اس حقیقت کی تفہیم یقینا کوئی راکٹ سائنس نہیں کہ جب کسی بچے کو ماں کا دودھ چھڑوایا جائے تو وہ بھوک سے بیتاب ہو کر انگوٹھے سے لے کر ہر اُس چیز کو اپنے چھوٹے سے منہ میں ڈالنے کی کوشش کرے گا‘ جو وہ اٹھا سکتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ اب پاکستان بھی امریکی انحصار کی چھتری سے نکل کر چین کی طرف جا رہا ہے۔ مذکورہ بالا مثال میں ہو سکتا ہے کہ یہ خطرہ محسوس کرتے ہوئے کہ بچہ چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھاتے ہوئے اس کا جینا محال کر دے گا، ماں بچے کو دودھ پلانے کی طرف مائل ہو جائے؛ چنانچہ ایسا نہیں کہ ہم امریکہ کو مکمل چھوڑ بیٹھے ہیں، بلکہ ہم ایک اور سرپرست کی تلاش میں چین کی طرف بڑھے ہیں جو سکیورٹی، جو ہمارا اہم ترین معاملہ ہے، سمیت قدرے مختلف قسم کی ضروریات پوری کر سکتا ہے‘ لیکن اس کا مطلب فوجی اور معاشی میدانوں میں مکمل سرپرستی ہو گی جبکہ چین کی طرف سے جمہوریت کے نفاذ کے لیے دبائو یا بیجنگ کے من پسند سیاسی نظام کو اپنانا بھی ضروری نہیں سمجھا جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ پینتالیس بلین امریکی ڈالر کی سرمایہ کاری کا وعدہ بہت پُرکشش ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان اس کے علاوہ بھی سکیورٹی کے بہت مضبوط روابط پائے جاتے ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ گزشتہ کئی برسوں سے روایتی ہتھیاروں کے حصول کے لیے پاکستان کی مسلح افواج کا جھکائو چین کی طرف رہا ہے۔ اگرچہ امریکہ کی طرف سے بھی ایک بلین ڈالر مالیت کے ہتھیار پاکستان کے ہاتھ فروخت کرنے کا فیصلہ کیا گیا، لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم اہم دفاعی ہتھیاروں کے لیے تیزی سے چین پر انحصار بڑھاتے چلے جا رہے ہیں۔ چینی ساخت کے مختلف ہتھیار ہماری برّی فوج کے زیر استعمال رہے، لیکن اس کے بعد نیوی اور پھر فضائیہ نے بھی چین کی دفاعی مصنوعات پر انحصار شروع کر دیا۔ پاک نیوی نے پہلے بیجنگ سے گن بوٹس کے میزائل حاصل کیے، پھر F-22P اور اب چھ یا اٹھ آبدوزیں حاصل کرنے جا رہی ہے۔ باوجود اس حقیقت کے کہ پاکستان کے دفاعی ڈاکٹرائن کا انحصار بنیادی طور پر زمینی افواج پر ہے‘ ہم نے مغربی ممالک کی بجائے چین کے پلیٹ فارم پر قدم رکھ دیا ہے۔ پاکستان اور چین کے مشترکہ منصوبے کے تحت بننے والا JF-17 تھنڈر طیارہ آج پاک فضائیہ کا مرکزی جیٹ فائٹر ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ فضائیہ بھی مغرب پر سے اپنا انحصار بتدریج کم کرتی جا رہی ہے۔ اگرچہ چینی ہتھیاروں میں کوالٹی کا ایشو موجود ہے لیکن اہم بات یہ کہ ہماری تینوں سروسز ان سے مطمئن ہیں۔
ایشیا میں طاقت کے تبدیل ہوتے ہوئے توازن میں پاکستان کے پاس ایک موقع تھا کہ وہ چاہے تو اپنے روایتی حریف کے ساتھ تعلقات مضبوط کرتے ہوئے ایک آزاد راستے کا انتخاب کرے یا کسی مضبوط علاقائی کھلاڑی کی سر پرستی قبول کرے۔ اسلام آباد نے دوسرے آپشن کو اختیار کرنا مناسب سمجھا۔ یقینا پینتالیس بلین ڈالر مفت میں نہیں ملیں گے۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستا ن بھی اُس گروپ میں شامل ہو چکا ہے جو چینی سرمایہ کاری اور اثر کو قبول کرنے کے لیے سازگار ماحول رکھتا ہے۔ دوسرے ممالک سری لنکا اور میانمار ہیں۔ گزشتہ سال کولمبو کے دورے کے دوران میں نے دیکھا کہ وہاں چینی سرمایہ کاری زیادہ تر ایسے منصوبوں میں دکھائی دیتی ہے‘ جو غیر منافع بخش ہیں۔ تاثر ہے کہ کچھ دیر بعد یہ منصوبے کولمبو پر مہنگا بوجھ بن جائیں گے۔
کہا جاتا ہے کہ بیجنگ زیادہ تر اپنی کمپنیوں کو ہی منصوبوں کے ٹھیکے دیتا ہے اور یہ منصوبے بناتے وقت میزبان ملک کی گنجائش یا ضرورت کو نہیں دیکھا جاتا۔ کولمبو کی نئی بندرگاہ کوئی رقم نہیں کما رہی۔ اسی طرح دارالحکومت سے ایئرپورٹ تک نئی سڑک بھی بہت سے مسائل کا شکار ہے، لیکن ان باتوں کی پروا کون کرتا ہے۔ ویسے بھی عوام ایسے میگاپروجیکٹس کو ترقی سمجھ کر خوش ہو جاتے ہیں‘ چاہے یہ سری لنکا ہو، میانمار ہو یا پاکستان۔ چینی حکومت کو ان ممالک کی داخلی سیاست یا سیاسی تبدیلیوں سے کوئی سروکار نہیں اور نہ ہی اسے یہ غرض ہوتی ہے کہ حکومت سول ہے یا فوجی۔ مثال کے طور پر اسلام آباد کا چینی سفارت خانہ سول سوسائٹی سے میل جول نہیں رکھتا۔ اسی طرح یہ اہم سیاسی جماعتوں سے بھی لاتعلق رہتا ہے۔ ہاں ماضی میں اس نے ایک مخصوص مکتبہ فکر کے علما سے رابطہ کر کے انہیں بیجنگ بھجوایا تھا تاکہ وہ چینی مفادات پر حملے نہ کرنے کی ضمانت دیں۔ بہرحال، عالمی سطح پر عمومی تاثر یہ ہے کہ اگر دنیا کا کوئی ملک پاکستان کو انتہا پسندوں کی حمایت ترک کرنے کے لیے موثر طریقے سے قائل کر سکتا ہے تو وہ صرف چین ہے۔
اسلام آباد کے دفاعی نقطۂ نظر سے یہ فیصلہ کافی معقول لگتا ہے۔ غیر یقینی مستقبل اور ہنگامہ خیز صورتحال کا شکار ایک قوم سٹریٹجک آزادی کی خواہاں نہیںہو سکتی تھی لیکن اس نئی سرپرستی کو قبول کرتے ہوئے اس کے داخلی طور پر برآمد ہونے والے نتائج کو مدِنظر نہیں رکھا گیا۔ پینتالیس بلین ڈالر کے پیکج میں اس بات کا ذکر موجود نہیں کہ چین پاکستان کے وسائل کو کس حد تک استعمال میں لائے گا اور اس سے بھی حیرت ناک بات یہ ہے کہ کوئی بات نہیں کر رہا کہ چینی مصنوعات سے اپنی مارکیٹوں کو بھر لینے سے مقامی صنعت پر اس کے کیا نتائج مرتب ہوں گے؟ چنانچہ اگر ہم ان منصوبوں سے بہت زیادہ بجلی حاصل کر لیں تو بھی ہم اس سے صنعتی طور پر کوئی فائدہ نہیں اٹھا سکیں گے۔ اسی طرح چین تیل اور گیس کے لیے ڈرلنگ کرنے کے عمل پر بھی اپنی اجارہ داری قائم رکھے گا۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ ان کے پاس ٹیکنالوجی اعلیٰ معیار کی ہے بلکہ اصل بات یہ ہے کہ جوہری پروگرام میں تعاون کرنے پر پاکستان ہمیشہ سے بیجنگ کا احسان مند ہے۔ اس کے علاوہ میڈیا میں کوئی بھی اس بات کو زیر بحث لانے کے لیے تیار نہیں کہ ان تمام منصوبوں میں عام پاکستانیوں اور چینی باشندوں کے درمیان دو طرفہ تعلقات عوامی سطح پر قائم نہیں ہوں گے۔ پاکستان میں بھی سری لنکا، میانمار اور دیگر ممالک کی طرح ہم چینی فرموں کی مشروم گروتھ دیکھیں گے لیکن ان کا عوام کی سطح پر مقامی آبادی سے کوئی تعلق نہیں ہو گا۔ صورت حال یہ ہے کہ ہم آج بھی ایک دوسرے کے کلچر سے اتنے ہی اجنبی ہیں جتنے کہ پہلے کبھی تھے۔
اس اجنبیت کا تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ چین ہمارے داخلی مسائل اور مجبوریوں کی روح کو نہیں جان پائے گا۔ بلوچستان جیسے علاقوں، جہاں بیجنگ اگلے چالیس برس کے لیے گوادر کی بندر گاہ کو ترقی دینے اور استعمال کرنے جا رہا ہے، کے معروضی حالات سے جانکاری چین کے لیے بہت ضروری ہے۔ اسلام آباد کے نقطۂ نظر سے ایسا لگتا ہے کہ اس کے پاس بہترین آپشن یہی ہے کہ وہ اُس علاقے کو ترقی دینے کے لیے چین کے حوالے کر دے جسے وہ خود کسی قیمت پر ترقی نہیں دے پائے گا۔ کہا جاتا ہے کہ چینی اپنے مفادات کے خلاف کسی چیز کو برداشت کرنے کا ذرہ برابر یارا نہیں رکھتے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اس وقت بلوچستان میں علیحدگی پسندوں کی جدوجہد صرف نہتے شہریوں کو ہی نقصان پہنچا سکتی ہے۔ آخر میں، گلگت بلتستان وہ علاقہ ہے جہاں چین کا اثر پاکستان سے زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ شاید وہاں اسلام آباد یا راولپنڈی کو چین کے ساتھ زیادہ پارٹنرشپ کی ضرورت ہے۔