امریکی اخبار میں میمو سکینڈل فیم دانشور حسین حقانی کا مضمون بعنوان
"Why Are We Sending Attack Helicopter to Pakistan"
پڑھ کر تحریک آزادی کا ایک لطیفہ نما واقعہ یاد آ گیا:
Quit India Movement کے دوران ایک جلوس مال روڈ سے گزر رہا تھا جس میں شریک نوجوان نعرے لگا رہے تھے ''اپ اپ نیشنل فلیگ‘ ڈائون ڈائون یونین جیک‘‘ ''انگریزو ہندوستان چھوڑ دو‘‘ وغیرہ وغیرہ۔ سڑک کی صفائی میں مصروف کارپوریشن کی ملازم خواتین میں سے ایک نے دوسری سے پوچھا یہ موئے شور کیوں مچا رہے ہیں۔ آخر چاہتے کیا ہیں ''یہ ہم سے آزادی چاہتے ہیں‘‘ جاروب کش خاتون نے اپنے آپ کو تاج برطانیہ کا نمائندہ سمجھ کر جواب دیا۔
مضمون کی سرخی میں صیغہ جمع متکّلم (We) حسین حقانی نے خود استعمال کیا یا وال سٹریٹ جنرل کے کسی خوش ذوق ایڈیٹر کی کارستانی ہے‘ وثوق سے کچھ کہا نہیں جا سکتا‘ مگر اس عنوان سے نفس مضمون متاثر ہوتا ہے نہ اپنی ماں دھرتی پاکستان کے خلاف حسین حقانی کے بغض و عناد کی شدت میں کمی کا کوئی احتمال‘ البتہ اوباما ایڈمنسٹریشن کا کوئی جدی پشتی امریکی رکن یہ مضمون پڑھ کر سوچتا ضرور ہو گا کہ گرین کارڈ یا نیشنلٹی ملنے کے بعد یہ حضرت خود کو ''امریکہ‘‘ سمجھ بیٹھے۔ کل تک تو پاکستان کے شہری اور سفارت کار تھے۔ شاید یہ واشنگٹن کی آب و ہوا کا اثر ہے؎
بُدھو میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں
گو مشت خاک ہیں مگر آندھی کے ساتھ ہیں
حسین حقانی جیسوں کو پاکستان میں کیا کچھ نہیں ملا۔ زمانہ طالب علمی میں متوسط خاندانی پس منظر کے باوجود کراچی یونیورسٹی طلبہ یونین کی صدارت‘ اخبار نویس کے طور پر جنرل ضیاء الحق اور میاں نواز شریف کی قربت‘ پنجاب اور مرکز میں وزارت اطلاعات کی بطور معاون خصوصی مشیر اور سیکرٹری سربراہی‘ سری لنکا اور امریکہ کی سفارت‘ عزت‘ شہرت اور وہ سب کچھ جس کا اس پس منظر کے لوگ تصور کر سکتے ہیں مگر؎
اے روشنی طبع تو برمن بلا شدی
حسین حقانی کو امریکہ میں قیام اور پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کے سوا کچھ بھی راس نہ آیا۔
یہ مضمون کیا ہے؟ امریکہ بہادر کے سامنے پاکستان کے خلاف فرد جرم‘ اچھا بھلا لبرل اور غیر جانبدار شخص بھی جسے پڑھ کر کانوں کو ہاتھ لگائے کہ بھلا اپنی مادر وطن کے خلاف کوئی اس قدر بھی زہر اگلتا ہے۔ اگر آصف علی زرداری‘ یوسف رضا گیلانی اور پیپلز پارٹی کے دوسرے رہنمائوں نے یہ مضمون پڑھا تو یقیناً شرمندہ ہوں گے کہ ہم کس شخص کو میمو سکینڈل میں بے قصور ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگاتے‘ جنرل (ر) اشفاق پرویز کیانی اور جنرل (ر) شجاع پاشا کو مطعون کرتے رہے۔
حسین حقانی کو سب سے زیادہ غصہ اس بات پر ہے کہ امریکہ 1950ء سے لے کر 2015ء تک بار بار پاکستان کو اربوں ڈالر کی امداد کیوں دیتا رہا جبکہ پاکستان نہ نظریہ اسلام سے ہٹا‘ نہ اس کے نصاب تعلیم میں سے اسلام اور جہاد خارج ہوئے اور نہ اس نے اپنے مفاد کو ترک کر کے صرف اور صرف امریکہ کی نمک حلالی کی۔ امریکہ سے ملنے والے ڈالروں کو کمیونزم اور اسلامی جہادیوں کے خلاف استعمال کرنے کے بجائے پاکستان کے مختلف حکمران اور فوجی سربراہ اپنی دفاعی قوت کو مضبوط بناتے رہے۔ 1950ء کے عشرے میں ساڑھے چار بلین ڈالر وصول کرنے کے باوجود ایک پاکستانی فوجی ویت نام اور کوریا نہ پہنچا اور 1980ء میں ملنے والی ساڑھے چار بلین کی امداد مقبوضہ کشمیر اور مشرقی پنجاب میں ''بغاوت‘‘ کے لیے خرچ کی گئی۔
حسین حقانی 16 دسمبر (آرمی پبلک سکول حملہ) کے بعد پاکستانی فوج کے ذہن کی تبدیلی پر یقین کرنے کے لیے تیار نہیں اور انہوں نے امریکی انتظامیہ کو باور کرایا ہے کہ وہ جو ہیلی کاپٹر اور ہیل فائر میزائل پاکستان کو دے رہا ہے انہیں اسلامی جہادیوں کے بجائے بلوچستان میں سیکولر باغیوں کے خلاف استعمال کیا جائے گا۔ انہیں اس بات پر حیرت ہے کہ 2011ء میں ایبٹ آباد آپریشن کے وقت تو صدر اوباما نے پاکستانی فوج پر اعتبار نہ کیا‘ مگر اب وہ دوہرے کھیل کے عادی پاکستان پر اعتماد کر رہے ہیں؟ جس نے 9/11 کے بعد اپنی پالیسیاں تبدیل کیں نہ اب کرنے پر آمادہ ہے۔
2011ء میں میمو سکینڈل منظر عام پر آیا تو واشنگٹن میں تعینات پاکستانی سفیر حسین حقانی کی حب الوطنی‘ قومی خدمات‘ سفارتی کامیابیوں اور دانشورانہ فتوحات کا راگ الاپنے والوں نے آسمان سر پر اٹھا لیا۔ اسے جمہوری حکومت اور پاکستان کے ایک ذہین و روشن خیال سفارت کار کے خلاف اسٹیبلشمنٹ کی گھٹیا سازش قرار دیا گیا۔ میاں نواز شریف نے میمو سکینڈل کی تحقیقات کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا تو دو مرتبہ وزارت عظمیٰ کا منصب سنبھالنے اور اسٹیبلشمنٹ سے بگاڑ کر حکمرانی گنوانے والے سیاستدان پر خفیہ قوتوں کے آلہ کار کی پھبتی کسی گئی۔ حتیٰ کہ عدالت کو جل دے کر حقانی بیرون ملک فرار ہو گئے۔ کیا کہتے ہیں دانشوران قوم اس آرٹیکل کے بارے میں جو موصوف نے پاکستان اور امریکہ کے درمیان ہیلی کاپٹروں اور میزائلوں کی ڈیل رکوانے کے لیے قلمبند فرمایا۔ کیا یہ بھی کسی شجاع پاشا‘ منصور اعجاز اور جنرل کیانی کی سازش ہے؟ ایڈمرل مائیک مولن کے نام میمو میں اس کے سوا کیا تھا؟
میمو کیس اب بھی سپریم کورٹ کی فائلوں میں پڑا ہے۔ میاں نواز شریف نے دوبارہ بطور مدعی اس کی خبر لی نہ سپریم کورٹ کو یاد رہا اور نہ مقتدر حلقوں نے ''حقانی نیٹ ورک‘‘ کا سراغ لگانے کی سنجیدہ کوشش کی۔ اسی بنا پر ''حقانی نیٹ ورک‘‘ کو یہ پروپیگنڈا کرنے کا موقع ملا کہ مقصد اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کو نیچا دکھانا‘ حسین حقانی کو سفارتی منصب سے ہٹانا اور میاں صاحب کو اسٹیبلشمنٹ کا ساختہ پرداختہ ثابت کرنا تھا‘ اللہ اللہ خیر سلا۔ ورنہ کوئی تو اس کیس کی پیروی کرتا‘ پاک فوج اور آئی ایس آئی کے خلاف بڑی سازش کا پردہ چاک اور سازشی عناصر کو بے نقاب کیا جاتا۔
پاکستان کے مقتدر حلقے بھول گئے مگر شاید حسین حقانی نہیں بھولے؛ چنانچہ موقع ملتے ہی صرف حکومت اور فوج پر نہیں پاکستان پر وار کیا۔ یہ تک بھول گئے کہ ہیلی کاپٹرز اور میزائلوں کی فراہمی‘ امریکہ کا احسان یا مہربانی نہیں‘ کاروباری ضرورت ہے۔ روس پاکستان کو MILM 35 اٹیک ہیلی کاپٹر آفر کر چکا ہے اور اس کی قیمت بھی کم ہے۔ اوباما کے دورہ بھارت کے بعد چینی صدر کے دورہ پاکستان سے علاقے میں پاکستان کی اہمیت مزید بڑھی ہے اور پاکستان میں آپریشن ضرب عضب فریب کاری نہیں‘ حقیقت ہے اس قدر عیاں اور اظہر من الشمس کہ امریکی میڈیا بھی دل کھول کر داد دے رہا ہے۔ یہ ہیلی کاپٹر اور میزائل ہر طرح کے دہشت گردوں اور علیحدگی پسندوں کے خلاف استعمال کرنے کے لیے خریدے جا رہے ہیں اور امریکہ میں کسی کو اعتراض نہیں؛ تاہم حسین حقانی چاہتے ہیں کہ امریکہ پاکستان کو اسلحہ نہ دے تاکہ آپریشن ناکام رہے اور وہ آسانی سے کہہ سکیں ''دیکھا میں نہ کہتا تھا‘ فوج اور آئی ایس آئی پر اعتبار نہ کرو‘‘۔
امریکہ اور ایران کے درمیان نیوکلیئر مذاکرات کی کامیابی اور سعودی عرب کی یمن میں مداخلت کے بعد امریکی میڈیا میں پاکستان کے خلاف پروپیگنڈے کا طوفان اُمڈ آیا ہے‘ یہ مضمون اسی سلسلے کی کڑی لگتا ہے۔ بعض تجزیہ کاروں کی رائے میں پاکستان اپنے پائوں پر کھڑا ہونے اور خطے کی سیاست میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی جو کوشش کر رہا ہے افغانستان میں پاکستان دوست حکومت کا قیام‘ بھارتی سرحدی ریشہ دوانیوں کی ناکامی‘ اندرون و بیرون ملک پاکستان کے بدخواہ عناصر کے خلاف گھیرا تنگ ہونے کا منظر اور مشرق وسطیٰ میں پاکستان کی بڑھتی ہوئی طلب نے ہمارے بعض ''دوستوں‘‘ اور ''بہی خواہوں‘‘ کو پریشان کر دیا ہے۔ سیاسی‘ دفاعی اور معاشی حوالے سے پاکستان کا استحکام انہیں گوارا نہیں اور ان کے چیلے چانٹے پاکستان کا بازو مروڑنے کی خواہش میں بائولے ہو رہے ہیں۔ لیکن ہمارے حکمرانوں اور فیصلہ سازوں نے ان سازشوں اور ریشہ دوانیوں کا کس حد تک نوٹس لیا اور تدارک کی کوئی تدبیر کی؟ راوی فی الحال بے خبر ہے۔
حسین حقانی کی ذہانت‘ چرب زبانی اور سخن طرازی کا میں قائل ہوں۔ پاکستان میں بھی وہ عزت‘ شہرت‘ دولت اور آرام و آسائش کے علاوہ حسب خواہش عہدہ و منصب حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ معین قریشی اور شوکت عزیز کے بعد وزارت عظمیٰ کا منصب ان کے خوابوں میں بسا رہا۔ مگر پاکستان میں کسی اعلیٰ منصب تک پہنچنے یا امریکہ کی ہمدردی و سرپرستی حاصل کرنے کا یہ طریقہ؟ کیا امریکی اتنے ہی ہونق اور صدر اوباما اس قدر سادہ لوح ہیں کہ کسی چغل خور کی چکنی چپڑی باتوں میں آ کر اپنے قومی و کاروباری مفاد کو ترک کر دیں؟ یا پاکستان کو انہوں نے غریب کی جورو سمجھا جو سب کی بھابھی ہوتی ہے۔ حسین حقانی امریکی انتظامیہ کو تو شاید قائل نہ کر پائیں؛ تاہم پاکستان میں اپنے دوستوں کو خوب شرمندہ کرایا ؎
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا ہے زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں