کراچی میں حلقہ این اے 246 کے انتخابی نتائج ان لوگوں کے لیے حیرت انگیز ہیں جنہیں توقع تھی کہ ایم کیو ایم کا کریاکرم ہو چکا اور یہ نشست آسانی سے تحریک انصاف یا جماعت اسلامی میں سے کوئی ایک جیت لے گی۔ مگر جنہیں ایسی کوئی خوش فہمی لاحق نہ تھی انہیں حتمی نتائج آنے پر دھچکا نہیں لگا؛ البتہ کچھ نئے حقائق منکشف ضرور ہوئے۔
دو حلیف اور ہم خیال جماعتوں‘ تحریک انصاف اور جماعت اسلامی کی طرف سے الیکشن میں حصہ لینے کا اعلان ایم کیو ایم کی پہلی کامیابی تھی۔ سخت مقابلے کی توقع کرنے والے حلقہ کے ووٹروں اور پاکستان کے عوام کو لگا کہ دونوں جماعتیں انتخاب‘ جیتنے کے جذبے سے نہیں دوسری پوزیشن حاصل کرنے کی نیت سے لڑ رہی ہیں‘ مقصد ایم کیو ایم کے امیدوار کو شکست فاش سے دوچار کرنا نہیں بلکہ ایک دوسرے کو کمتر ثابت کرنا ہے۔ اس معاملے میں دستیاب معلومات کے مطابق جماعت اسلامی کا قصور کم اور تحریک انصاف کا زیادہ ہے۔
مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی نے بیک وقت میدان چھوڑ کر یہ تاثر دیا کہ ایک تو وہ ایم کیو ایم کے مدمقابل کھڑا ہونے کی اہل نہیں‘ دوسرے انہیں اس حلقے کے ووٹروں اور کراچی کے عوام سے کوئی دلچسپی نہیں۔ پیپلز پارٹی سندھ میں حکمران ہے اور کراچی پر غلبہ کی حقیقی خواہش مند مگر اس نے امیدوار کھڑا کرنا تو درکنار کسی دوسری جماعت کے امیدوار کی حمایت کرنا بھی ضروری نہیں سمجھا؛ البتہ مسلم لیگ (ن) نے جماعت اسلامی کی حمایت کی مگر اب جماعت اسلامی کے بزرگ یہ سوچ سوچ کر ہلکان ہو رہے ہیں کہ ملنے والے دس ہزار ووٹوں میں سے مسلم لیگ ن کے کتنے ہیں؟ وہی بلّی اور گوشت کے وزن کی بحث کہ ایک کلو بلّی کا وزن ہے یا اس گوشت کا جو بلّی چٹ کر گئی۔
رینجرز کے آپریشن‘ نائن زیرو سے جرائم پیشہ افراد کی گرفتاری‘ صولت مرزا اور معظم علی کے بیانات اور کئی عشروں سے ایم کیو ایم کے دبائو کے شکار میڈیا کی طرف سے دل کھول کر تنقید کے باوجود کنور نوید جمیل کی کامیابی اس بات کا ثبوت ہے کہ اس حلقے میں ایم کیو ایم کا سیاسی اثرورسوخ کم ہوا ہے نہ کسی دوسری جماعت نے ووٹروں کے دل جیتے ہیں اور نہ رینجرز‘ حکومت یا تحریک انصاف و جماعت اسلامی یہ باور کرانے میں کامیاب رہی ہیں کہ کوئی شخص اپنی مرضی سے ووٹ دینے کے بعد کسی سیکٹر کمانڈر کے عتاب کا نشانہ نہیں بنے گا۔ ووٹروں نے تحریک انصاف کے نعروں اور جماعت اسلامی کی یقین دہانی کو محض طفل تسلی جانا۔
انتخابی نتائج نے ایم کیو ایم کا یہ پروپیگنڈا غلط ثابت کر دیا کہ رینجرز کا آپریشن اس کے خلاف ہے اور من پسند انتخابی نتائج حاصل کرنے کے لیے ڈبل سواری پر پابندی‘ کیمروں کی تنصیب اور دیگر اقدامات کئے گئے ہیں۔ الطاف بھائی آئی ایس آئی اور اسٹیبلشمنٹ پر تحریک انصاف کی پشت پناہی اور ایم کیو ایم کی مخالفت کا الزام لگاتے رہے مگر انتخابی نتائج نے نفی کر دی ورنہ اسٹیبلشمنٹ ابھی اتنی کمزور نہیں ہوئی کہ وہ ایم کیو ایم سے ایک نشست چھیننے‘ ووٹوں کی برتری کم کرنے کے قابل بھی نہ ہو۔ اسٹیبلشمنٹ کی یہ کامیابی ضرور ہے کہ اس نے کسی فریق کو حالات خراب کرنے کی اجازت دی نہ یہ شور مچانے کی کہ کسی پولنگ سٹیشن پر اس کے ووٹروں کو ہراساں کیا گیا۔
جماعت اسلامی کی حکمت عملی بہتر تھی مگر اپیل محدود۔ جماعت اسلامی کی مجلس شوریٰ کو اس حلقے کے نتائج پر سنجیدگی سے غور کرنا چاہیے کہ کہاں کہاں‘ کس کس نوعیت کی غلطی ہوئی۔ جتنے ووٹ جماعت کے امیدوار کو 2013ء میں بارہ بجے دن تک مل گئے تھے‘ وہ ڈور ٹو ڈور مہم‘ بھرپور ریاستی تحفظ اور آزادانہ ماحول میں 23 اپریل کو کیوں نہ مل سکے۔ کہیں یہ تو نہیں کہ ایم کیو ایم کا مقابلہ کرتے کرتے جماعت اسلامی کا کارکن نڈھال اور ووٹ شکستہ دل ہو چکا اور نوجوان نسل نے عمران خان کی طرف رجوع کر لیا۔
تحریک انصاف کی انتخابی مہم روز اول سے غیر سنجیدگی کا شکار رہی۔ عمران اسمٰعیل اور ان کے ساتھی قیمتی گاڑیوں میں ڈیزائنز سوٹوں اور مہنگے گلاسز کے ساتھ اس حلقے میں گشت کرتے رہے‘ جو لوئر مڈل اور مڈل کلاس پر مشتمل ہے اور ہمیشہ اپنی کلاس کے لوگوں کو منتخب کرنے کا عادی۔ ڈور ٹو ڈور مہم پر کم توجہ دی گئی‘ ہلّہ گلّہ اور شور شرابا کراچی کے سنجیدہ مزاج شہریوں کو متاثر کر سکتا تھا‘ نہ ووٹر ووٹ دینے کا فیصلہ صرف ریلیاں دیکھ کر کرتے ہیں۔ تحریک انصاف کو جتنا بھی ووٹ ملا وہ عمران خان کی کرشمہ ساز شخصیت کے طفیل ملا مگر یہ کرشمہ ساز شخصیت بھی معلوم نہیں کس کے مشورے پر کراچی پر بھرپور توجہ نہ دے سکی۔ حلقے میں آمد بھی ہوا کے جھونکے کی طرح تھی۔ بعض ناقدین کو یہ کہنے کا موقع ملا کہ خان صاحب کراچی واپسی کی فلائٹ پکڑنے کے لیے آتے ہیں‘ ورنہ وہ ہفتہ بھر نہیں تو دو چار روز قیام کر سکتے تھے۔
ٹوئٹر پیغام میں عمران خان نے کہا ہے کہ وہ حلقہ این اے 246 کے انتخابی نتائج کی روشنی میں انتخابی حلقوں پر توجہ دیں گے اور تنظیم سازی کریں گے مگر یہ بات تو خان صاحب نے 2013ء کے انتخابات کے بعد بھی کہی تھی۔ وارڈ‘ گلی‘ محلے اور گائوں کی سطح پر موثر تنظیم سازی اور کارکنوں کی سیاسی تربیت کے بغیر انتخابی کامیابی کا خواب پہلے پورا ہوا ہے‘ نہ اب ہو سکتا ہے‘ جس کا احساس خان صاحب اور ان کے ساتھی جس قدر جلد کر لیں گے‘ اتنے ہی فائدے میں رہیں گے۔
خان صاحب اور ان کے ساتھیوں نے انتخابی مہم کے دوران الفاظ کے چنائو میں احتیاط نہیں برتی جس کا فائدہ ایم کیو ایم نے اٹھایا۔ مثلاً یہ کہنے کی آخر کیا ضرورت تھی کہ ''میں آدھا مہاجر ہوں‘‘۔ یہ مہاجر کارڈ کو ایک بار پھر زندہ کرنے کے مترادف تھا‘ جو ایم کیو ایم نے بھرپور طریقے اور مہارت سے کھیلا۔ لوگ آخر آدھے مہاجر کے بجائے پورے مہاجر اور مہاجروں کے حقوق کے علمبردار کی بات زیادہ توجہ سے کیوں نہ سنیں اور یہ بات کیسے مان لیں کہ وہ غلام ہیں اور عمران خان انہیں ان لوگوں کے ساتھ مل کر آزادی دلا سکتے ہیں‘ جو انتخابی مہم سے پہلے یہاں کبھی نظر آئے نہ شاید آئندہ نظر آئیں۔
تحریک انصاف نے سولو فلائٹ کا نقصان 2013ء میں اٹھایا اور اب 2015ء میں بھی‘ مگر ابھی تک یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ مسلم لیگ ن اور ایم کیو ایم جیسی جماعتوں کا مقابلہ صرف جنون سے نہیں حکمت عملی‘ منصوبہ بندی اور ہم خیال جماعتوں کے تعاون سے ممکن ہے‘ ایک غیر منظم اور سیاسی جوڑ توڑ کی صلاحیت سے عاری ہجوم کے بل بوتے پر نہیں۔ اگر تحریک انصاف واقعی ایم کیو ایم یا جماعت اسلامی کی طرح ملک کی واحد منظم جماعت ہوتی تو وہ اکیلے معرکہ مار سکتی تھی مگر جب بار بار یہ واضح ہو رہا ہے کہ چند ایک کے سوا عمران خان کے باقی ساتھی 'نگہ بلند‘ سخن دلنواز‘ جاں پُرسوز‘ کے وصف سے عاری اور خان صاحب کی مقبولیت و محنت پر انحصار کرنے کے عادی ہیں تو پھر انہیں اپنے انداز فکر کو تبدیل کرنا چاہیے اور اپنے ہم خیال افراد اور جماعتوں کے لیے بازو اور دل کشادہ کر لینے چاہئیں۔ جمعیت علماء پاکستان‘ سنی تحریک‘ مجلس وحدت المسلمین کی طرح جماعت اسلامی سے اتحاد بہتر نہ تھا‘ جس سے مقابلے کی فضا بن جاتی؟
ایک سبق‘ ایم کیو ایم کے لیے بھی ہے کہ جب وہ سرکاری مشینری‘ ٹھپہ مافیا‘ دھونس دھاندلی کے بغیر بھی الیکشن جیت سکتی ہے تو اپنی صفوں میں موجود بھتہ خوروں‘ جرائم پیشہ اور بدنام زمانہ افراد سے نجات حاصل کیوں نہیں کرتی اور ہر بار اپنی کامیابی کے دودھ میں مینگنیاں کیوں ڈالتی ہے۔ کیوں نہ وہ ایک پُرامن‘ مقبول سیاسی جماعت کے طور پر اپنا تشخص اور اخلاقی ساکھ بحال کرے اور مخالفین کو ٹف ٹائم دے۔
ایم کیو ایم اور الطاف بھائی انتخابی کامیابی کو آپریشن کے بالمقابل اپنی فتح قرار دیں گے اور آپریشن کے خلاف پروپیگنڈا مہم مزید تیز کریں گے۔ ممکن ہے اندرون سندھ ممکنہ آپریشن سے خائف دیگر سیاسی عناصر بھی ان کی ہاں میں ہاں ملائیں‘ تاکہ آپریشن کے خلاف شکوک و شبہات میں اضافہ ہو اور ان کے سر سے بلا ٹل جائے اس لیے وفاقی حکومت‘ پاک فوج اور رینجرز کو قبل از وقت کوئی حکمت عملی تیار کرنی چاہیے اور آپریشن بلاامتیاز و تفریق بھرپور طریقے سے جاری رکھنا چاہیے تاکہ غلط فہمیوں کا ازالہ ہو۔
یہ ایک حلقے کا الیکشن تھا مگر ملک کی تمام بڑی سیاسی جماعتوں اور کراچی میں روشنیوں کی بحالی کے خواہش مند حلقوں کے لیے کئی سبق پوشیدہ ہیں جس میں سے سب سے اہم یہ ہے کہ الیکشن کمشن موجودہ ہیئت ترکیبی میں اپنے طور پر آزادانہ‘ منصفانہ اور شفاف انتخابات کرانے کی اہلیت و صلاحیت نہیں رکھتا‘ اس کی اوورہالنگ از بس ضروری ہے۔ نیز پولیس و انتظامیہ میں گھسے سیاسی جماعتوں کے کارندوں کی تطہیر بھی وقت کا تقاضا ہے‘ جو انتخابی مشینری کا حصہ بن کر اپنے اصل آقائوں کے مفادات کا تحفظ کرتے ہیں اور ہر بار فوج اور رینجرز کو آواز دینی پڑتی ہے۔ یہ تماشہ اب ختم ہونا چاہیے۔