تحریر : نذیر ناجی تاریخ اشاعت     25-04-2015

اکیلے نہ کھانا

بات یہ ہے کہ 46ارب ڈالر کی سرمایہ کاری پر حکمرانوں کی کلب میں کھلبلی مچی ہوئی ہے۔ دلوں کی دھڑکنیں تیز ہیں۔ حکمران جماعت پر سب کی نظریں گڑی ہیں۔ اگر ساری رقم اسی کے ہاتھوں میں چلی گئی‘ تو اپنا کیا بنے گا کالیا؟ آپ کو مولانا فضل الرحمن کا سیاسی ہتھیاریاد ہو گا‘اس ہتھیار کا نام ہے ''تحفظات‘‘۔ جب حکومت کوئی پروگرام‘ منصوبہ یا سکیم پیش کرے اور اس میں مولانا کا حصہ نہ ہو‘ تو ان کا ایک بیان آیا کرتا ہے۔ ہمیں اس کے بارے میں ''تحفظات‘‘ ہیں۔ آصف زرداری تو ان تحفظات کے بارے میں اچھی طرح جانتے ہیں۔ بی بی بھی انہیں جانتی تھیں۔ مولانا جب تحفظات کا اعلان کرتے‘ تو دونوں میاں بیوی سوچنے بیٹھ جاتے تھے کہ مولانا کیا مانگنے والے ہیں۔ بی بی تو شہید ہو کر اللہ کو پیاری ہوگئیں‘ آصف زرداری تحفظات دور کرنے کے ماہر ہو چکے ہیں۔ دونوں میں اتنی بے تکلفی ہو چکی ہے کہ تحفظات کا بیان پڑھتے ہی‘ زرداری صاحب فوراً مولاناکو دعوت ملاقات دیتے اور بڑے احترام سے پوچھتے کہ حضور والا! تحفظات کیا ہیں؟ مولانا کے تحفظات ان گنت ہوتے ہیں۔ کبھی کوئی بڑا سا عہدہ۔ کبھی اہل خاندان کے لئے کوئی وزارت یا محکمہ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کی سربراہی۔ پاکستانی رواج کے مطابق ہر پارلیمانی پارٹی اپنی عددی طاقت کے مطابق ''وصولیاں‘‘ کرتی ہے‘ لیکن مولانا واحد سیاستدان ہیں‘ جن کی وصولیاں ‘ پارلیمانی طاقت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہوتی ہیں۔ بعض اوقات تو حکومت کے کولیشن پارٹنرز یہ دیکھ کر پریشان ہو جاتے ہیں کہ وہ بیس پچیس سیٹوں کے ساتھ وہ کچھ نہیں لے سکتے‘ جو مولانا چار پانچ نشستوں میں لے اڑتے ہیں۔ جس دن مولانا تحفظات کا اعلان کرتے ہیں‘ اس دن حکومت کی نیندیں اڑ جاتی ہیں۔ اعلیٰ سطحی میٹنگوں میں غور کیا جاتا ہے کہ عالی جناب کے تحفظات میں کون کونسا منصب‘ وزارت یا کسی ادارے کی سربراہی شامل ہیں؟ بعض حکومتی سربراہ ‘براہ راست لین دین کی سوچنے لگتے ہیں۔ اس معاملے میں مولانا قطعاً لحاظ نہیں کرتے۔ میں تو ایک دن یہ دیکھ کے حیران رہ گیا کہ ایک بہت بڑی دعوت‘ جس کا خرچ کروڑوں میں ہوا ہو گا‘ مولانا کی طرف سے تھی۔ میں سوچتا رہ گیا کہ کیا یہ تحفظات کی برکت ہے یا مولانا نے سارا خرچ اپنی جیب سے اٹھایا ہے؟ مولانا برا نہ منائیں۔ یہ بات وہ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولوی اپنی جیب سے سموسے پکوڑے تو کھلا سکتا ہے‘ بڑی دعوت ہمیشہ دوسروں سے کھاتا ہے اور اگر احباب کی خدمت کرنا مطلوب ہو تو وہ بھی دوسروں سے کراتا ہے۔
اسی طرح کا معاملہ موجودہ حکومت کا ساتھ دینے والی پارلیمانی جماعتوں کا ہے۔ وہ اب اپوزیشن کی اتحادی پارٹیاں نہیں ہیں۔ کھلا لین دین ہے۔ جہاں حکومت مشکل میں ہو‘ دوسری پارلیمانی پارٹیاں اپنی اپنی خدمات لے کر حکومت کے حضور پیش ہو جاتی ہیں اور اپنی خدمات بلکہ تحفظات پیش کر کے‘ ڈیل کر لیتی ہیں۔ یہ بات اراکین پارلیمنٹ ہی جانتے ہیں کہ ان کے ساتھیوں میں کس کے تحفظات کتنے ''وزنی‘‘ ہوتے ہیں؟ دھرنوں کے دنوں میں جب حکومت کے لئے خطرہ پیدا ہوا‘ تو ساری پارلیمانی جماعتوں نے اپنے اپنے تحفظات پر ڈیل کر کے‘ ایسا محیرالعقول جمہوری کارنامہ انجام دیا‘ جس کی مثال شاید ہی کہیں مل سکے۔ تمام پارلیمانی جماعتیں جو حکومت کی شدیدیا خفیف مخالف تھیں‘ سب ایکا کر کے احتجاجی تحریک والوں کے سامنے سینہ سپر ہو گئیں۔ یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا کہ ارباب اقتدار اور حزب اختلاف کے تمام اراکین بلاامتیاز حکومت کی حمایت میں کھڑے ہو گئے۔ کسی کو نہیں معلوم کہ کس کے کتنے تحفظات تھے؟ لیکن جس طرح انہوں نے اپنی مخالف سیاسی پارٹی کی حکومت کا تحفظ کیا‘ اس پر صرف ایک ہی بات کہی جا سکتی ہے کہ ہر کسی نے اپنی طاقت کے مطابق اپنا دائو لگایا۔
کل انہی مخلص اور مہربان مخالف پارلیمانی پارٹیوں نے ایک خصوصی اجلاس بلایا۔ 46کروڑ ڈالر کے چینی منصوبے‘ حکومت اکیلے اکیلے ہڑپ کر رہی تھی۔ ظاہر ہے‘ ساری پارلیمانی پارٹیاں بے چین ہو گئیں۔ اتنی بڑی رقم اور حکمران پارٹی اکیلی‘ یہ کیسے ہو سکتا تھا؟ اگر آپ گزشتہ دو سال کی بڑی بڑی ڈیلز دیکھیں‘ تو آسانی سے پتہ چل جاتا ہے کہ کس ڈیل میں کس کے تحفظات دور کئے گئے؟ کام وہ بھی چھوٹے نہیں تھے‘ لیکن 46ارب ڈالر؟ ہر کسی کے تحفظات پھول پھول کر کپُے ہو گئے ہوں گے۔ انتظار بھی مشکل تھا۔ کون جانے ‘ حکومت کب اکیلے اکیلے واردات کر جائے؟ 46 کروڑ ڈالر کی تو پہلی قسط بھی کم نہیں‘ لہٰذا برائے نام اپوزیشن کے تحفظات کی تو حدیں ختم ہو گئی ہوں گی۔ اپوزیشن پارٹیوں نے پیپلزپارٹی کی قیادت میں اعتراض کیا کہ حکومت پارلیمنٹ میں معاشی کوریڈور کے روٹ کو زیربحث لائے۔ تمام صوبوں کو فائدہ ہونا چاہیے۔ جناب آصف زرداری نے کہا: الطاف حسین میرے بھائی ہیں‘ وہ نئے اور میں پرانا سندھی ہوں‘ چین سے پاکستان پیپلزپارٹی کے دور حکومت میں کئے گئے معاہدوں کو موجودہ حکومت نے جاری رکھا ہے‘ اور
اس امید کا اظہار کیا گیا کہ مستقبل میں بھی ایسا ہی کیا جائے گا۔ پیپلزپارٹی اور اس کے اتحادیوں نے‘ پاک چین تعلقات کی زبردست حمایت کی۔ کیا آپ سمجھے کہ اس پوری مشق کا ہدف کیا ہے؟ ہدف ہے چین کا 46ارب ڈالر کا وہ منصوبہ‘ جس کے تحت اتنی بڑی سرمایہ کاری ہونے جا رہی ہے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صرف نوازشریف خاندان اتنی بڑی سرمایہ کاری سے اکیلے اکیلے مستفید ہو؟ سیدھی سی بات ہے کہ حکومت کے پارلیمانی مددگاروں کو اتنی بھاری رقم سے دور نہیں رکھا جا سکتا۔ 46ارب ڈالر معمولی رقم نہیں۔ اس پر حکومت کو سہارا دینے والے سارے اتحادیوں کا پورا پورا حق ہے۔ حکومت نے چپکے چپکے معاہدے کر کے‘ اربوں ڈالر پر اکیلے اکیلے ہاتھ مارنے کی تیاریاں کر لیں۔ یہ فائول ہے۔ پاکستان کی موجودہ حکمران کلب کسی کو چھپ چھپا کر کھانے کی اجازت نہیں دیتی۔گیس کی ڈیل ہو یا پٹرول کی بلیک مارکیٹنگ‘ سب مل کر کھاتے ہیں۔پٹرول کے ذخیرے کرنے والوں میں اپوزیشن بھی شامل ہوتی ہے اور حزب اقتدار بھی۔ملی بھگت کا یہ سمجھوتہ‘ نئی جمہوریت کی دین ہے۔ نئی جمہوریت کیا ہے؟ تمہارے پاس اقتدار ہے‘ تو ہمیں کھلائو اور ہم اقتدار میں آئیں گے‘ تو تمہیں کھلائیں گے۔ یہ گٹھ جوڑ اتنا مضبوط ہے کہ حکومت جو چاہے کرتی رہے‘ عوامی نمائندے پارلیمنٹ میں اس سے پوچھ گچھ نہیں کر سکتے۔ جتنے ٹیکس حکومت چاہے لگاتی رہے‘ پارلیمنٹ سے آواز نہیں اٹھتی۔ حکومت جب چاہے‘ بلاوجہ بجلی کے نرخوں میں اضافہ کر کے دن دیہاڑے ڈاکے مار لے‘ پارلیمنٹ میں سوال نہیں ہوتا۔ یہی صورتحال گیس کی ہے۔ عام شہریوں کو مرضی کے مطابق گیس کے بل بھیجے جاتے ہیں‘ جو بعض اوقات لاکھوں میں ہو جاتے ہیں۔ اگر کوئی اپنے سال بھر کے بل جمع کر کے‘ یہ بتانے پہنچ جائے کہ میں تو ہر مہینے بل دیتا رہا ہوں۔ مجھ پر یہ اضافی رقم کیوں ڈالی جا رہی ہے؟ محکمے کا جواب بہت دلچسپ ہوتا ہے کہ ''ہم آپ کو بل بھیجتے رہے۔ لیکن اس میں فلاں فلاں اضافی رقم شامل نہیں ہو سکی۔ آپ کے موجودہ بل میں وہ شامل کر دی گئی ہے۔ بہتر ہے کہ آپ اپنا بل ادا کر دیں۔‘‘ خدالگتی کہیے کہ دنیا میں ایسی کونسی پارلیمنٹ ہے جہاں عوام کے مسائل پر بات نہ ہوتی ہو؟یہ اعزاز صرف ہماری جمہوریت کو حاصل ہے کہ حکومت جیسے چاہے‘ عوام کی کھال کھینچتی رہے۔ پارلیمنٹ میں اسے کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا۔ لیکن جب ملک میں کوئی سرمایہ کاری ہو رہی ہو‘ تو اپوزیشن کو فوراً اپنی ذمہ داریاں یاد آ جاتی ہیں۔ ذمہ داریاں کیا ہوتی ہیں؟ کہ باہر سے جو مال آیا ہے‘ اسے اکیلے مت کھائو۔ ہمیں بھی حصہ دو۔ آنے والی چینی سرمایہ کاری پر بھی سب کی نظریں گڑی ہیں۔ تمام میٹنگوں‘ بیانات اور مطالبوں کا ایک ہی مقصد ہوتا ہے‘ اکیلے نہ کھانا۔ان دنوں بھی اپوزیشن پارٹیوں کے مضطرب اجلاسوں کا ایک ہی پیغام ہے۔ ''اکیلے نہ کھانا۔‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved