ امر ناتھ بضد تھا، کہ ہم بھی اس کے ساتھ منتقل ہوجائیں۔ اس کا کہنا تھا کہ اس نے اس سلسلے میں افسر سے بات کی ہے۔ مگر جب میرے والد نے انکار کیا، تو امر ناتھ نے میرا ہاتھ پکڑ کر میرے والد سے فریاد کی کہ ''اگر تمہیں مرنا ہی ہے، تو کم از کم اپنے بیٹے کو ہمارے ساتھ روانہ کردو‘ اسے تو زندہ رہنے دو۔‘‘ مگرمیرے والد کے مسلسل انکار کے بعد امر ناتھ روتے ہوئے تاریکی میں گم ہوگیا۔ اگلے دن صبح یہ عقدہ کھلا ، کہ پوری پنڈت برادری کو ٹرکوں میں ساز و سامان کے ساتھ زبردستی بٹھا کر جموں کے پناہ گزیں کیمپوں میں منتقل کیا گیا ہے۔ جہاں وہ ابھی تک مقیم ہیں۔امر ناتھ کا اب شاید انتقال ہوچکا ہے‘ مگر میرے والد جب تک حیات تھے‘ دہلی میں میرے پاس آتے ہوئے راستے میں جموں میں ٹھہر کر امر ناتھ کے پاس ضرور رکتے تھے۔
90ء کے اوائل میں انارکی کے حالات اور بندوق کے غلط ہاتھوں میں جانے اور سیاسی قیادت کی عدم موجودگی کی وجہ سے کئی بے گناہوں کی جانیں چلی گئیں‘ مرنے والوں میں پنڈت بھی شامل تھے۔ مگر جہاں اب کشمیر ی پنڈتوں کی گھر واپسی کے موضوع پر سرکار سے لے کر بھارتی میڈیا کے ایک بااثر حلقے تک‘ اکثریتی طبقہ کے جذبات ومحسوسات کو جان بوجھ کرمنفی انداز میں پیش کر رہے ہیں‘ وہیں یہ بھی حقیقت ہے کہ پنڈتوں کو مارنے والے وہ بندوق بردار جب تائب ہوئے تو انہیں بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں نے سر آنکھوں پر بٹھایا۔ حیرت کی بات یہ ہے کشمیری پنڈتوں کی چند تنظیمیں بھارتی حکومت کی شہ پر کھلے عام اب ہوم لینڈ کا مطالبہ کر رہی ہیں‘ جس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ ہندو قوم پرستوں نے کشمیری پنڈتوں کو یہودی طرز پر یہاں الگ بسا کر کشمیر کو دوسرا فلسطین بنانے کا پکا ارادہ کر لیا ہے۔ اب دو ٹوک لفظوں میں کہا جا رہا ہے کہ ہوم لینڈ کے لئے عدلیہ، انتظامیہ اور پولیس کے علاوہ سب کچھ علیحدہ ہوگا۔ انوپم کھیر جیسے فلم اسٹار بھی کہتے ہیں کہ 3فیصد آبادی 97فیصد آبادی کے ساتھ نہیں رہ سکتی، اس لئے پنڈتوں کے لئے الگ سے ''سمارٹ سٹی‘‘ بنا یا جائے۔ تاریخ گواہ ہے کہ نہ صرف سکھوں یا ڈوگرہ حکومت میں بلکہ مغل
اور افغان دورِ حکومت میں بھی کشمیری پنڈت اپنی تعلیمی قابلیت اور عصری تقاضے سمجھنے کے سبب باعزت اوربا اختیار ہونے کا درجہ رکھتے تھے، لیکن جب مسلمانوں کو تعلیمی اور سیاسی میدانوں میں اپنی صلاحیتیں منوانے کا موقع ہاتھ آیا تو یہ اقلیتی طبقہ احساس کمتری کا شکار ہونے لگا۔ یہ نفسیات اب بھی بعض انتہا پسند پنڈتوںکو اس بھرم میں مبتلا کر چکی ہے کہ وہ نئی دلی کی آشیرواد سے کشمیری مسلمانوں کو ایک مرتبہ پھر اپنے غلاموں اور ماتحتوں کے طور پر گزر بسر کرنے پر مجبور کردیں گے۔ اس مسئلے کو لے کرارباب سیاست ایک ایسا گھنائونا کھیل‘ کھیل رہے ہیں جو نہ ہی پنڈت برادری کے حق میں ہے اور نہ ہی کشمیر کی اکثریت مطلق کیلئے بہتر‘ جس نے اقلیت کو کبھی اقلیت نہیں سمجھا بلکہ اْنہیں ہمیشہ ہی اپنے بیچوں بیچ رکھتے ہوئے اپنے عزیزوں اور پیاروں کی مانند اپنی محبتوں سے نوازا ہے۔ مگر کشمیری قوم کی بد قسمتی یہ رہی کہ جب بھی کوئی تاریخی موڑ آیا‘ یہاں کی اقلیت اکثریت کے ہم قدم نہیں تھی، نہ صرف ہم قدم اور ہم خیال نہیں تھی بلکہ بار بار ایک ایسا راستہ اختیار کیا گیا جو اکثریتی شاہراہ سے قدرے دور رہا۔پنڈتوں کو اپنا دامن بھی دیکھ لینا چاہیے کہ آخر دونوں فرقوں کے بیچ نفسیاتی خلیج کو کس نے جنم دیا۔اقلیت کی سلامتی اور ان کا تحفظ اکثریتی فرقہ کی اہم ذمہ داری ہوتی ہے۔ مگر کشمیر میں اکثریتی طبقہ تو اپنے جان و مال پر بھی قدرت نہیں رکھتا۔ فوجی گرفت کے بیچوں بیچ اُدھار زندگی گزارنے والا کیسے کسی اور کی زندگی کی ضمانت دے سکتا ہے۔ اگر بھارت ، پاکستان اور کشمیری قیادت ، مسئلہ کے حتمی حل کے سلسلے میں متفق ہو جائیں اور خطے سے فوجی بوٹوں کے پرنٹ کم کئے جائیں تو صرف اسی صورت میں مفاہمت کے دروازے کھل سکتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو یقینا دونوں فرقے ماضی کی طرح ایک بار پھر گلے مل کر ساتھ رہنے لگیں گے!