کالم تمام ہوا اور نظر اٹھا کر دیکھا تو ٹی وی پر اوّل جماعت اسلامی کے نئے حلیف مولانا فضل الرحمن اور پھر قائم علی شاہ نظر آئے ع
اے مری قوم ترے حسنِ کمالات کی خیر!
وفاقی سیکرٹری نے‘ سبکدوشی کے جو پندرہ سال بتا چکا، آخر کار وہ بات کہہ دی، جو میرے مرحوم دوست ایڈیشنل سیکرٹری فاروق گیلانی اکثر کہا کرتے ''میرا بس چلے تو سٹیل مل اور پی آئی اے ایسے تمام قومی ادارے ایک ایک روپے میں بیچ دوں‘‘۔
اگر چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سٹیل مل کی نج کاری روکنے کا حکم صادر نہ کرتے؟ 2007ء سے اب تک کم از کم دو سو ارب روپے بچ گئے ہوتے۔ پی آئی اے اگر 1996ء میں بیچ دی گئی ہوتی؟ کم از کم ایک سو ارب روپے۔ اگر ریل کے آپریشن کاروباری لوگوں کے ہاتھ میں ہوتے؟ تو بھی کم از کم اتنے ہی۔ اپنے ارادے کے مطابق نوازشریف 1990ء میں ہی اگر پی ٹی سی ایل کے زیادہ تر حصص فروخت کرسکتے؟ موبائل فون کا نظام رائج ہونے میں ابھی کئی سال پڑے تھے۔ اندازہ ہے کہ تب 17بلین ڈالر حاصل ہوتے۔ پورے کا پورا غیر ملکی قرض ادا کیا جاسکتا۔
اسلام آباد کے ہوائی اڈے پر تیز تیز چلتا ہوا پی آئی اے کا شفٹ انچارج کائونٹر پربیٹھی دو خواتین کے پاس پہنچا۔ پھر سرگوشی کے انداز میں اس نے کہا: ''تینوں کی تینوں بین الاقوامی پروازیں لیٹ ہوگئیں‘‘۔ ''تینوں؟‘‘۔ موبائل پر مصروف خاتون اٹھی اور بھاگ نکلی۔
اس خیال سے مجھے مسرت ہوئی کہ لاہور جانے والی پرواز بروقت ہے۔ مسافر خود بھی بروقت ہوائی اڈے پر پہنچا اور شاد تھا۔ ابھی ایک گھنٹہ باقی تھا۔ ایک عدد برگر اور پانی کی ایک بوتل حلق سے اتاری جا سکتی تھی۔
لیکن پھر ایک شناسا صورت دکھائی دی۔ سلام عرض کیا۔ سوچا‘ کہ کہاں ان سے ملاقات ہوئی تھی؟ خوش اخلاق آدمی آگے بڑھا اور اس نے یاد دلایا: میرا نام اقبال فرید ہے۔ ڈاکٹر شعیب سڈل کے ساتھ‘ پروفیسر احمد رفیق اختر کے لیکچر میں آپ سے ملا تھا۔ اچھا‘ سی بی آر کے سابق چیئرمین۔ اگر ڈاکٹر سڈل کے ساتھ ملے تھے تو ظاہر ہے کہ معقول آدمی ہوں گے۔ بے تکا آدمی ڈاکٹر کو کہاں گوارا ہوتا ہے۔ کبھی کبھی تو معقول آدمی بھی نہیں۔ انسانی مراسم کا انحصار تجزیے سے زیادہ افتادِ طبع پر ہوتا ہے۔
گھڑی دیکھی تو تعجب ہوا۔ پونے دو بج گئے؟ تاخیر کا اعلان اور نہ جہاز پر سوار ہونے کا۔ کائونٹر کے پیچھے مسکین سی خاتون کے پاس پہنچا۔ پوچھا: پرواز 653 کے بارے میں کیا ارشاد ہے۔ کہا: ذرا سی تاخیر ہوئی؛ چنانچہ اعلان نہیں کیا۔ گزارش کی: پندرہ منٹ بھی قیمتی ہوتے ہیں۔ پچاس ساٹھ مسافروں‘ ان کا انتظار کرنے والے سیکڑوں کے۔ اس نے دہرایا: بس ذرا سی تاخیر ہے۔
