تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     24-04-2015

ٹوٹے

دو ہزار ارب کی کرپشن پکڑنے کا طریقہ
اخباری اطلاع کے مطابق نیب نے دو ہزار ارب سالانہ کی کرپشن پکڑنے کا طریقہ تجویز کردیا ہے جس میں درجن بھر سے زائد تجاویز پیش کی گئی ہیں جن کے ذریعے صرف ٹیکس چوری کی مد میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو کی اوورہالنگ کر کے خُردبُرد ہونے والی یہ رقم بچائی جا سکتی ہے۔ واضح رہے کہ یہ کرپشن صرف ٹیکس چوری کے حوالے سے ہے جبکہ کمیشن‘ کک بیکس‘ بجلی چوری اور ناجائز سبسڈی وغیرہ کی مدات اس کے علاوہ ہیں۔ سردست صرف اسی رقم پر غور کیا جائے تو ہوش گم کرنے کے لیے یہی کافی ہے۔ سپریم کورٹ اور ہائیکورٹس کے علاوہ خود صدرِ مملکت اس کرپشن کے خلاف دہائی دیتے رہتے ہیں جو ملک کو گھن کی طرح چاٹ رہی ہے۔ سوال یہ نہیں کہ اس ناسور کے قلع قمع کے لیے پہلے سے کوئی قانون ہے یا نہیں بلکہ ہر طرح کے انسدادی قوانین موجود ہونے کے باوجود یہ کاروبار انتہائی دیدہ دلیری کے ساتھ جاری ہے۔ ان تجاویز کو عملی جامہ پہنانا تو دور کی بات ہے‘ ان پر توجہ دینا ہی ایک دیوانے کے خواب سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتا کیونکہ جنہوں نے ان تجاویز کو تشکیل دے کر ان پر عملدرآمد کرنا ہے وہ خود کرپشن کے سرچشمہ اور منبع کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس لیے چوروں سے یہ امید رکھنا کہ وہ چوروں کے ہاتھ کاٹیں گے‘ سے زیادہ بڑی حماقت اور کیا ہو سکتی ہے۔ نیز جن حکومتوں کی بنیاد ہی کرپشن پر ہو‘ وہ اس کے خاتمے میں کس حد تک دلچسپی رکھ سکتی ہیں۔ اس لیے نیب والے اپنا معمول کا کام ہی ثابت قدمی سے جاری رکھ سکیں تو وہ بھی بسا غنیمت ہے‘ مثلاً بڑی مچھلیوں پر ہاتھ ڈالنے کی جو خبریں آئے روز سنائی جاتی ہیں انہیں کسی منطقی انجام تک پہنچتے کم ہی دیکھا گیا ہے کیونکہ اوّل تو ایسے مقدمات اور انکوائریاں ابتداء ہی میں غتربود ہو جاتی ہیں‘ اور اگر نیب کا کوئی سرپھرا سربراہ راست روی سے آگے بڑھنے کی کوشش کرے بھی تو اس کا جو حشر کیا جاتا ہے‘ طارق ملک سمیت اس کی ایک سے زیادہ روشن مثالیں موجود ہیں۔
الیکشن این اے 246
جب تک یہ سطور شائع ہوں گی‘ الیکشن این اے 246 کے نتائج سامنے آ چکے ہوں گے جن میں ایم کیو ایم‘ پی ٹی آئی اور جماعت اسلامی بھرپور حصہ لے رہی تھیں جبکہ عمران خان کے بلند بانگ دعووں کی نسبت جماعت اسلامی کا یہ کہنا کہ کراچی کو ایسا کراچی بنانا چاہتے ہیں جس میں الطاف حسین اطمینان سے واپس آ سکیں‘ زیادہ معقول اور مناسب تھا۔ اگرچہ بسیار کوشش کے باوجود نہ تو جماعت اسلامی پی ٹی آئی کے حق میں دستبردار ہونے کو تیار ہوئی اور نہ خود پی ٹی آئی نے پسپائی اختیار کی۔ دراصل فتح و شکست سے قطع نظر دونوں جماعتیں وہاں اپنی اپنی طاقت کا اندازہ لگانا چاہتی تھیں اور یہ کہ ایم کیو ایم پر مشکلات کے دنوں میں یہ دونوں اس کے کتنے ووٹ توڑ سکتی ہیں۔ یعنی یہ دونوں جماعتیں جتنے بھی ووٹ حاصل کریں گی‘ اجتماعی طور پر وہ ایم کیو ایم ہی کے توڑے ہوئے ووٹ ہوں گے۔ اگرچہ حالیہ برسوں میں ایک تو پی ٹی آئی نے کراچی میں ایک قابلِ ذکر گنجائش اپنے لیے پیدا کر لی ہے اور جماعت اسلامی بھی وہاں ایک سیاسی حیثیت کا دعویٰ رکھتی ہے بلکہ اسی حلقہ سے ایک آدھ
بار کامیاب بھی ہوتی رہی ہے اور مصطفی کمال کی میئر شپ کے زمانے میں اس نے وہاں کام بھی کر کے دکھایا ہے۔ علاوہ ازیں اس نتیجے سے ایم کیو ایم کو بھی نئے سرے سے اپنی صف بندی پر توجہ دینے کا موقعہ میسر آئے گا۔
حکومت کو زیادہ ڈھیل نہ دی جائے!
موجودہ حکومت نے ملکی معاملات میں عسکری حلقوں کو جو غیر معمولی سپیس دے رکھی ہے‘ ایک تو ایک طبقے کی طرف سے اس پر اصولی اعتراض اور تحفظات بالکل بجا ہیں اور اس کے مثبت نتائج برآمد ہونے کے باوجود اس سے سو فیصد اتفاق نہیں کیا جا سکتا۔ دوسرا جس سب سے بڑے نقصان کا خدشہ ہے وہ یہ ہے کہ حکومت اپنے ان کاموں پر زیادہ سہولت کے ساتھ توجہ دینے کے قابل ہو جائے گی جن کی وجہ سے وہ روزِ اول سے بدنام چلی آ رہی ہے بلکہ اس سے بھی بڑھ کر یہ خطرہ موجود ہے کہ یہ غیر معمولی باہمی تعاون اس بدنامِ زمانہ مفاہمت پر نہ منتج ہو جائے جو ساری خرابیوں کی جڑ کی حیثیت اختیار کر چکی ہے اور جو حکومت ہی نہیں‘ دونوں فریقوں کے لیے نقصان رساں ثابت ہوگی۔ بلکہ خود ملک پر اس کے ناقابل تلافی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ یعنی حکومت اگر بے لگام ہو جاتی ہے اور اپنے آپ کو کسی بھی خطرے سے آزاد محسوس کرنے لگتی ہے تو نہ صرف بدحکومتی کے نت نئے انداز سامنے آئیں گے بلکہ یہ اس کے لیے کرپشن اور زراندوزی کی کھلی چھٹی کے بھی مترادف ہوگا بلکہ یہی صورت حال پیدا ہو جائے گی کہ ع
گلیاں ہو جان سُنجیاں وچ مرزا یار پھرے
اس لیے بہتر یہی ہے کہ حکومت اپنے کام خود کرے اور اپنی ناکامی کی ذمہ دار بھی خود ہو۔
ریٹائرڈ لوگوں کی مشکلات
پنشنر طبقہ دوہری مصیبت سے دوچار ہے۔ ایک تو یہ کہ پنشن کی رقم اس قدر برائے نام ہوتی ہے کہ کمر توڑ مہنگائی کے اس زمانے میں ان کی گزراوقات انتہائی صبر آزما بلکہ ناممکن ہو چکی ہے کیونکہ عرصے سے پنشن کی رقم میں کوئی اضافہ دیکھنے میں نہیں آیا جس پر حکومت کو سارے کام چھوڑ کر توجہ دینی چاہیے اور ان بزرگوں کو اس کڑی آزمائش سے نکالنا چاہیے۔ دوسرے‘ پنشن کی وصولی کا مرحلہ اس قدر تکلیف دہ بنا دیا گیا ہے کہ جسے دیکھ کر رحم تو آتا ہی ہے‘ شرم بھی آتی ہے کہ ہمارے یہ ماں باپ سخت گرمی‘ دھوپ یا شدید سردی میں قطاروں میں لگے عبرت کی تصویر بنے نظر آتے ہیں جہاں ان کے لیے کوئی سہولت موجود نہیں ہوتی۔
آج کا مطلع
وہ ایک طرح سے اقرار کرنے آیا تھا
جو اتنی دور سے انکار کرنے آیا تھا

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved