دوسری طرف یورپ اور امریکہ کی معیشتیں بھی سست روی کا شکار ہیں اور نام نہاد ''بحالی‘‘ کے بعد بحران کے ایک اور شدید جھٹکے کے آثار واضح ہورہے ہیں جس سے چینی مصنوعات کی منڈی مزید سکڑ جائے گی۔ چینی معیشت کا بنیادی مسئلہ زائد پیداواری صلاحیت ہے جس کی وجہ زوال پزیر عالمی معیشت میں چینی مصنوعات کی طلب میں کمی ہے۔ پیداواری صلاحیت کا استعمال اس وقت 70 فیصد سے بھی نیچے گر چکا ہے۔ معیشت کو سہارا دینے کے لیے ریاست نے بڑے تعمیراتی منصوبے شروع کر رکھے ہیں جن سے ریاستی قرضہ بڑھتا جارہا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کے نامیاتی بحران کو حل کرنے کے لیے جو اقدامات کیے جا رہے ہیں ان سے بنیادی تضادات زیادہ واضح ہو کر سطح پر آ رہے ہیں۔
چین کی ریاستی پالیسیوں نے محنت اور سرمائے کا تضاد بھی شدید تر کر دیا ہے۔ حقیقی اجرت میں کمی ہو رہی ہے۔ آبادی کی اکثریت کو ریاستی 'سٹیملس پیکج‘ سے کوئی فائدہ نہیں ہوا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے برعکس بیروزگاری کی حقیقی شرح 20 فیصد ہے۔ اپنے ہی وطن میں 'تارکین وطن‘ تقریباً 27کروڑ محنت کش روزگار کے اعداد و شمار میں شامل ہی نہیں ہیں۔ 1978ء میں سرمایہ داری نظام کی بحالی کے بعد چین میں ''غربت میں بے نظیر کمی‘‘ کا شور پوری دنیا کا کارپوریٹ میڈیا مچاتا ہے۔ زمینی حقائق اس سے مختلف ہی نہیں متضاد ہیں۔ چین کے جی ڈی پی کا تو بہت چرچا ہوتا ہے لیکن فی کس جی ڈی پی کا اشاریہ (انڈیکس) لیا جائے تو چین عراق، کولمبیا، مالدیپ اور سربیا سے بھی نیچے ہے۔ آئی ایم ایف کے مطابق اس لحاظ سے چین کل 187ممالک کی فہرست میں 89 ویں نمبر پر ہے۔ اس مساوات میں اگر ملکی دولت کی طبقاتی اور علاقائی تقسیم بھی شامل کر لی جائے تو ''چین کا معجزہ‘‘ اور بھی واضح ہو جاتا ہے جس میں مٹھی بھر افراد ہی معجزاتی طور پر امیر ہوئے ہیں۔ شہری اور دیہاتی، ساحلی اور اندرونی علاقوں کے درمیان شدید ترقیاتی ناہمواری موجود ہے۔ دولت اور امارت کی سب سے وسیع خلیج چین میں موجود ہے۔ صرف ایک فیصد افراد ملک کی ایک تہائی دولت پر قابض ہیں۔ فوربس میگزین کے مطابق ''چینی کمیونسٹ پارٹی کی نیشنل پیپلز کانگریس میں 83 ارب پتی (ڈالروںمیں) افراد شامل ہیں جبکہ امریکی ایوان نمائندگان یا سینٹ میں ایک بھی ارب پتی نہیں ہے‘‘۔ یہ کمیونسٹ پارٹی صحیح معنوں میں کمیونسٹ پارٹی نہیں ہے، امرا کا ایک طبقہ چین کے ساتھ ساتھ پوری دنیا میں منافع کما کر اپنی دولت میں اضافہ کر رہا ہے۔ دولت کے چند ہاتھوں میں جمع ہونے اور بڑھتے ہوئے معاشی بحران کے واضح سیاسی و سماجی مضمرات نظر آرہے ہیں۔ 2014ء میں چین میں محنت کشوں کی 1380بڑی ہڑتالیں ہوئیں جن میں سے زیادہ تر کامیاب رہیں۔ حکمران طبقے کو عوام کے اس رد عمل پر تشویش لاحق ہے۔ چین دنیا کا واحد ملک ہے جس کی ''داخلی سکیورٹی‘‘ کا بجٹ 464 ارب ڈالر ہے جو بیرونی دفاعی بجٹ (435 ارب ڈالر) سے زیادہ ہے۔
عالمی سطح پر تیل کی قیمتوں میں حالیہ کمی کی ایک اہم وجہ چینی معیشت کی سست روی بھی تھی۔ مرتی ہوئی سرمایہ داری کو مرکزی بینک کی آکسیجن کے ذریعے مصنوعی طور پر زندہ رکھا جا رہا ہے۔ پانچ سال پہلے ایک ڈالر کا قرضہ چین میں ایک ڈالر کی معاشی نمو پیدا کرتا تھا۔ لیکن 2013ء میں ایک ڈالر کی معاشی نمو کے لیے چار ڈالر کا قرضہ درکار تھا۔ نئے قرضے کا ایک تہائی حصہ پرانے قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہو رہا ہے۔ چین کا مجموعی ریاستی قرضہ (بشمول صوبائی حکومتیں) 2008ء میں مجموعی داخلی پیداوار کے147فیصد سے تجاوز کر کے 2015ء میں 287 فیصد تک پہنچ چکا ہے۔ اس کا بڑا حصہ اگرچہ داخلی قرضے پر مشتمل ہے لیکن یہ عمل لا متناہی طور پر جاری نہیں رکھا جاسکتا۔ معیشت کو 'کک سٹارٹ‘ کرنے کی دوڑ میں چینی اشرافیہ دیوانوں کی طرح بھاگ رہی ہے۔
چینی معیشت کی بحالی کے امکانات فی الحال کم ہیں۔ شی چن پنگ کی نئی حکومت بھی ماضی کی طرح چینی حکمران طبقے کی نمائندہ ہے۔ اس حکمران طبقے سے پاکستان کی معیشت کو سہارا دینے کی امید کرنا ایک انوکھی بات ہے بالخصوص اس صورت حال میں کہ خود اسے معاشی چیلنجوں کا سامنا ہے۔ اگر سرمایہ کاری ہوتی بھی ہے تو اس کے سماجی اثرات بھی ہوں گے۔امریکی سامراج کیا صرف تماشا دیکھے گا؟ پاکستان (خاص طور پر بلوچستان) میں اسٹریٹیجک مفادات اور معدنی وسائل کے لیے جاری مختلف سامراجی اور علاقائی طاقتوں کی پراکسی جنگ مزید شدت اختیار کرے گی اور یہ آگ پورے ملک میں پھیلے گی۔ علاوہ ازیں اس سرمایہ کاری سے ''فیض یابی‘‘ میں حصہ داری کے لیے پاکستان کے حکمران طبقے میں نئی لڑائیاں جنم لیں گی جن کے باعث سیاسی انتشار اور ریاست کا خلفشار بڑھے گا۔
1960ء اور 70ء کی دہائیوں میں چینی معیشت کی بنیاد منافع اور منڈی کی بجائے منصوبہ بندی تھی۔ اس وقت چین کے داخلی اخراجات اور بیرونی امداد کا کردار آج کی ''سرمایہ کاری‘‘ سے بالکل الٹ تھا۔ پاکستان میں ٹیکسلا کے ہیوی مکینیکل کمپلیکس جیسے منصوبے چین کی تکنیکی اور مالی معاونت سے لگائے گئے تھے جن کی قوت محرکہ سود یا منافع نہ تھی۔ آج چین معاشی اعتبار سے ایک سرمایہ دارانہ ملک ہے جس کی سرمایہ کاری کے مقاصد کی نوعیت بھی وہی ہے۔ چینی سرمایہ داری کے کردار اور عالمی معیشت کے زوال کی وجہ سے اس سرمایہ کاری کا کردار معمول سے زیادہ فعالیت کا مظہر ہے۔ اپنی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اندرونی اور بیرونی سرمایہ کاری کرنے کی ضرورت پاکستان سے زیادہ خود چین کو ہے۔ یہ کوئی حادثہ نہیں ہے کہ پہلے چینی سرمایہ کاری کے ساتھ چینی انجینئر یا ٹیکنیشن ہی آیا کرتے تھے، اب لیبر بھی چین سے ہی آتی ہے۔ اس لیے سرمایہ کاری کے یہ مفاہمت کی یادداشتیں(MOUs)کوئی احسان نہیں بلکہ چینی سرمایہ داری اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی شرح منافع کے لیے یہ منصوبے شروع کئے جا رہے ہیں۔ قابل غور بات یہ ہے کہ سرمایہ کاری کی شرائط اور سود وغیرہ کو پوشیدہ رکھا جارہا ہے۔ خود بورژوا معاشی ماہرین کا خیال ہے شرح سود کم از کم 27 فیصد ہے اور یہ پیسہ حکمرانوں نے ذاتی طور پر نہیں بلکہ پاکستان کے عوام نے ادا کرنا ہے۔ اس سرمایہ کاری کی شرائط اور اثرات آئی ایم ایف یا ورلڈ بینک جیسے سامراجی مالیاتی اداروں سے مختلف نہیں ہوں گے۔
لینن نے اپنی شہرہ آفاق کتاب ''سامراجیت، سرمایہ داری کی آخری منزل‘‘ میں وضاحت کی تھی کہ جب کوئی ملک سرمایہ برآمد کرنے لگے تو ناگزیر طور پر سامراجی کردار اختیار کر لیتا ہے۔ چین آج دنیا میں سرمائے کا سب سے بڑا برآمد کنندہ ہے اور ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ میں دیوہیکل سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ پاکستان میں اس کے عزائم امریکہ یا دوسری سامراجی طاقتوں سے مختلف نہیں ہیں۔ نپولین نے کہا تھا کہ ''چین جب جاگے گا تو ساری دنیا لرزے گی‘‘۔ وہ چین درحقیقت چین کا پرولتاریہ اور محنت کش عوام ہیں جو کروٹ لے رہے ہیں اور تاریخ کے میدان میں ایک بار پھر اترنے کو ہیں۔ پاکستان کے عوام کی اصل دوستی اور بے لوث رشتہ چین کے انہی عوام سے ہے۔ سرمائے کے جبر کے خلاف محنت کا یہی رشتہ پورے خطے کی تقدیر بدل سکتا ہے۔