''Why we are sending attack helicoptors to Pakistan''... ''امریکہ پاکستان کو اسلحہ نہ بیچے کیونکہ اس سے جنوبی ایشیا میں تصادم بڑھے گا اور پاکستان کو دیا جانے والا یہ اسلحہ شدت پسندوں کے خلاف کم اور پاکستان کے دشمنوں کے خلاف زیا دہ استعمال ہو گا‘‘۔ یہ الفاط سامنے آتے ہی آپ کے ذہن میں بھارتی حکومت کا وہی پچاس سالوں کا رٹا رٹایا فقرہ آ گیا ہو گا جو وہ پاکستان کو ملنے والی ایک بندوق پر بھی بار بار دہرایا کرتی ہے‘ لیکن اس دفعہ آپ سب مغالطہ کھا گئے ہیں کیونکہ یہ الفاظ اور احتجاج کسی بھارتی نے نہیں بلکہ آصف علی زرداری کی قیادت میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں 3اپریل 2008ء کو امریکہ میں پاکستان کیلئے مقرر کئے جانے والے سفیر‘ حسین حقانی کے ہیں۔ وال سٹریٹ جرنل میں لکھے گئے ان کے مضمون کی لفاظی حیران کن تو ہے ہی ساتھ ہی‘ اس میں امریکہ اور مغربی دنیا کو پاکستان کے خلاف جس طرح اکسایا گیا‘ وہ انتہائی گھٹیا اور شرمناک ہے۔ سنا ہے کہ بھارتی وزارت خارجہ و دفاع کی جانب سے پاکستان کو امریکی اسلحہ سپلائی کرنے کی خبر سننے کے بعد حسین حقانی آپے سے باہر ہو کر امریکی انتظامیہ اور پاکستان کو بوسٹن میں اپنے لیکچر کے دوران ہی بے نقط سنانے لگ گئے۔ جب اس پر بھی ان کے دل کی بھڑاس نہ نکلی تو انہوں نے وال سٹریٹ جرنل میں میمو گیٹ طرز کا ہی ایک اور مضمون لکھ مارا۔ آپ یہ سن کر حیران ہوں گے کہ اس مضمون میں امریکی صدر اوباما اور امریکی انتظامیہ کو لتاڑے ہوئے حسین حقانی نے لکھا: ''ہم پاکستان
کو ایک ارب ڈالر کا یہ جدیداور تباہ کن اسلحہ کیوں سپلائی کرنے جا رہے ہیں۔۔۔یاد رکھیں کہ اس اسلحہ میں جو ہیلی کاپٹر پاکستان کو دیئے جا رہے ہیں وہ ایران کی سرحد پر بلوچ لبریشن آرمی اور کشمیر میں بھارت کے خلاف استعمال ہوں گے‘ اس لئے ہمیں چاہئے کہ پاکستان کو اس اسلحہ کی سپلائی فوری طور پر روک دیں‘‘ کیا بلوچستان میں آئے روز درجنوں معصوم غریب مزدوروں کو قتل کرنے والے دہشت گرد حقانی کو بہت پیارے ہیں جو انہیں یہ سوچ سوچ کر دکھ ہو رہا ہے اور تکلیف پہنچنا شروع ہو گئی ہے کہ یہ ان کے خلاف استعمال ہو ں گے اور وہ مارے جائیں گے؟ حسین حقانی صاحب کا بلوچستان کے بے گناہوں کو قتل کرنے والے ان دہشت گردوں سے کیا رشتہ ہے؟ اپنے اس مضمون میں انہوں نے بار بار ''ہم‘‘ کا لفظ استعمال کیا ہے‘ جس سے یہ تاثر ابھرتا ہے کہ حسین حقانی پاکستانی نہیں بلکہ امریکی شہری ہیں اور یہ اسلحہ کوئی اور نہیں بلکہ وہ دے رہے ہیں۔ سوچیے کیا یہ وہی زبان اور الفاظ نہیں جو پنڈت نہرو سے شاستری تک‘ اندرگاندھی سے واجپائی تک اور پھر من موہن سنگھ سے نریندر مودی تک ہر بھارتی وزیر اعظم امریکہ یا دنیا کے کسی بھی ملک سے پاکستان کو ملنے والے اسلحہ کی خبر سننے کے بعد استعمال کرتے چلے آ رہے ہیں؟۔ آج سے تین سال قبل بھی انہی حسین حقانی نے وال سٹریٹ جرنل میں منظور اعجاز نامی ایک شخص
کے ریفرنس سے اور امریکی فوج کے چیئر مین جائنٹ چیفس آف سٹاف ایڈ مرل مائک ملن کے حوالے سے مشہور زمانہ میمو گیٹ آرٹیکل لکھا تھا۔ اب محسوس ہوتا ہے کہ اس آرٹیکل کے ایک کردار انہی حسین حقانی کے بارے میں اس وقت کے آئی ایس آئی چیف جنرل شجاع پاشا نے جو کہا تھا‘ سچ تھااور سچ کے سوا کچھ نہیں تھا‘ لیکن ہمارے ملک کے میڈیا کا ایک حصہ اور پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والا ایک طبقہ اسے جھوٹ اور اس وقت کے صدر آصف علی زرداری کے خلاف میڈیا مہم قرار دیتا رہا۔ وال سٹریٹ جرنل میں تین سال قبل ایڈ مرل مائیک ملن کے نام لکھے گئے اس مضمون میں حسین حقانی صاحب نے امریکہ سے درخواست کی تھی کہ وہ پاکستان کی فوج میں ایسی تبدیلیاں لانے کی کوشش کرے جو پاکستان میں جمہوریت کو فروغ دینے میں معاون ثابت ہوں اور میمو گیٹ کے ذریعے امریکہ سے مدد مانگی گئی تھی کہ وہ اپنے ذرائع سے اس وقت کی پاکستانی فوجی قیا دت کو فوری طور پر فارغ کرنے کے اقدامات کرے اور جمہوریت پسند جرنیل سامنے لائے ۔ جب میمو گیٹ کے حقائق سامنے آنا شروع ہوئے تو اس وقت حسین حقانی اور ان کے ہمدردوں کا ایک گروہ مسلسل ان کا دفاع کرتا رہا اور ان کا ہمنوا میڈیا حقانی صاحب کی حمایت میں ملک کی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی اور مسلح افواج کے خلاف لٹھ لئے میدان میں کود پڑا ۔بھارت کے تعاون اور مالی امداد کے ذریعے قائم کی جانے والی ایک میڈیا ٹیم نے حسین حقانی کو پاکستان کا سب سے بڑا محب وطن قرار دینے میں دن رات ایک کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ میمو گیٹ کی سچائی میڈیا گروپ کی اڑائی گئی گرد میں گھٹ کر رہ گئی اور حسین حقانی اور ان کا حامی گروپ دور کھڑا افواج پاکستان کی شرمندگی اور بے بسی پر ہنستا رہا۔ وال سٹریٹ جرنل میں حسین حقانی کا تازہ مضمون دیکھنے کے بعد ان کے اور پاکستان میں موجود ان کے ہمدردوں کے پس پردہ دوستوں کے چہروں سے بھی نقاب اٹھ گیا ہے۔ حسین حقانی لکھتے ہیں کہ مئی2011ء میں ایبٹ آباد میں اسامہ بن لادن کے خلاف نیوی سیل کے آپریشن کے بعد بھی کیا پاکستان اعتبار کے قابل سمجھا جا سکتا ہے؟ حقانی صاحب کے الفاظ ملاحظہ کریں ''ایک ارب ڈالر کا جو اسلحہ پاکستان کو دیا جا رہا ہے‘ یہ دہشت گردوں کے خلاف استعمال ہونے کی بجائے پاک ایران سرحد پر عسکریت پسندوں اور بھارت کے خلاف استعمال ہو گا‘‘۔ اپنے اس مضمون میں امریکہ کی جانب سے پاکستان کو ہیلی کاپٹر اور دوسرے اسلحے کی فروخت کے خلاف تحریک چلانے کا اعلان کرتے ہوئے حسین حقانی صاحب نے کس کو خوش کیا ہے‘ یہ بتانے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کہتے ہیں کہ سانپ کا سر آغاز میں ہی کچل دینا چاہئے لیکن میمو گیٹ کے سانپ کے خلاف کھڑے ہونے والے جنرل پاشا کو ہمارے میڈیا نے اس طرح مجرم بناکر پیش کیا کہ پھن کچلنے والا ہاتھ حرکت میں ہی نہ آ سکا۔ بالکل درست کہاوت ہے کہ اصلیت کبھی چھپی نہیں رہ سکتی۔ اپنے چہرے پر جس طرح کے چاہیں اور جتنے چاہیں نقاب اور لبادے اوڑھ لیں‘ اصل صورت سامنے آ کر رہتی ہے‘ اسے روکا نہیں جا سکتا‘ ہاں کچھ دیر کیلئے ٹالا ضرور جا سکتا ہے۔
پاکستان کی بد قسمتی یہ تھی کہ جب میمو گیٹ سامنے آیا تو حسین حقانی اس وقت امریکہ میں پاکستان کے سفیر کی حیثیت سے پیپلز پارٹی کے لیے خدمات انجام دے رہے تھے جبکہ ان کی بیگم پاکستان کی قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کی رکن تھیں اور جب میمو گیٹ کی سپریم کورٹ میں سماعت کے دوران حسین حقانی پاکستان پہنچے تو انہیں ایوان صدر اور وزیر اعظم ہائوس کے اندر شاہی پروٹوکول کے ساتھ پناہ دی گئی لیکن اس وقت وال سٹریٹ جرنل کے لیے اسلام آباد سے حقانی کا جو انٹر ویو بھیجا گیا اس میں لکھا تھا: ''حقانی اسلام آبادمیں اپنی رہائش گاہ پر نظر بند ہیں‘‘ ۔آج ایک بار پھر حسین حقانی صاحب نے جو الفاظ استعمال کیے ہیں‘ وہ ایسے لگ رہے ہیں جیسے راشٹریہ سیوک سنگھ اور وشوا ہندو پریشد کے منشور سے لئے گئے ہیں‘ جن میں پاکستان کے خلاف نفرت کے سوا کچھ بھی نہیں۔ جنرل پاشا نے حسین حقانی کے خلاف جو کہا‘ سچ کہا تھا!!