تحریر : ھارون الرشید تاریخ اشاعت     23-04-2015

حاسد رشتہ دار

سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے کہا تھا: جس سے نفرت کرتے ہو، اس سے ڈرتے رہو۔
کیسے کیسے مہتمم بالشان واقعات رونما ہیں مگر اخبارات سرسری سے دیکھے اور ٹی وی بھی۔ تین دن طبیعت ماند رہی۔ فرمان یہ ہے کہ آدمی کو امتحان کے لیے پیدا کیا گیا۔ الحمدللہ علی کل حال۔
این اے 246 کا فیصلہ صادر ہو چکا۔ تحریکِ انصاف نے جماعتِ اسلامی کی طرف سے دستبرداری کی پیشکش کے باوجود تاریخ ساز ساعت کو کھو دیا۔ ضربِ عضب کے متوازی کراچی میں امن اور بلوچستان میں بحالی کے مناظر۔ لیڈرانِ کرام کے ذہنی اور اخلاقی افلاس کا مگر کیا کیجیے۔ ملک دلدل سے نکل رہا ہے اور خیرہ کن مواقع سامنے ہیں مگر سیاست دانوں کے ادراک کی سطح اتنی ہی پست ہے۔ این اے 246 میں ایم کیو ایم شکست سے دوچار ہوتی تو شاید اپنی اصلاح کرتی مگر افسوس!
نادان لوگ! پختون خوا میں بھی اب اختلافات ہوں گے۔ جماعتِ اسلامی نے انتباہ کر دیا ہے اور شاہ محمود قریشی نے احمقانہ بیان جاری فرما دیا۔ بلدیاتی الیکشن بھی دونوں پارٹیاں الگ الگ لڑیں گی۔ ایک صدی ہونے کو آئی، علّامہ اقبالؔ افغانستان کے سفر سے لوٹ کر آئے تو ایک مصرع لکھا تھا ''کہستان کی ہزار پارہ مسلمانی‘‘
لیڈروں کو خود سے فرصت نہیں۔ ایک نئی سیاسی جماعت کے سوا اب کوئی چارہ نہیں۔ موجودہ پارٹیاں ازکارِ رفتہ ہو چکیں۔
افغانستان میں خاک چاٹنے کے بعد پاکستان میں چینی سرمایہ کاری کے سیلاب نے برہمن کو بدمزہ کر دیا ہے۔ بلوچستان یا کراچی میں وہ کوئی تماشا رچانے کی کوشش کرے گا۔ کہیں ٹوٹا ہوا تارہ مہ کامل نہ بن جائے۔ حسین حقانی کے مضمون کو اسی پسِ منظر میں پڑھنا چاہیے۔ وہ ایک خود فروش ہے۔ جنرل محمد ضیاء الحق کا عہد ہو، نواز شریف، بے نظیر بھٹو یا آصف علی زرداری کا، اپنے طور پر وہ خال ہی بروے کار آتا ہے۔ اس کا یہ مطالبہ ناقابلِ فہم کیوں ہے کہ امریکہ پاکستان کو ہیلی کاپٹر فراہم نہ کرے؟ جنرل کیانی کو گالیاں دینے والے اب اپنا منہ پیٹیں۔ کیا اس نے اپنے طور پہ لکھا ہے کہ تعجب کیا جائے؟ جب اس نے سپریم کورٹ میں اپنا موبائل فون پیش کرنے سے انکار کیا تو نکتہ واضح تھا۔
جناب الطاف حسین کا واویلا تعجب خیز ہے کہ مریم نواز چینی صدر کا استقبال کرنے کیوں گئیں۔ ایسے موقع پر اتنی چھوٹی بات؟ تین وزرائے اعلیٰ کی عدم موجودگی البتہ پریشان کن تھی۔ اسفند یار ولی نے اعلان کیا ہے کہ راہداری منصوبے کو وہ کالا باغ ڈیم بنا سکتے ہیں۔ مطلب آشکار ہے کہ اگرچہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر ملک کے مفاد میں تھی مگر ہم نے روک دیا۔ جی نہیں، آپ نہیں بنا سکتے۔ کوشش کر کے دیکھ لیجیے۔ ویسے بھی بھارت نہیں، آپ کا بڑا رہبر اب کوئی اور ہے۔ چینی صدر کے واضح اعلانات کے بعد کہ چاروں صوبوں کو فائدہ پہنچے گا، جزوی اختلاف کو بنیادی مسئلہ بنانے کا مطلب کیا ہے؟ عسکری قیادت وزیرِ اعظم کو پہلے ہی مشورہ دے چکی کہ راہداری منصوبے کو ''کالا باغ ڈیم‘‘ بننے سے روکا جائے ۔ سیاسی رہنمائوں کو انہیں اعتماد میں لینا چاہیے اور ذرائع ابلاغ کو بھی۔ اگر وفاقی حکومت اور فوجی قیادت میں اتفاقِ رائے ممکن ہے تو سیاسی
قیادت کو مطمئن کرنے میں رکاوٹ کیا ہے؟
وزیرِ اعظم کا مسئلہ یہ ہے کہ ابھی تک 1990ء کی دہائی میں زندہ ہیں۔ یمن پر ان کا نقطہء نظر اور تھا، دعویٰ کچھ اور کیا۔ دوسرے عوامل کے علاوہ اس سے بھی پیچیدگی بڑھی۔ دونوں طرف کے ملّا مصروف ہیں، فی سبیل اللہ فساد کے لیے۔ کچھ سعودی عرب، کچھ ایران کے نخچیر۔ ایرانی ملّائوں میں سوٹ پہننے، نکٹائی لگانے اور انگریزی بولنے والے دانشور شامل ہیں۔ کراچی کا ایک انگریزی اخبار ان کا اڈہ ہے۔ دوسرے اخبارات اور چینلز میں بھی وہ سرگرم ہیں۔ بعض مذہبی جماعتوں اور گروہوں سے سعودی عرب کے مراسم زیادہ ہی خوشگوار ہیں۔ ان میں سے بعض ایران سے نفرت کرتے ہیں۔ پروفیسر ساجد میر، حافظ سعید اور حضرت مولانا جسٹس تقی عثمانی نے فتویٰ دیا ہے کہ یمن کے باغی تعذیب کے مستحق ہیں۔ 50 ہزار پاکستانی قتل کر دیے گئے۔ یہ لوگ ٹک ٹک دیدم، دم نہ کشیدم کی تصویر بنے رہے۔ یہ سارے عبداللہ کیا بیگانی شادی میں دیوانے ہیں؟ جی نہیں، مفادات کا کھیل ہے یا تعصبات کا۔ پاکستان کے نہیں، ان میں سے بعض عرب اور بعض ایران کے نقطہء نظر سے سوچتے ہیں ؎
کسے خبر کہ سفینے ڈبو چکی کتنے
فقیہ و صوفی و ملّا کی سادہ اندیشی
کراچی میں زیرِ تفتیش طارق محبوب پولیس کی حراست میں دل کا دورہ پڑنے سے مرا یا اسے مار دیا گیا؟ قبر کشائی ہونی چاہیے۔ حسین حقانی کی طرح وہ بھی کرائے کا قاتل تھا اور ہم کرائے کے قاتلوں کو معاف کرنے کے متحمل نہیں۔ اس نے انکشاف کیا تھا کہ کراچی کے چھ مختلف علاقوں میں وہ دو سے تین ارب روپے سالانہ غنڈہ ٹیکس وصول کرتا رہا۔ اس نے یہ بھی کہا کہ وہ ایم کیو ایم اور مجلس وحدت المسلمین کی بی ٹیم کے طور پر کام کرتا تھا۔ متعدد بے گناہ اس نے قتل کیے۔ اگر ایک چھوٹی سی گمنام تنظیم کے سربراہ نے اس قدر ہولناک کارنامے انجام دیے تو بڑے بڑوں نے کیا نہ کیا ہو گا؟ ان میں سے بعض چالیس پچاس ارب سالانہ وصول کرتے رہے۔ لیاری کے جرائم پیشہ گروہوں کی آمدن ایک ارب روپے ماہوار بتائی جاتی تھی۔
عرب ناراض ہیں کہ اگر پاکستان کو ان کی مدد نہ کرنا تھی تو کم از کم پارلیمان میں رسوا نہ کیا ہوتا۔ وزیرِ اعظم کے دورے سے ممکن ہے کہ صورتِ حال کچھ بہتر ہو مگر خود وزیرِ اعظم کے بارے میں بھی اب ان کے تحفظات ہیں۔ پرویز رشید ایسے مشیروں کی موجودگی میں اس کے سوا کیا ہو؟
بیس بے گناہ مزدوروں کی شہادت کے بعد چیف آف آرمی سٹاف کوئٹہ پہنچے۔ وزیرِ اعظم کیوں نہیں؟ خود نہیں تو کابینہ کی ایک کمیٹی کو بھیجا ہوتا۔ جنرل راحیل شریف نے انتباہ کیا مگر بھارت کو براہِ راست پیغام بھیجنے کی ضرورت ہے۔ ویسا ہی ایک پیغام، جو جنرل محمد ضیاء الحق نے خود راجیو گاندھی کو دیا تھا۔ پھر بے نظیر بھٹو کے دور میں صاحبزادہ یعقوب علی خاں نے دلّی پہنچ کر ''ہم جانتے ہیں کہ آپ کیا کرنے والے ہیں‘‘۔ المناک اطلاع یہ ہے کہ بلوچستان کے بگاڑ پیدا کرنے والوں میں ہمارے بعض عرب دوست اور ان کے عجمی حریف بھی شامل ہیں۔ کچھ عرب کھلّم کھلّا پاکستان میں خریداری کر رہے ہیں۔ دشمن ممالک ہی نہیں، افغانستان میں امن کے امکان اور دہشت گردی میں غیر معمولی کمی اور نئے معاشی مواقع پر حاسد رشتہ دار بھی پریشان ہیں۔ پاکستان کے ذریعے چین تک توانائی کی ترسیل کا مطلب کیا ہے؟ 35 ایام اور کم از کم دس بلین ڈالر سالانہ کی بچت جو بڑھ کر 60 بلین تک پہنچ سکتی ہے۔ ظاہر ہے کہ اسی تناسب سے پاکستان کو بھی فائدہ پہنچ سکتا ہے۔ ہوش مندی سے ہم کام لیں تو امریکہ اور یورپ شاید گوارا کریں مگر بھارت نہیں۔ ہمارے حاسد رشتہ دار بھی نہیں، اس لیے کہ وہ پاکستان کو محتاج اور منحصر دیکھنے کے آرزومند ہیں۔
پھونک پھونک کر قدم رکھنے کی ضرورت ہے۔ وزیرِ اعظم کو اپنے خاندان اور اپنی پارٹی سے اوپر اٹھ کر سوچنا ہو گا۔ اپوزیشن کو بھی۔
سرکارؐ کا فرمان یہ ہے: اگر کوئی چیز تقدیر پہ غالب آ سکتی تو وہ نظر (بد) ہوتی۔ اہلِ حسد سے بچنے کے لیے عالی مرتبتؐ نے ایک دعا تعلیم کی تھی ''اللہ کے نام سے، اے اللہ اس نظرِ بد کی حرارت، ٹھنڈ اور درد کو لے جا اور ہمیں مسلمانوں میں شامل فرما‘‘۔ سیدنا فاروقِ اعظمؓ نے یہ کہا تھا: جس سے نفرت کرتے ہو، اس سے ڈرتے رہو۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved