تحریر : ایم ابراہیم خان تاریخ اشاعت     25-04-2015

چھوٹے دِماغ کے لوگ

فی زمانہ تعلیم پر کم اور تعلیمی اُمور سے متعلق تحقیق پر زیادہ توجہ دی جارہی ہے۔ نئی نسل کو بہتر تعلیم دینے کے بجائے اُنہیں تعلیم دینے کے نئے طریقوں پر زیادہ غور ہو رہا ہے۔ کام سے بچنے کا یہ بھی ایک موثر طریقہ ہے! اِس صورت حال نے تعلیم کے شعبے کو طرح طرح کی کمزوریوں سے دوچار کردیا ہے۔ ہمارے ہاں اب تک تعلیم کے نام پر جو کچھ ہو رہا ہے اُس کے نتیجے میں تعلیم کا تو کچھ سُراغ نہیں مِل رہا، ہاں تحقیق جہاں تہاں دکھائی دیتی ہے۔
برطانیہ کے معروف جریدے ''نیچر نیورو سائنس‘‘ نے ایک حالیہ تحقیق کی روشنی میں بتایا ہے کہ ماحول کا فرق بچوں کی تعلیمی صلاحیتوں پر غیر معمولی حد تک اثر انداز ہوتا ہے۔ آپ سوچیں گے یہ بات تو آپ بھی جانتے ہیں۔ پھر اِس میں نیا کیا ہے؟ ماہرین نے بتایا ہے کہ جن گھرانوں میں بچوں کو اچھا کھانے کو ملتا ہے اور والدین تعلیمی اُمور کا خیال رکھتے ہیں اُن گھرانوں کے بچوں کو بہت کچھ تیزی سے سیکھنے کا موقع ملتا ہے۔ دوسری طرف کمزور مالی حیثیت اور منتشر سماجی ماحول والے گھرانوں میں والدین بچوں کی نشو و نما پر توجہ نہیں دے پاتے اور اُن کی تعلیمی ضرورتیں کسی طور پوری نہیں کر پاتے۔ ایسے میں امیر اور غریب گھرانوں کا فرق نمایاں ہوتا جاتا ہے۔ آپ پھر سوچیں گے‘ اِس میں بھی کچھ انوکھا نہیں۔ ایسا تو ہوتا ہی ہے۔
ماہرین نے 2 سے 20 سال کی عمر کے ایک ہزار سے زائد طلباء کے ایم آر آئی اسکینز کی مدد سے ثابت کیا ہے کہ غریب گھرانوں کے بچوں کے دِماغ چھوٹے رہ جاتے ہیں! اُن کے دِماغوں میں اُن حصوں کا فروغ ممکن نہیں ہو پاتا جن کا تعلق زبان اور مختلف ہُنر سیکھنے سے ہے۔ ایسے بچوں کا دِماغ مسائل حل کرنے کے حوالے سے بھی مشکلات محسوس کرتا ہے۔ کمزور مالی حیثیت اور کمزور تر سماجی حیثیت والے گھرانوں کے بچوں میں اعتماد کی کمی اِس قدر ہوتی ہے کہ وہ علم کے حصول کی بھرپور لگن کا مظاہرہ بھی نہیں کر پاتے۔
مرزا تنقید بیگ کو تعلیم سے متعلق تحقیق بہت بُری لگتی ہے۔ اِس کا ایک سبب یہ ہے کہ اُن کی اپنی تعلیم کچھ اِس طرح ادھوری رہ گئی ہے کہ اب اگر کوئی آئینہ دکھائے تو اُن کے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے۔ اُن کے گھر کا ماحول ایسا تھا ہی نہیں کہ وہ ڈھنگ سے پڑھ پاتے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ جیسے تیسے دسویں تک تعلیم پانے کے بعد اُنہوں نے نظامِ تعلیم کو بخش دیا۔ وہ سرکاری اساتذہ کی صلاحیتوں کا اِس سے زیادہ امتحان لینے کے حق میں نہ تھے۔
اب مرزا جب کبھی تعلیم سے متعلق تحقیق کے نتائج پڑھتے ہیں تو اپنی ''لاعلمی‘‘ کا ماتم کرتے ہوئے حیرت کے دریا میں غرق ہوجاتے ہیں اور کہتے ہیں : ''تعلیم کے بارے میں جتنے بھی نظریات ماہرین نے پال رکھے ہیں اُنہیں پاکستانی قوم نے یکسر غلط ثابت کردیا ہے۔ دُنیا بھر میں تعلیم کے ماہرین اِس نُکتے پر زور دیتے ہیں کہ اچھی تعلیم کے لیے بچے کو اچھا ماحول فراہم کیا جائے‘ یعنی کمزور ماحول سے بچہ پڑھ نہیں پاتا۔ ہمارے ہاں معاملہ اِس کے برعکس ہے۔ یہاں تو غریب کا بچہ ہی پڑھتا ہے۔ بڑے گھرانوں کے بچے انگریزی کے چند جملوں کے ذریعے رعب جھاڑنے تک محدود رہتے ہیں۔ پاکستان میں آج جو سینئرز ہر شعبے میں غیر معمولی کارنامے انجام دے رہے ہیں وہ سرکاری اسکولوں سے نکلے ہوئے ہیں۔‘‘
جب ہم نے دُنیا بھر میں تعلیم کے حوالے سے جدید ترین تحقیق کی طرف توجہ دلائی اور بتایا کہ اب تحقیق کی روشنی میں بچوں کو مستقبل کے لیے تیار کیا جاتا ہے تو مرزا نے کہا : ''دنیا والوں کا جو بھی معاملہ ہے وہ کچھ اُنہی کو پتا ہوگا۔ ہم تو اپنی جانتے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشروں میں تعلیمی تحقیق کے سارے اُصول آن کی آن میں دُھول چاٹنے لگتے ہیں۔ یہاں تو غریب کا بچہ ہی ڈھنگ سے پڑھ کر کچھ لیاقت پیدا کرتا ہے اور معاشرے کے کام آتا ہے۔ آج بھی معاشرے میں محنت و مشقت کے جتنے بھی کام ہیں وہ غریب کے بچے ہی کرتے ہیں۔ نام نہاد بڑے گھرانوں کے بچے جیسے تیسے ڈگری لے کر خاندانی مراسم کی بنیاد پر کوئی بھی بڑا منصب ہتھیالیتے ہیں۔ کسی منصب پر بیٹھنے سے معاشرہ نہیں چلتا۔ معاشرہ تو محنت کشوں اور ہُنر مندوں کی بدولت ہی چلتا ہے اور محنت کش غریب گھروں سے آتے ہیں۔‘‘
مرزا سے یہ بات بھی ہضم نہیں ہو پائی کہ غریب گھرانوں کے بچوں کا دماغ چھوٹا رہ جاتا ہے۔ وہ یہ بات ماننے کے لیے بھی تیار نہیں کہ کمزور مالی حیثیت اور کمزور تر تعلیمی پس منظر والے گھرانوں کے بچے مہارتیں سیکھنے اور مسائل حل کرنے کے معاملے میں پیچھے رہ جاتے ہیں۔ مرزا کا استدلال یہ ہے کہ حالات اِنسان کو بہت کچھ سکھاتے ہیں اور مشکلات میں گِھر کر تو غریب کا بچہ زیادہ محنت کرتا ہے اور ''جُگاڑ‘‘ کی تلاش میں اُس کا ذہن خوب چلتا، بلکہ دوڑتا رہتا ہے! یعنی غریب کا بچہ کسی نہ کسی طور مسائل کا حل تلاش کرکے ہی دم لیتا ہے۔ دوسری طرف بڑے اسکولوں کے بچے انگریزی بولنے کی صلاحیت سے آگے نہیں بڑھ پاتے۔ ہُنر مند ہونا اِن بچوں کے بس کی بات نہیں۔ مرزا کے خیال میں ماہرین کی بات درست مان لی جائے تب بھی بڑے، خوش حال اور تعلیم یافتہ گھرانوں کے بچوں کا دِماغ بڑا ضرور ہوتا ہے مگر اِس بڑے دِماغ میں کام کی چیزیں کم ہی پائی جاتی ہیں۔ مرزا کی نظر میں ایسا بڑا دِماغ کسی کام کا نہیں ہوتا جسے ڈھنگ سے بروئے کار لانا ممکن نہ ہو! وہ تو غریب کے دِماغ کو سلام کرتے ہیں جو، بقول ماہرین، چھوٹا رہ جانے پر بھی دُنیا کو کچھ دے تو رہا ہے۔ ع
دیکھ، چھوٹے کو ہے اللہ بڑائی دیتا!
ماہرین کی تحقیق اپنی جگہ اور مرزا کی رائے اپنی جگہ۔ ہوسکتا ہے کہ ماہرین کی بات بھی درست ہی ہو مگر جو کچھ مرزا کہہ رہے ہیں اُس کا جواب نہیں۔ آج بھی غریب کا بچہ اپنے چھوٹے دِماغ کے ساتھ ہی اِس دُنیا کو چلا رہا ہے۔ نام نہاد بڑے اور خوش حال گھرانوں کے بچے اداکاری سے بلند نہیں ہو پاتے۔ جب ہُنر مندی کی بات آتی ہے تو تان غریب کے بچے پر ٹوٹتی ہے۔ اِس معاملے میں مرزا اپنی مثال دیتے بھی نہیں تھکتے۔ اُنہوں نے دسویں تک تعلیم پائی مگر معمولی سی سرکاری نوکری کے ساتھ ساتھ چند ہُنر سیکھ کر زندگی بھر اچھا کمایا ہے۔ مرزا جیسے لوگ زندگی بھر کچھ نہ کچھ کرکے یہ ثابت کرتے رہتے ہیں کہ چھوٹے یا بڑے دِماغ سے کچھ نہیں ہوتا۔ اصل چیز ہے کام کرنے کی لگن، کچھ حاصل کرنے کا جذبہ۔ جس میں یہ جذبہ زندہ ہے اُس کا دِماغ چھوٹا ہوتے ہوئے بھی بڑا ہے۔ اور جو کچھ نہیں کرتا وہ اپنے بڑے دِماغ کو چھوٹا ثابت کرتا رہتا ہے۔ عملی زندگی کے مظاہر پر نظر دوڑائی جائے تو تعلیمی ماہرین کی تحقیق پر فاتحہ پڑھنے کے سِوا کوئی آپشن نہیں بچتا!
ہم مرزا کے احسان مند ہیں کہ اِس بار اُنہوں نے ماہرین کو ''خراجِ عقیدت‘‘ پیش کرتے ہوئے ہمیں بخش دیا۔ اگر وہ اپنے دِماغی بڑپّن کا مظاہرہ کرتے ہوئے کالم نگاری اور دِماغ کے حجم کے درمیان تعلق پر بحث چھیڑ دیتے تو ہمیں مُنہ چُھپاتے ہی بنتی!

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved