تحریر : سعدیہ قریشی تاریخ اشاعت     24-04-2015

چین پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟؟

آج کل میڈیا میں چین اور پاکستان کے حوالے سے معاشی راہداری (Economic Corridor) کا بہت چرچا ہے۔ یہ اصطلاح سب سے پہلے ایشیائی ترقیاتی بینک (ADB) نے 1998ء میں استعمال کی تھی اور اس کی تعریف یوں کی تھی کہ رابطوں کا ایک ایسا نظام‘ جس میں نہ صرف ‘ ریلویز اور ہائی ویزے کے ذریعے سامان کی آمدورفت ہو بلکہ‘ مختلف معاشی سرگرمیوں کے حامل دو ملکوں‘ یا دو علاقوں کے درمیان خیالات اور لوگوں کا تبادلہ بھی۔
چین پاکستان معاشی راہداری کے میگا پراجیکٹس کے لیے‘ چین نے پاکستان میں 45ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا ہے؛ یوں اپنی پرانی دوستی کو سٹریٹجک پارٹنر شپ میں بدل دیا۔ دنیا کے سفارتی حلقوں میں ایک نئی بحث چھڑ گئی ہے کہ آخر چین اس خطے اور خصوصاً پاکستان سے کیا چاہتا ہے۔ خاص طور پر بھارت میں پاک چین معاہدوں پر خاصی تشویش پائی جاتی ہے کہ چین کا اثرو رسوخ بڑھنے سے مستقبل قریب میں خطے کا منظر نامہ کیا ہو گا۔ اسی طرح پاکستان کا 45ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر ایشین ٹائیگر بننے کا خواب دیکھنا‘ چین کی اس سٹریٹجک پارٹنر شپ پر خوشی و مسرت کا اظہار ناقابل فہم نہیں۔ ظاہر ہے سرمایہ کاری ہو گی‘ میگا پروجیکٹس کا آغاز ہوگا‘ روزگار کے مواقع بڑھیں گے۔ اسی طرح توانائی کا بحران بھی حل ہونے کے امکانات روشن نظر آنے لگے
ہیں۔ یہ الگ بحث ہے کہ کرپشن کے دیمک خوردہ اداروں‘ اصولوں‘ اور ضابطوں سے نابلد انتظامی ڈھانچے کی موجودگی میں پاکستانی عوام تک اس سرمایہ کاری کے ثمرات پہنچ بھی پائیں گے یا نہیں۔ آج کے کالم کا موضوع یہ ہے کہ چین اس سرمایہ کاری سے کیا حاصل کرنا چاہتا ہے۔ پاکستان سے اس کی ڈیمانڈ کیا ہے۔ کیونکہ مفادات کی اس دنیا میں مفت کھانا کوئی نہیں کھلاتا۔ کسی نہ کسی صورت میں قیمت ادا کرنا ہی پڑتی ہے۔ اس سوال کے جواب کے لیے ہمیں چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے حالات پر ایک نظر ڈالنا ہو گی۔ مسلم آبادی والا یہ صوبہ دنیا کی مضبوط معاشی قوت چین کے لیے مستقل درد سر ہے۔ بلکہ یہ درد سر اب شدید صورت اختیار کر رہا ہے۔ یہاں بسنے والے چینی مسلمانوں کو یغور کہا جاتا ہے۔ تقریباً دو سو سال تک سنکیانگ پر اُن کی حکومت قائم رہی۔ 1949ء میں یہ علاقہ کمیونسٹ چین کے تسلط میں آ گیا۔ اشتراکی حکومت نے چاہا کہ سنکیانگ کے یغور اپنی مسلم شناخت چھوڑ کر کمیونزم کی شناخت اپنا لیں اور بدھ مت کے طور طریقوں پر عمل کریں۔ یہیں سے سنکیانگ کے چینی مسلمانوں اور چین کی حکومت کے درمیان اختلافات کا آغاز ہوا۔ ساٹھ اور ستر کی دہائی میں‘ اس صوبے کی مسلم آبادی کو طاقت کے ساتھ دبانے کی کوشش کی گئی۔ مختلف قسم کی پابندیوں کے باعث مقامی مسلمانوں میں شدید بے چینی پیدا ہوئی۔ پہلے یغور یہاں اکثریت میں تھے مگر اب دوسرے علاقوں سے چینیوںکو یہاں لا کر آباد کیا جا رہا ہے۔ انہیں Han chineseکہا جاتا ہے۔ اس سے یہاں کی صورت حال‘ اور خراب ہوئی۔ روزگار سے لے کر ہر قسم کی معاشی سرگرمیوں میں‘ مقامی چینی مسلمانوں کے مقابلے پر باہر سے آنے
والے بدھ چینیوں کو فوقیت دی جانے لگی۔ یوں ان دونوں قوموں کے درمیان مخاصمت کا آغاز ہوا۔ ان تمام حالات کے نتیجے میں اس صوبے میں شدید سیاسی بے چینی پیدا ہوئی‘ جسے حکومت دہشت گردی کی کارروائیوں سے تعبیر کرتی ہے۔ یہ مغربی صوبہ چین کے لیے اس لیے بھی زیادہ اہم ہے کہ اس کی سرحد ایک طرف وسط ایشیائی ریاستوں قازقستان‘ ازبکستان ‘ تاجکستان سے ملتی ہے تو دوسری جانب افغانستان سے۔
افغانستان سے نیٹو فورسز کے جانے سے چین کو تشویش ہے کہ وہاں موجود طالبان اور القاعدہ زیادہ مضبوط ہوں گے‘ جس سے سنکیانگ میں بھی دہشت گردی کی کارروائیاں بڑھیں گی۔ چینی حکومت کا مؤقف ہے کہ سنکیانگ کے علیحدگی پسند چینی مسلمانوں کے القاعدہ کے ساتھ رابطے ہیں اور وہ باقاعدہ انہیں افغانستان میں دہشت گردی کی تربیت دیتے رہے ہیں۔ چین پُرعزم ہے کہ وہ سنکیانگ میں دہشت گردی اور سیاسی عدم استحکام کا خاتمہ کر کے اسے معاشی سرگرمیوں کے لیے مضبوط اور محفوظ بنائے گا۔ کیونکہ جس معاشی راہداری پر چین اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کرنے جا رہا ہے اس میں چین کے اس مغربی علاقے سنکیانگ کو بنیادی اہمیت حاصل ہے۔ اس سے پہلے شاہراہ قراقرم بھی پاکستانی علاقے سے ہوتی ہوئی سنکیانگ سے گزرتی ہے۔ اس صوبے میں امن اور سکیورٹی کے لیے چین کو پاکستان کا تعاون درکار ہے۔ چین ایک مضبوط معاشی طاقت ہے اور فی الحال وہ معاشی سرگرمیوں کے ذریعے ہی دنیا کے مختلف خطوں میں اپنا اثرورسوخ بڑھا رہا ہے۔ بلوچستان میں موجود گوادر پورٹ کے انتظامی امور 40برسوں کے لیے چین کے سپرد کر دیئے گئے ہیں۔ خلیج کے دہانے پر واقع گوادر پورٹ‘ چین کو وسط ایشیا ‘ مشرق وسطیٰ اور یورپ کے ساتھ تجارت کے مختصر آبی راستے مہیا کرے گی۔ ایسا لگتا ہے کہ چین عالمی طاقت بننے کے سفر پر گامزن ہے۔ اسی لیے اُس نے پاکستان کے ساتھ صرف سرمایہ کاری نہیں کی بلکہ سٹریٹیجک پارٹنر شپ کا آغاز کیا ہے؛ تاکہ وہ خود یہاں موجود رہ کر اس خطے کے سیاسی‘ اور معاشی حالات پر اپنا اثر ڈال سکے۔ آنے والے حالات بتائیں گے کہ پاکستان‘ چین کے ساتھ اس شراکت داری میں سے کیا حاصل کرتا ہے۔ میری نظر میں پاکستان کو ایک اور مشکل صورت حال کا سامنا ہو گا۔ اگر پاکستان نے یغور مسلمانوں کے مقابلے میں چین کا ساتھ دیا تو اسے دائیں بازو کی اسلامی جماعتوں کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اسی طرح اگر القاعدہ کی جڑیں سنکیانگ تک پھیل چکی ہیں تو ایسی صورت حال میں خود پاکستان کے لیے سکیورٹی خدشات زیادہ ہونے کے امکانات ہیں۔ یاد رہنا چاہیے کہ سکیورٹی کے بغیر‘ ترقی ممکن نہیں اور ترقی کے بغیر سکیورٹی ناممکن!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved