افغانستان کے آرمی چیف جنرل شیر محمد کریمی گزشتہ دنوں دو روزہ دورہ پر پاکستان آئے۔ دورے کی اہم ترین تقریب کاکول اکیڈیمی کی132 ویں پاسنگ آئوٹ پریڈ تھی۔ کمیشن حاصل کرنے والے کیڈٹس کی پریڈ اور ایوارڈ کی تقریب سے مہمان خصوصی کی حیثیت سے خطاب ان کے دورے کی اہم ترین مصروفیت تھی۔ لیکن عین تقریب کے وقت دوسری طرف افغانستان کے مشرقی شہرجلال آباد میں ایک خونیں واردات ہوئی‘ جہاں ایک بینک کے باہر سول اور فوجی ملازمین اپنی تنخواہیں وصول کرنے کیلئے قطاروں میں کھڑے تھے کہ موٹر سائیکل سوار خود کش حملہ آوروں نے یکے بعد دیگرے تین خود کش دھماکے کر کے چالیس بے گناہوں کو شہید اور100 سے زائد کو زخمی کر دیا۔ حملہ کی ذمہ داری داعش نے قبول کر لی۔ اس اندوہناک سانحے پر افغانستان بھر میں صف ماتم بچھ گئی۔ غالباً مقصد اس دھماکے سے یہ تھا کہ اس کی ذمہ داری طالبان کے ا س گروپ کے سر تھونپ دی جائے جس کے بارے میں بھارت اور کرزئی کی جانب سے ایک ہی شور مچایا جاتا رہا ہے کہ ان کی مدد پاکستان کے خفیہ ادارے کرتے ہیں؛ تاہم اس دھماکے کے کوئی دو گھنٹے بعد افغان حکومت کا جو سرکاری رد عمل سامنے آیا اس کے مطابق اس خودکش دھماکے میں طالبان کے ملوث ہونے کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ اس دھماکے کے پس منظر کو سامنے رکھیں تو صاف نظر آ رہا ہے کہ بھارتی ایجنسی را کے سربراہ اور وزیراعظم مودی کے سکیورٹی کے مشیر اجیت ڈوول کا پروگرام یہ تھا کہ پاکستان کی سرحد سے ملحق جلال آباد میں بینک اور شہر کی مصروف ترین مارکیٹ کے باہر تنخواہیں وصول کرنے کھڑے افغان فوجیوں کی شہادتوں کے نتیجے میں افغان عوام میں اشتعال پھیل جائے گا اور عوام پاکستان کے خلاف نعرے لگاتے ہوئے سڑکوں پر آ جائیں گے۔ اس طرح افغانستان کے آرمی چیف جنرل کریمی کا دورہ پاکستان ناکام ہو جائے گا۔ یوں پاکستان اور افغانستان کی افواج کو ایک دوسرے کے انتہائی قریب لانے کاخواب ادھورا رہ جائے گا۔ بھارت کو افغان جنرل کی یہ پزیرائی کیسے گوارا تھی۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ جنرل کریمی وہ واحد غیر ملکی شخصیت ہیں جنہیں کاکول اکیڈیمی کی کسی بھی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب کا اعزاز حاصل ہوا۔ یہاں جنرل شیر محمد کریمی کے حوصلے، تدبر اور فراست کو داد دینا پڑتی ہے کہ وہ افغان فوجیوں کی اتنی بڑی تعداد میں شہادت پر مجسم صبر بن گئے اور انہوں نے کسی پر اپنے رنج و غم کو ظاہر نہ ہونے دیا۔ انہوں نے افغان اور پاکستانی کیڈ ٹس کی پاسنگ آئوٹ پریڈ سے خطاب میں جس فہم و دانش کا مظاہرہ کیا وہ اجیت ڈوول کے منہ پر زبردست طمانچہ تھا‘ جس کی کسک اسے مدتوں ذہنی اذیت میں مبتلا رکھے گی ۔بھارت کی سازشیں اور تلملاہٹ اپنی جگہ‘ لیکن اب وقت آن پہنچا ہے کہ پاکستان اور افغانستان اپنی معلومات کو باہم شیئر کریں‘ تاکہ سازشوں کو جنم لینے سے پہلے ہی ناکام بنایا جاسکے۔ یہ امر خوش آئند ہے کہ دونوں برادر ہمسایہ مسلم ملکوں نے سمجھ لیا ہے کہ دشمن انہیں الگ الگ کرکے کمزور کرنا چاہتا ہے جس کا مقابلہ انہیں مل کر کرنا ہو گا ۔ضرب عضب کی شدت سے گھبرا کر تحریک طالبان پاکستان کے دہشت گردوں نے اب بلوچستان میں پناہ لینی شروع کر دی ہے جس کا اعتراف وزیر اعلیٰ بلوچستان ڈاکٹر عبد المالک بلوچ نے دو ہفتے قبل یہ کہتے ہوئے کیا ہے کہ ٹی ٹی پی کے دہشت گرد فاٹا اور وزیرستان سے بھاگ کر بلوچستان کے پنجگور، تربت، لورا لائی کے پہاڑوں میں چھپ رہے ہیں۔ وزیر اعلیٰ بلوچستان کا یہ انکشاف انتہائی غور طلب ہے۔ سکیورٹی ایجنسیوں کو اس پہلو پر بھی ضرور سوچنا پڑے گا کہ تحریک طالبان پاکستان کے وہ لوگ جو پاکستان کے کونے کونے میں کئے جانے والے آپریشن ضرب عضب سے جان بچانے کیلئے
بلوچستان میں پہنچ رہے ہیں‘ کیا یہ اچانک جدھر سے رستہ ملا ادھر سے یہاں پہنچے ہیں؟۔ میرا خیال ہے کہ ایسا بالکل نہیں ا س کیلئے بلوچستان میں ان کے سہولت کاروں نے پہلے سے انتظام کیا ہو گا اور ان کے با قاعدہ روابط ہوں گے کیونکہ یہ چند ایک دہشت گرد تو ہیں نہیں اس لئے ان کی کثیر تعداد کو ممکن ہے کہ مختلف ٹولیوں میں مختلف جگہوں پر ٹھہرایا گیا ہو اور رابطوں کیلئے ان کے پاس تھرایا سیٹ ہوں۔ اسی طرح ممکن ہے کہ افغانستان کی پاکستان سے ملحقہ سرحدوں پر چھپے ہوئے دہشت گرد‘ افغان فوج کے آپریشن کی وجہ سے بلوچستان پہنچ گئے ہوں۔ اب تین پہلوئوں کو سامنے رکھنا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ تحریک طالبان پاکستان کا سہولت کار بھارتی را کا کوئی ایجنٹ ہے یا بلوچستان اور کراچی میں سر گرم اور منظم گروپ جند اﷲ کے لوگ ہیں یا انہیں کسی کالعدم جماعت کی مدد حاصل ہے جو بلوچستان کی مذہبی، تجارتی اور سماجی حلقوں میں انتہائی با اثر سمجھی جاتی ہے۔ ان میں سے دو گروپوں کو بھارتی ایجنسیوں اور اجیت ڈوول (جس کا تعارف اوپر گزر چکا ہے) کی براہ راست مدد اور تعاون حاصل ہو گا کیونکہ وزیرستان میں پاک فوج ان کی ایک ایک انچ انچ پر تلاش میں مصروف ہے اور ان دہشت گردوں کو یقین ہو چکا ہے کہ اب انہیں یہاں مستقل
جائے پناہ ملنا مشکل ہے۔ اس لیے وہ اپنے مددگاروں اور سرپرستوں کے ذریعے بلوچستان پہنچ چکے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ گزشتہ ایک ماہ میں سب نے دیکھا کہ بلوچستان میں دہشت گردی کی بڑی بڑی وارداتیں اچانک بڑھنا شروع ہو گئی ہیں۔ داعش‘ تحریک طالبان پاکستان اور اجیت ڈوول پر مشتمل دہشت گردوں کا کارٹل کبھی بھی برداشت نہیں کر سکتا کہ افغانستان کی صورت میں ان کا سب سے محفوظ ٹھکانہ ان کے ہاتھ سے مکمل طور پر نکل جائے۔ جلال آباد میں کئے گئے ان خود کش دھماکوں سے پہلے حامد کرزئی پوپلزئی کی رخصتی اور افغانستان کے حالیہ انتخابات کے نتیجے میں بھاری اکثریت سے اشرف غنی کی حکومت کے قیام کے بعد بھارت کی بے چینی اور خلجان ہے کہ بڑھتا ہی چلا جا رہا ہے اور اس کی ہر ممکن کوشش ہے کہ حامد کرزئی کی مدد اور تعاون سے افغان اور پاکستانی عوام کے درمیان دس برسوں کی غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کی لکیر وںکو مٹنے نہ دیا جائے۔لیکن افغان صدر اشرف غنی کا اپنی خفیہ ایجنسیوں سے ملنے والی معلومات کی روشنی میں دیا جانے والا بیان کہ اس میں طالبان ملوث نہیں اور جنرل شیر محمد کریمی کی کاکول اکیڈیمی کی پاسنگ آئوٹ پریڈ میں شرکت‘ بھارت اور اجیت ڈوول کے منہ پر وہ بھر پور طمانچہ ہے جس کی ضرب انہیں مدتوں یاد رہے گی۔ جلال آباد میں داعش کے خود کش حملے میں شہید ہونے والے افغان شہریوں اور فوجیوں کے درجات کو اﷲ بلند کرے۔ آمین!