تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     26-04-2015

کراچی کا الیکشن‘ بلی کا وزن اور دو کلو گوشت

چودھری بھکن کل بڑے عرصے بعد ملا۔ کہنے لگا کراچی کے الیکشن نے سائنس کا فارمولا غلط ثابت کردیا ہے اور صدیوں پرانے تصور کی ہوا نکال دی ہے۔ میں نے پوچھا کہ کون سا سائنسی فارمولا؟ اور پھر سائنسی فارمولے کا کراچی کے الیکشن سے کیا تعلق ہے؟ چودھری کہنے لگا ''آپ لوگ غور و فکر نہیں کرتے۔ سائنس کی آفاقی قدروں پر یقین نہیں رکھتے۔ چیزوں کو لگی بندھی روٹین سے ہٹ کر نہیں دیکھتے۔ اسی لیے آپ لوگوں پر سائنس کے نئے افق نہیں کھلتے۔ سائنس کا بہت پرانا تصور ہے کہ انرجی ضائع نہیں ہوتی۔ انرجی یعنی طاقت کسی صورت میں ضائع نہیں ہوتی۔ ہاں اپنی شکل تبدیل کر لیتی ہے۔ نئی صورت میں بدل جاتی ہے۔ آپ آگ سے انرجی پیدا کرتے ہیں۔ وہ انرجی بھاپ میں بدل جاتی ہے۔ اسی بھاپ سے آپ ٹربائن چلاتے ہیں۔ اس ٹربائن سے بجلی پیدا ہوتی ہے۔ آپ اس بجلی سے موٹر چلاتے ہیں۔ اس موٹر سے انجن چلتا ہے۔ اب آپ کی مرضی ہے کہ اس انجن سے مل چلائیں‘ ٹیوب ویل چلائیں‘ چکی چلائیں یا کچھ اور کریں مگر یہ بات طے ہے کہ انرجی ضائع نہیں جاتی مگر کراچی میں نہ صرف یہ کہ انرجی ضائع ہو گئی ہے بلکہ یہ بھی پتہ نہیں چل رہا کہ انرجی گئی کہاں ہے؟‘‘
میں نے پوچھا ''چودھری الیکشن کا انرجی اور اس کے ضائع ہونے سے کیا تعلق ہے؟‘‘ چودھری کہنے لگا۔ ''ضروری نہیں کہ اگر بندہ کالم لکھ سکتا ہے تو اسے انرجی کے بارے میں بھی پتہ ہو۔ اگر قلم پکڑنا آتا ہے تو اس کے لیے ضروری نہیں کہ وہ انرجی اور ا لیکشن کے باہمی تعلق سے بھی واقف ہو۔ بندۂ خدا! یہ جو سیاسی پارٹیوں نے زور لگایا ہے‘ یہ کیا ہے؟ انرجی سے مراد طاقت ہے اور طاقت زور پیدا کرتی ہے۔ جیسے آپ بادام‘ کھویا‘ پستہ‘ ربڑی‘ دودھ ملائی وغیرہ کھاتے ہیں تو آپ میں طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اگر آپ کو انگریزی سے تھوڑی بہت بھی شدبد ہے تو آپ کو پتہ ہوگا کہ انرجی کا قریب ترین اردو ترجمہ طاقت ہے۔ آپ یہ سب کچھ کھاتے ہیں تو آپ میں طاقت پیدا ہوتی ہے۔ اسی پیدا شدہ طاقت کے بل پر آپ زورآزمائی کرتے ہیں۔ کشتی لڑتے ہیں۔ پہلوانی کرتے ہیں۔ دادا گیری کرتے ہیں۔ بھتہ خوری کرتے ہیں۔ دھینگا مشتی کرتے ہیں۔ کچھ لوگ اس طاقت کی بنیاد پر حصول علم میں زور لگاتے ہیں۔ کھیل کود میں زور آزمائی کرتے ہیں۔ علم و فن پر اپنا زور صرف کرتے ہیں۔ سیاست میں زور لگاتے ہیں۔ لائق ہوں تو پڑھائی پر زور لگاتے ہیں۔ نالائق ہوں تو سفارش پر زور لگاتے ہیں۔ ایماندار ہوں تو حصول رزق حلال پر زور لگاتے ہیں۔ بے ایمان ہوں تو رشوت کے حصول پر زور لگاتے ہیں۔ بہرحال انرجی ضائع نہیں جاتی۔ طاقت بے کار نہیں جاتی اور ز ور آوری بلانتیجہ ضائع نہیں ہوتی۔ یہاں کراچی میں کیا ہوا ہے؟ ساری انرجی ضائع چلی گئی ہے۔ میڈیا کی‘ جماعت اسلامی کی‘ عوامی رائے عامہ کی‘ عمران خان حتیٰ کہ ایم کیو ایم کی‘‘۔
میں نے کہا، ''چودھری! چلیں میڈیا کی مان لیتے ہیں کہ انہوں نے شاید معاملات کو زیادہ بڑھا چڑھا کر دکھایا تھا اور صورتحال کی حقیقی نشاندہی سے زیادہ تھرل پیدا کردیا تھا۔ آپ ایک میگاواٹ کی ٹربائن پر دو میگاواٹ کی ٹربائن کے برابر حرارت بھی استعمال کر لیں تو نتیجتاً وہ ایک میگاواٹ ہی پیدا کرے گی کہ اس کی استعداد کی حد ہی اتنی ہے۔ اب اگر میڈیا نے زور زیادہ لگا دیا تو یہ اس کا قصور ہے‘‘۔ چودھری کہنے لگا ''صرف میڈیا نے نہیں‘ ہر پارٹی نے‘ ہر فریق نے اپنی اوقات سے زیادہ زور لگا دیا تھا لیکن سارے معاملے میں اتنا ''تپڑ‘‘ ہی نہ تھا‘‘۔ میں نے کہا ''چودھری یہ ''تپڑ‘‘ کیا ہوتا ہے؟‘‘ چودھری کہنے لگا ''نہ تیرے اتنے تپڑ ہیں کہ تجھے بات سمجھ آ سکے اور نہ میرے اتنے تپڑ ہیں کہ تجھے میں تپڑ کا مطلب سمجھا سکوں۔ یہ ایک علیحدہ موضوع ہے اور اس پر پھر کبھی بات ہوگی۔ بس تم یہ سمجھو کہ اس بات میں اتنے ''دانے‘‘ ہی نہیں تھے‘‘۔ میں نے کہا ''چودھری! یہ بات بھی تھوڑی پردے میں ہے‘‘۔ چودھری کہنے لگا۔ ''اب اس سے آسان مفہوم میں بیان نہیں کر سکتا۔ تم درمیان میں
دخل اندازی کرنے کی بجائے خالی جگہ اپنی صوابدید سے پُر کرلو اور آگے کی سنو۔ میڈیا کی انرجی ضائع چلی گئی۔ دنیا بھر میں پھیلے ہوئے ان لوگوں کی انرجی کے ساتھ تو سب سے زیادہ برا ہوا جو ہلے جلے بغیر گھر بیٹھے صرف مٹھیاں بھینچ بھینچ کر کرسیوں پر بیٹھے زور لگا رہے تھے۔ ان کا سارا زور ضائع چلا گیا۔ برباد ہو گیا اور مٹی میں مل گیا‘‘۔
پھر ہنسا اور کہنے لگا ''سیاسی جماعتوں کے ساتھ بھی کم برا نہیں ہوا۔ ساری کی ساری بے عزت ہوئی ہیں۔ جیتنے والی بھی اور ہارنے والی بھی۔ گزشتہ الیکشن میں پی ٹی آئی کے بتیس ہزار ووٹ تھے۔ بقول ان کے دھاندلی ہوئی تھی۔ ان کے ووٹروں کو ڈرایا دھمکایا گیا تھا۔ پولنگ سٹیشنوں تک نہیں پہنچنے دیا گیا تھا۔ جو پولنگ سٹیشن پہنچ گئے تھے‘ ان کو ووٹ نہیں ڈالنے دیا گیا تھا۔ غرض ان کا دعویٰ تھا کہ ان کے ووٹروں کے راستے میں اتنی رکاوٹیں تھیں کہ ان کو پار کر کے بتیس ہزار ووٹ ڈالنا بھی ایک محیرالعقول کارنامہ تھا اور ان کی یہ بات کسی حد تک درست بھی تھی کہ ٹھپوں کے موسم میں ایسا ہی ہوا تھا۔ لیکن اب کیا ہوا ہے؟ عمران خان خود کراچی پہنچا۔ بھابی صاحبہ نے بھی حلقے میں رونمائی کی۔ جلسے ہوئے۔ رینجرز نے پولنگ سٹیشن سنبھالے۔ سی سی ٹی وی کیمرے لگے۔ میڈیا کی ٹیمیں متحرک رہیں۔ جعلی ووٹوں پر پوچھ تاچھ ہوئی۔ ٹھپے لگانے کی کوئی ویڈیو اپ لوڈ نہ ہوئی۔ گزشتہ الیکشن کی نسبت الیکشن کمپین چلانے میں کہیں زیادہ آزادی اور سہولت رہی۔ نائن زیرو پر چھاپے کے نتیجے میں پیدا ہونے والی صورتحال کو اپنے حق میں استعمال کرنے کا موقع بھی ملا اور اس کو بڑی حد تک استعمال بھی کیا۔ نتیجہ کیا نکلا؟ ووٹ بڑھنے کے بجائے دس ہزار کم ہو گئے۔ یعنی زور کہیں زیادہ لگا اور نتیجہ پہلے سے کہیں برا اور مایوس کن نکلا۔
جماعت اسلامی کے ساتھ کیا ہوا؟ گزشتہ الیکشن میں گیارہ بجے الیکشن کا بائیکاٹ کردیا کہ دھونس دھاندلی ہو رہی تھی۔ جماعت کے ووٹروں کو پولنگ سٹیشنوں تک ہی نہیں پہنچنے دیا جا رہا۔ سارا عملہ یرغمال ہے اور متحدہ کے الیکشن ایجنٹ سارا نظام خود چلا رہے ہیں۔ لوگوں کے شناختی کارڈ پہلے سے ہی جمع کر لیے گئے ہیں۔ خوف و ہراس کا عالم ہے اور آزادانہ الیکشن تو ایک طرف الیکشن نامی کوئی چیز دور دور تک نظر نہیں آ رہی۔ صرف تین گھنٹے الیکشن کا حصہ بنے اور تین گھنٹے بعد ہی اس تہمت سے جان چھڑوا کر گھر چلے گئے۔ آٹھ گھنٹے پولنگ اوقات میں سے آخری پانچ گھنٹے جماعت اسلامی کے ووٹر اس سارے کھکھاڑ سے دور گھر بیٹھے رہے۔ اب کی بار جماعت نے بہتر کمپین چلائی۔ سراج الحق نے زور دار جلسے کیے۔ راشد نسیم نے کہیں اچھی رابطہ مہم چلائی۔ طاقت زیادہ لگی۔ انرجی زیادہ صرف ہوئی اور جوابی طور پر نتیجہ کیا نکلا؟ تین گھنٹے کی پولنگ میں دس ہزار ووٹ اور آٹھ گھنٹے کی پولنگ میں نو ہزار ووٹ۔ اگر تین گھنٹے میں دس ہزار ووٹروں نے اپنا ووٹ ڈالا تھا تو اس حساب سے آٹھ گھنٹوں میں نسبتاً کہیں زیادہ بہتر انتظامی صورتحال میں ساڑھے چھبیس ہزار ووٹ پڑنے چاہئیں تھے۔ گزشتہ الیکشن میں جماعت کو فی گھنٹہ تین ہزار تین سو تینتیس ووٹ پڑے اس مرتبہ نسبتاً آزادانہ ماحول میں ایک ہزار ایک سو تینتیس ووٹ فی گھنٹہ پڑے۔ تقریباً تینتیس فیصد۔ زور شاید دو گنا لگا اور نتیجتاً پیدا ہونے والی انرجی تیسرا حصہ نکلی۔ اس حساب سے زور اور پیدا شدہ انرجی کی باہمی نسبت ایک اور چھ رہی۔ یعنی زور چھ گنا اور حاصل وصول ایک حصہ نکلا۔ پانچ حصے کی انرجی کہاں گئی۔ سائنس کا کلیہ ہے کہ انرجی ضائع نہیں جاتی۔ یہاں انرجی ضائع ہوئی۔ ضائع ہونے والی انرجی کہاں گئی؟ مجھے تو سمجھ نہیں آ رہی کہاں گئی۔ تمہیں پتہ ہو تو بتائو۔
اب آ جائو اصل فریق کی طرف۔ پچھلے الیکشن میں ایک لاکھ چالیس ہزار ووٹ لیے۔ متحدہ کے نام پر۔ اب کی بار دوبارہ مہاجر کی بنیاد پر ووٹ مانگے۔ نائن زیرو پر چھاپے کے واقعے کو بڑی خوبی سے اپنے حق میں استعمال کیا۔ مہاجر کارڈ دوبارہ استعمال کیا۔ مہاجروں کے حلقے میں مہاجر قومی موومنٹ نے الیکشن لڑا۔ عزت کا مسئلہ بنایا۔ پہلے سے کہیں زیادہ زور لگایا۔ اس الیکشن کو الیکشن سمجھ کر نہیں‘ زندگی موت کا مسئلہ بنا کر لڑا۔ ہر حال میں یہ ثابت کرنے کے لیے آخری زور لگایا کہ گزشتہ الیکشن میں ٹھپے نہیں لگے تھے‘ ووٹ ڈالے گئے تھے۔ پوری کوشش کی گئی کہ نبیل گبول کا یہ انکشاف غلط ثابت کیا جائے کہ ٹھپے لگے ہیں۔ مگر نتیجہ کیا نکلا؟ ایک لاکھ چالیس ہزار کی جگہ ترانوے ہزار ووٹ نکلے۔ باقی ووٹ کہاں گئے۔ انرجی ڈبل گئی۔ زور دوگنا لگا۔ نتیجہ چھیاسٹھ فیصد؟ انرجی کہاں گئی؟
ایک صاحب گھر میں دو کلو گوشت لائے اور نوکر سے کہا کہ وہ اس کو پکائے۔ رات جب اس نے نوکر سے گوشت کا پوچھا تو اس نے کہا کہ وہ تو بلی کھا گئی ہے۔ مالک نے نوکر سے کہا کہ وہ بلی کو پکڑ کر لائے۔ بلی لائی گئی‘ اسے تولا تو وزن دو کلو نکلا۔ مالک نے نوکر سے کہا کہ اگر یہ بلی کا اپنا وزن ہے تو گوشت کہاں گیا؟ اور اگر یہ گوشت ہے تو بلی کہاں گئی؟ تو عزیزم! میرا سوال ہے کہ اگر حالات ٹھیک تھے‘ زور زیادہ لگا تھا اور پولنگ پرامن اور آزادانہ تھی تو جماعت اسلامی کے ووٹ کہاں گئے؟ پی ٹی آئی کے نو ہزار ووٹ کدھر چلے گئے اور ایم کیو ایم کے سینتالیس ہزار ووٹ کہاں اُڑ گئے؟‘‘
میں نے کہا ''چودھری! حساب کتاب اس طرح نہیں ہوتا جس طرح تم کر رہے ہو۔ الیکشن اور بلی کے وزن میں اور پولنگ اور گوشت میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ تم کبھی سنجیدہ بھی ہوتے ہو؟‘‘ چودھری کہنے لگا۔ ''تم لوگ اپنی دفعہ عجیب و غریب مثالیں دیتے ہو میری دفعہ حجتیں کرتے ہو۔ میں پھر پوچھتا ہوں کہ اگر یہ دو کلو وزن گوشت کا ہے تو بلی کہاں گئی؟ اور اگر یہ دو کلو بلی کا وزن ہے تو دو کلو گوشت کہاں گیا؟‘‘

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved