تحریر : عرفان حسین تاریخ اشاعت     25-04-2015

آزادی خطرے میں ہے!

بیسویںصدی کے دوسرے نصف میں جس تصور نے دنیا کو اپنی گرفت میں لے لیا وہ یہ تھا کہ جمہوریت اور اس کے ساتھ جڑی ہوئی آزاد تجارت لبرل معاشروں اور اقوام کے درمیان امن قائم کر دے گی۔ اس تصور کی اہم ترین مثال امریکہ تھی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ پچاس اور ساٹھ کی دہائی میں ایسا لگتا تھا کہ امریکہ ہی وہ مثالی دنیا ہے جس کے لیے ''Promised Land‘‘ کی اصطلاح استعمال کی گئی۔ باقی دنیا کے لیے ہالی وڈ فلموں نے امریکی سرزمین کے بارے میں ایسی منظر کشی کی جیسے بڑی بڑی گاڑیاںچلانا اور کھلے گھروں میں رہنا ہر امریکی شہری کا پیدائشی حق ہو‘ لیکن ویت نام جنگ کے دوران یہ چمک قدرے ماند پڑ گئی۔ امریکی ڈریم نے بیرونی دنیا کے لاکھوں افراد کے تصوارت پر گرفت جمائے رکھی اور وہ امریکہ کی طرف ہجرت کرتے دکھائی دیے۔ باقی دنیا کو بتایا گیا کہ اگر ہم بھی جمہوریت اور سرمایہ دارانہ نظام اپنا لیں تو ہر گیراج میں کار اور ہر پلیٹ میں چکن ہو گا۔ جب ربع صدی پہلے سوویت یونین کا شیرازہ بکھرا تو اسے کمیونزم پر امریکہ کی حتمی فتح قرار دیا گیا۔ فرانسس فیکویاما (Francis Fukuyama)... بیسویں صدی کا مشہور امریکی سیاسی مدبر... نے واشگاف انداز میں تاریخ کے اختتامی سفر کی نوید سنا دی تھی۔ خوشی اور جوش کے مختصر سے دورانیے میں ہم نے سوچا کہ سرد جنگ کے اختتام کے بعد امن اور خوشحالی کا نہ ختم ہونے والا دور شروع ہونے والا ہے‘ لیکن جب پردہ اٹھا تو نئی دنیا بڑھتی ہوئی قوم پرستی، مذہبی انتہا پسندی اور دہشت گردی کے کانٹوں سے لہولہان تھی۔ اس انتہا پسندی کو کبھی آمر حکمرانوں، جن کا جھکائو دو سپر پاورز (امریکہ یا سوویت یونین) میں کسی ایک کی طرف ہوتا تھا، نے دبا کر رکھا ہوا تھا‘ لیکن اُن کے منظر سے ہٹتے ہی یہ جن بوتل سے آزاد ہو گیا۔ اب یہ ایک آزاد کردہ خون آشام درندے کی طرح دنیا کو بے رحمی سے بھنبھوڑ رہا ہے۔ خدشہ ہے کہ اس کے پنجے دنیا کے حصے بخرے کر دیں گے۔
آج کی دنیا میں پہلے سے کہیں زیادہ فعال جمہوریتیں ہیں اور یہ سب کی سب عالمی معیشت کا حصہ ہیں۔ روس کی مثال لے لیں۔ اس کے آہنی رہنما، مسٹر پیوٹن، نے فری مارکیٹ اور سرمایہ دارانہ نظام کو اپنا کر روسیوں کو غیر معمولی خوشحالی سے مستفید کیا‘ اگرچہ اس میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمت کا بھی ہاتھ تھا اور آج کل تیل کی قیمت کم ہونے کی وجہ سے روسیوں کو پھر مشکلات کا سامنا ہے، لیکن سخت گیر آمر ہونے کے باوجود پیوٹن ابھی تک ایک مقبول رہنما ہیں۔ جمہوریت کی دوسری مثال ترکی ہے‘ جو فروغ پاتی ہوئی آزاد معیشت رکھتا ہے؛ تاہم اس پر ایک آمرانہ مزاج کے صدر، مسٹر اردوان، کی حکومت ہے۔ آمرانہ رویوں کے باوجود وہ ملک میں بہت مقبول ہیں اور طویل عرصے سے انتخابات میں بھاری کامیابی حاصل کر رہے ہیں۔
سری لنکا کے مہندا راجا پاکسی ایک اور مثال ہیں‘ جنہوں نے جمہوری قدروں کو بالائے طاق رکھتے ہوئے آمرانہ طرز حکومت اختیار کیا اور بہت مقبول ہوئے۔ اگرچہ وہ گزشتہ انتخابات میں شکست سے دوچار ہوئے، لیکن اس شکست میں ان کی طرف سے اندازے کی غلطی، ستاروں پر ضرورت سے زیادہ بھروسہ اور کچھ غیر ضروری اعتماد کا عمل دخل تھا۔ ان کی مقبولیت اپنی جگہ پر برقرار ہے۔ دراصل اُنہوں نے قبل از وقت انتخابات کا اعلان کر دیا اور ان کے خلاف بھارتی پشت پناہی سے بننے والا اتحاد غیر معمولی طور پر فعال ہو گیا، اس سے سری لنکن صدر کو شکست سے دوچار ہونا پڑا۔ اس کے باوجود راجا پاکسی سنہالی آبادی میں بہت مقبول ہیں۔ تامل اور مسلمان اقلیتوں نے ان کے مخالف امیدواروں کو ووٹ دیے لیکن راجا پاکسی مقبول ووٹ کا 47 فیصد حاصل کرنے میں کامیاب رہے۔ اگلے عام انتخابات میں سابق صدر کے پاس دوبارہ اقتدار حاصل کرنے کا موقع ہے۔
اب سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان آمرانہ رویوں کے حامل رہنمائوں کی مقبولیت کی کس طرح وضاحت کی جائے؟ انسانی حقوق اور شخصی آزادی کی پامالی کے باوجود وہ بدستور انتخابات میںکامیابی حاصل کرتے رہے ہیں۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ ان کے ووٹرز اقتدار پر کسی طاقتور شخص کو دیکھنا چاہتے تھے جو امن و امان قائم کرے‘ چاہے اس کے لیے غیر آئینی طریقے ہی کیوں نہ استعمال کرنا پڑیں؟ ایک اور وجہ یہ ہے کہ عوام کی اکثریت تعلیم یافتہ، لبرل اور انسانی حقوق کے علم برداروں کو دل سے پسند نہیں کرتی۔ ''ہارپرز میگزین‘‘ میں شائع ہونے والے اپنے مضمون، ''Under Western Eyes‘‘ میں جان گرے لکھتے ہیں: ''ابتدائی نسل کے لبرل مفکرین کا خیال تھا کہ جمہوریت بھی جبر کا ہی ایک ذریعہ ہو سکتی ہے۔ بنجمن کونسٹنٹ (Benjamin Constant) سے لے کر الیکسز ڈی ٹوکیویل (Alexis de Tocqueville)اور جان سٹیورٹ ملز سے لے کر ایسائیہ برلن (Isaiah Berlin) تک، سب مفکرین کا خیال تھا کہ ضروری نہیں کہ جمہوریت شخصی آزادی کا تحفظ کرے۔ جب معاشرے کے اکثریتی دھڑے لبرل اقدار کے خلاف ہو جائیں یا اُنہیں ان سے کوئی سروکار نہ رہے تو آئینی اور قانونی تحفظ کے پاس کوئی طاقت نہیں رہتی۔ زیادہ تر انسان، اکثر اوقات آزادی سے زیادہ دیگر چیزوں کی پروا کرتے ہیں۔ اگر کوئی آمر بھی ان چیزوں کی فراہمی کا وعدہ کرے، جان و مال کو تحفظ دے تو لوگ اُسے ووٹ دیں گے۔ ایسا کرتے ہوئے وہ اپنی آزادی کو ترجیح نہیں دیں گے۔ ‘‘
ہو سکتا ہے کہ کچھ لبرل افراد یہ تسلیم کر لیں کہ مخصوص طبقوں کے خلاف مخصوص حالات میں جمہوریت کو جبر کے آلے کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔ امریکہ میں جمہوریت کے علمبرداروں نے Patriot Act بنا کر شخصی حقوق کو معطل کر دیا۔ نائن الیون کے بعد سے اسلامی انتہا پسندی کا ہوّا کھڑا کر کے شہری آزادیوں کو سلب کیا گیا اور ایسے سخت قوانین بنائے گئے جن کا تصور صرف ایک پولیس سٹیٹ میں ہی کیا جا سکتا ہے۔ ترکی میں اناطولیہ کا ایک قدامت پسند باشندہ مسٹر اردوان کی اس لیے حمایت کرتا ہے کہ انہوں نے سیکولر قوانین کا خاتمہ کرتے ہوئے مغربی ذہنیت رکھنے والی اُس اشرافیہ کو سائیڈ لائن کر دیا‘ جو کئی عشروں سے ترکی پر حکومت کر رہی تھی۔ سیکولر اخبار نہایت صفائی سے بند کر دیے گئے؛ یہ الگ بات ہے کہ سیکولرازم بھی انسانی حقوق کی مطلق ضمانت نہیں دیتا۔ گزشتہ صدی کا بدترین تشدد نازی اور کمیونسٹ حکومتوں کی طرف سے دیکھنے میں آیا اور یہ دونوں نظریات کے اعتبار سے سیکولر تھیں؛ چنانچہ اس وقت شخصی آزادی کی ضمانت دینے والی کوئی جادو کی چھڑی موجود نہیں۔ ہمیں اس کا تحفظ کرنے کے لیے مضبوط عزم اور پختہ ارادے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved