پاکستان ہیومن رائٹس کمیشن والوں نے ایک رپورٹ میں سول معاملات میں اسٹیبلشمنٹ کی روزافزوں دخل اندازی اور کئی شعبوں میں اس کی واضح بالادستی پر تشویش کا اظہار کیا ہے اور جومیرے خیال میں بالکل بجا ہے؛ تاہم زمینی حقائق کا بہ نظرِ عمیق جائزہ لیا جائے تو اس عمل سے بہت سی قباحتیں پیدا ہونے کے باوجود اس کا پورا پورا جواز موجود ہے۔ مثلاً یہ کہ انسانی حقوق کی پاسداری کے لیے آئین اور قانون کی حکمرانی اور پاسداری لازم و ملزوم ہیں‘ لیکن کوئی سینے پر ہاتھ رکھ کر یہ کہہ سکتا ہے کہ حکومتی سطح پر اس کا ذرہ بھر بھی لحاظ رکھا جا رہا ہے؟ بلدیاتی انتخابات سمیت لاتعداد ایسے موضوعات و مسائل ہیں جن کے حوالے سے سپریم کورٹ کے احکامات کی صریح خلاف ورزی کی جا رہی ہے اور تعلیم و صحت جیسے بنیادی عوامی مسائل سے صرفِ نظر کر کے سارے فنڈز میگاپراجیکٹس میں جھونکے جا رہے ہیں جو اپنی جگہ ظلم کی انتہا ہے‘ حتیٰ کہ اس ضمن میں ایک ہزار ایک مثالیں پیش کی جا سکتی ہیں۔ سول حکام بنیادی طور پر حریص اور نااہل ہیں اور وہ اس کا ناقابلِ تردید ثبوت بھی فراہم کرتے چلے آ رہے ہیں اور ایسا لگتا ہے کہ کوئی ملک کو چلانے والا ہے ہی نہیں اور
جوں توں کر کے یہ اپنے آپ ہی چل رہا ہے۔
یہ بات کہنے کی ضرورت نہیں کہ ہمارے ہاں حکومتیں کس طرح نام نہاد مینڈیٹ حاصل کرتی ہیں اور کس کس طرح زراندوزی میں جُت جاتی ہیں‘ جسے اقتدار حاصل کرنے کا مقصد اولیٰ کہا جا سکتا ہے جبکہ اس بات میں کوئی کلام نہیں کہ انسانی حقوق کی خلاف ورزی میں ان چند خاندانوں کا بنیادی کردار ہے جو اس صریحاً ناقص سسٹم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے باری باری اقتدار پر قابض اور عوام کا خون چوسنے پر لگ جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اتنی حکومتوں کی آمدورفت کے باوجود اگر عوام کی حالت نہیں بدلی بلکہ خراب سے خراب تر ہوتی چلی جا رہی ہے اور غربت کی لکیر سے نیچے جانوروں بلکہ کیڑوں مکوڑوں کی زندگی بسر کرنے والوں کی تعداد بڑھتی ہی چلی جاتی ہے تو بنیادی انسانی حقوق کے علمبردار ہمارے دوستوں کو سب سے زیادہ تشویش اس بات پر ہونی چاہیے۔ پاکستان ایک عرصے سے دو حصوں میں تقسیم ہے یعنی غریبوں کا پاکستان اور امیروں کا پاکستان اور یہ تقسیم روزبروز واضح تر ہوتی چلی جا رہی ہے۔
حکومت کے خلاف آئے روز بھاری مالیت کے سکینڈل منظر عام پر آتے ہیں اور جس قدر ڈھٹائی کے ساتھ انہیں یکسر نظرانداز کیا جاتا ہے اس پر دیکھنے والوں کو شرم آتی ہے مگر حکومت کو نہیں‘ جن میں تازہ ترین ایک بینک کی نجکاری کا ہے جس میں اس کے حصص سستے بیچ کر کھربوں روپے کا گھپلا کیا جا رہا ہے لیکن اس پر تمام تر شور شرابے کے باوجود وزیر خزانہ صاحب کے کان پر جُوں تک نہیں رینگتی جبکہ یہ دن دہاڑے ڈکیتی کی ایسی واردات ہے جو سب کی آنکھوں کے سامنے کی جا رہی ہے اور حکومتی سطح پر ایک پتہ تک نہیں ہل رہا!
اب آتے ہیں اسٹیبلشمنٹ کی ''دراز دستیوں‘‘ کی طرف جن پر ہماری اس معزز تنظیم نے بجا طور پر صدائے احتجاج بلند کی ہے۔ اس سلسلے میں پہلی عرض تو یہ ہے کہ وزارتِ دفاع کا پورا پورا کام کافی عرصے سے سول حکومت کے ہاتھ سے نکل کر عسکری قیادت کو زیب دے رہا ہے کیونکہ سول والوں کا ہاتھ اس کی اہلیت کے حوالے سے خاصا تنگ ہے۔ خواجہ آصف صاحب برائے نام وزیر دفاع کے طور پر تو ضرور موجود ہیں لیکن وہ خود بھی اچھی طرح سے سمجھتے ہیں کہ یہ ان پر سراسر الزام ہی ہے۔ اب تفصیل میں جائے بغیر‘ جہاں تک اس تبدیلی کے نتیجہ خیز ہونے کا تعلق ہے تو آرمی چیف کے دوٹوک مؤقف کی بدولت بھارت سمیت دیگر کئی ممالک اپنے کپڑوں ہی میں رہنے پر مجبور ہیں۔ علاوہ ازیں حالیہ یمن بحران میں صاحبِ موصوف کا ان مذاکرات اور اہم دوروں میں ان کی شمولیت بھی ظاہر کرتی ہے کہ وہ اس محکمے پر کتنی توجہ دے رہے ہیں۔
جہاں تک محکمہ خارجہ کا تعلق ہے تو یہاں بھی سرتاج عزیز اور فاطمی صاحب جیسے بزرگوں کو خانہ پُری کے لیے رکھا گیا ہے۔ اس وزارت کا قلمدان وزیراعظم نے خود سنبھال رکھا ہے جبکہ سارا متعلقہ کام عسکری قیادت بروئے کار لا رہی ہے‘ خواہ وہ افغانستان کے ساتھ تعلقات کا معاملہ ہو یا امریکہ اور بھارت کے ساتھ روابط کا مشکل مرحلہ۔ چنانچہ اس کے نتائج بھی سب کے سامنے ہیں۔ موصوف نے بڑھ چڑھ کر بیرون ملکی دورے کیے ہیں اور کئی الجھے ہوئے مسائل کی گُتھی حل کی ہے اور خارجہ ا مور پر ہمیں اس پسپائی اور تنہائی کا احساس نہیں ہوتا جس میں ہم ایک عرصے سے گوڈے گوڈے دھنسے ہوئے تھے۔ حکومت اپنے ناتواں کندھوں سے سارا بوجھ اُتار کر اپنے معمول کے مشغلوں میں مصروف ہے اور دونوں ہاتھوں سے وہی کچھ کرنے میں مگن ہے جس کی یہ خصوصی شہرت رکھتی ہے اس لیے بنیادی انسانی حقوق کمیشن کو پریشان ہونے کی ضرورت نہیں ہے۔
آج کا مقطع
بادشاہ اپنا ہے دراصل کوئی اور‘ ظفرؔ
اور یہ ساری رعایا بھی کسی اور کی ہے