اقبال فرید ٹی وی پر کرکٹ کا میچ دیکھنے میں مگن تھے۔ بولے: 20 رنز اور وکٹ ابھی ایک بھی نہیں گری۔ اتنے میں دو عدد چوکے پڑے‘ بنگالیوں کے فلک شگاف نعرے سنائی دیئے۔ مجھے خوشی ہوئی۔ جناب اقبال فرید سے میں نے کہا: آپ جانتے ہیں کہ طرّار پٹواری‘ ایک عدد سبکدوش پٹواری کو ملازم رکھ لیا کرتے ہیں۔ نجم سیٹھی نے بھی یہی کیا ہے۔ اچھا ہے کہ بنگالی جیت جائیں۔ ممکن ہے کہ کرکٹ بورڈ کی تشکیل نو کا امکان پیدا ہو۔
میچ دلچسپ ہوتا گیا۔ شاہین کبھی پرواز سے تھک کر نہیں گرتا اور ہمارے شاہین پے بہ پے شکستوں سے کبھی بدمزہ نہیں ہوتے۔ کچھ شاہین‘ کچھ نجم سیٹھی کے کوّے۔ پندرہ منٹ اور بیت گئے۔ ایک بار پھر کائونٹر والی خاتون کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ''جہاز آ چکا‘‘ اس نے بتایا: ''کوئی دیر میں پرواز کا اعلان ہو جائے گا‘‘۔ ''مگر آپ کو اعلان کرنا چاہیے‘‘۔ ''اعلان میں تبھی کر سکتی ہوں اگر فون پر مجھے اس کا حکم دیا جائے‘‘۔ خود کو تھامنے کی کوشش کی مگر مشکل پڑی۔ پچھلے چار ماہ میں چالیس پچاس بار کا سفر۔ پی آئی اے کی نوازشات کا بار اتنا تھا کہ اٹھائے نہ اٹھ سکا۔ عرض کیا: ''کون آپ کو فون کرے؟ میاں محمد نوازشریف؟‘‘ میرے ذہن میں ان کا وزیر ابھرا‘ جو جماعت اسلامی کی یونین کا عہدیدار تھا۔ آدھی یونین بیچ کر وہ کراچی کا ایڈمنسٹریٹر بنا‘ پھر سینیٹر‘ پھر وزیر۔ برہمی سے اس نے جواب دیا: ہاں! ہاں نوازشریف سے فون کرا دیجیے۔ ''خاتون محترم‘‘ میں نے دل میں کہا ''آپ کی جگہ کاش کوئی مرد ہوتا‘‘۔
اڑھائی بج گئے۔ ایک بار پھر جسارت کی ''کم از کم اعلان ہی کر دیجیے‘‘۔ ''میں نہیں کروں گی‘‘۔ کائونٹر چھوڑ کر دس گز آگے‘ اب وہ سیڑھیوں پر کھڑی تھی۔ ''کیا یہ آپ کی ڈیوٹی نہیں؟‘‘... ''نہیں میری کوئی ڈیوٹی نہیں‘‘۔ اکثر ملازمین کی طرح شاید وہ بھی سفارشی تھی۔ پیپلز پارٹی یا نون لیگ کے کسی لیڈر یا پی آئی اے کے کسی افسر کی عنایت۔
تیزی سے میں سیڑھیاں اترا اور اس پہلے آدمی سے‘ جس نے پہچانا‘ سوال کیا: مسافروں کو پرواز میں تاخیر کی اطلاع نہیں دی جا رہی‘ کس سے بات کرنی چاہیے؟ وہ ایئرپورٹ سکیورٹی فورس کا منصب دار تھا۔ ہوائی اڈے پر یہی لوگ سب سے زیادہ مستعد ہوتے ہیں۔ ایک ساتھی کو اس نے آواز دی اور کہا کہ وہ مجھے متعلقہ افسر کے پاس لے جائے۔
یہ وہی تھا‘ پرجوش اور مستعد شفٹ انچارج۔ پوچھا: حضور! پرواز میں اگر تاخیر ہے تو اعلان میں حرج کیا ہے؟ اس کے جواب نے حیرت زدہ کردیا: ''اعلان تو ہو چکا‘ آپ نے سکرین کو دیکھا ہوتا‘‘۔ ''سکرین کو؟‘‘ میں نے سوچا آنجناب کو اتنی سی زحمت گوارا نہیں کہ سائونڈ سسٹم پر اطلاع فراہم کریں‘ جیسا کہ ساری دنیا میں ہوتا ہے۔ رہی سکرین‘ اس پر بھی ممکن ہے‘ ابھی ابھی عنایت کی ہو۔ شاہانہ تمکنت کے ساتھ وہ اٹھے کہ بازو سے پکڑ کر سکرین تک لے جائیں اور مسافر کو شرمندہ کریں۔
دل میں پھر گریہ نے اک شور اٹھایا غالبؔ
آہ! جو قطرہ نہ نکلا تھا سو طوفاں نکلا
میں نے احتجاج کیا اور بلند آواز سے احتجاج۔ وہ چپ رہے۔ جانتے تھے کہ مسافر کس قدر نالاں ہیں۔
پچھلے برس حاکم اعلیٰ حجاز تشریف لے گئے تو لاجواب ایئرلائن کے باکمال سربراہ نے ممکن بنایا تھا کہ ان کی خدمت میں 16 عدد کھانے پیش کیے جائیں۔ ایسی ہی عنایت وہ اپنے مسافروں پر کیوں نہیں کرتے؟ قومی خزانے پر کیوں نہیں کرتے۔ پھر جو باقی بچیں ان کی تربیت کی جائے اور بین الاقوامی معیار کی سہولتیں انہیں فراہم کی جائیں۔ ہماری قومی ایئر لائن کبھی دنیا کا بہترین ادارہ تھی۔ دوبارہ کیوں نہیں ہو سکتی۔ اگر زیادہ نہیں تو کچھ ہی اور اس کے بعد نجکاری کردی جائے۔ پی آئی اے کا سربراہ یہ صلاحیت رکھتا ہے۔ اچھے لوگوں کی اس میں ہرگز کوئی کمی نہیں۔ یہ الگ بات کہ نااہل اور نالائق ان کی گردنوں پر سوار ہیں۔ پاکستان تو خیر‘ جدّہ کے ہوائی اڈے پر زندگی میں ایک آدھ بار ہی سمندر پار سفر کرنے والے عازمین سے بھیڑ بکریوں جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ یہ مسافر جب پاکستان پہنچتے ہیں تو اخبار میں وہ شہبازشریف کا بیان پڑھتے ہیں ''عوام سے بدسلوکی کرنے والوں کو الٹا لٹکا دیا جائے گا‘‘۔
عام آدمی کی تذلیل کا سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ اشرافیہ نہیں‘ اس سوال کا جواب خود ہمیں تلاش کرنا ہے۔ ہم اندھوں‘ گونگوں اور بہروں کو‘ جنہیں خبر نہیں کہ ہمارے خون پسینے کی کمائی پر ان کے عیش کا انحصار ہے۔ ان کا‘ ان کی اولادوں اور خوشامدیوں کا۔
کالم تمام ہوا اور نظر اٹھا کر دیکھا تو ٹی وی پر اوّل جماعت اسلامی کے نئے حلیف مولانا فضل الرحمن اور پھر قائم علی شاہ نظر آئے ع
اے مری قوم ترے حسنِ کمالات کی خیر!
(ایک ہفتہ قبل لکھا گیا)