تحریر : بلال الرشید تاریخ اشاعت     26-04-2015

عقل والوں کے لیے

بہت سی آیات ایسی ہیں کہ سرسری انداز میں پڑھتے ہوئے ان کی گہرائی کا اندازہ نہیں ہوتا۔عقیدت کے احساس تلے دبے ہوئے، ہم سرہلاتے اور آگے بڑھ جاتے ہیں ۔ ذہن غور و فکر پہ آمادہ نہیں ہوتا۔یہاں خدا ایک عجیب بات کہتاہے :ان میں عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں ۔ یعنی علم و عقل سے محروم افراد کے لیے نہیں۔ یہ آیت ملاحظہ فرمائیں جس کا مفہوم ہے: ''بے شک آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق میں اور رات اور دن کے بدلنے میں اور اس کشتی میں جو پانی پر تیرتی اور لوگوں کے لیے نفع کا باعث ہے اور اس پانی میں جسے اللہ آسمان سے برساتا اور اس کے ذریعے زمین کو اس کی موت کے بعد دوبارہ زندہ کر دیتاہے اور زمین میں ہر قسم کے جانور وں کو پھیلا دینے میں اور ہوائوں کی گردش اوراس بادل میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہے ،(ان سب میں) عقل والوں کے لیے نشانیاں ہیں‘‘۔
آسمانوں اور زمینوں (ارض کی جمع بھی ارض ہی ہوتی ہے )کی تخلیق پر غور کے لیے ریاضی اور بالخصوص طبیعیات کے بنیادی اصولوں سے واقفیت چاہیے۔ طبیعیات توانائی اور مادے کا علم ہے۔ کائنات کی ابتدا میں توانائی کس طرح مادے کی مختلف اقسام میں تبدیل ہوئی ۔ آج بھی ستاروں کے مرکز میں شدید درجہ حرارت اور دبائو کے تحت مادے کی ایک قسم دوسرے میں بدلتی رہتی ہے۔ یہیں کائنات میں موجود تما م عناصر وجود میں آتے ہیں اور وہ بھی ، جن سے خود ہمارا جسم تشکیل پاتاہے ۔
رات اور دن کا بدلنا زمین کی محوری گردش یعنی لٹو کی طرح اپنے گرد گھومنے پہ منحصر ہے ۔ سورج تو ہے ہی سراپا دن ۔ وہاں تو اندھیرے کا کوئی تصور نہیں ۔ یہ ہماری زمین ہے جو ایک بے خودی کے عالم میں مسلسل محوِ رقص ہے ۔ سورج کی طرف مڑتی ہے تو دن اور اس سے منہ پھیرتی ہے تو رات۔ یہ آزادی بھی ایک مناسب فاصلے کی مرہونِ منّت ہے وگرنہ کچھ زمینیں جو اپنے سورج کے بے حد قریب چلی جاتی ہیں ، وہ اس آزادی سے محروم ہو جاتی ہیں ۔ وہ سورج کے گرد گھوم سکتی ہیں ، اپنے گرد نہیں ۔ یوں سیارے کے ایک طرف مسلسل دن اور شدید گرمی کے تحت ہر شے پگھلنے لگتی ہے ۔ دوسری طرف مسلسل اندھیرا اورسردی ہوتی ہے ۔ رات اور دن کی تبدیلی پر گہرائی میں غور کرنا ہے تو اس کششِ ثقل کا مطالعہ ضروری ہے ، جس نے ہمیں زمین پر باندھ رکھا ہے ۔اسی نے زمین کو سورج کے گرد اور سورج کو کہکشاں کے مرکز کے گرد مامور کر رکھا ہے ۔
کشتی جب پانی پر تیرتی ہے تو مادے کی ایک قسم یعنی لکڑی مادے کی دوسری قسم یعنی پانی پہ گھسٹتی ہے ۔ اسے نقصان نہیں ہوتا اور نہ ہی کسی توڑ پھوڑ سے واسطہ پڑتاہے ۔ کششِ ثقل جس قوّت سے لکڑی کو اپنی طرف کھینچتی ہے اور جس سے وہ پانی کو اپنی طرف کھینچتی ہے ، وہ دونوں کے لیے مختلف ہے ۔ اسی فرق کی بناپر لکڑی پانی کے اوپر تیرتی رہتی ہے ۔ یہاں وہ اصول بھی دیکھیے ، جس کی وجہ سے آبدوزپانی کے نیچے اور اوپر آتی جاتی ہے ۔ آبدوز کے ایک مخصوص حصے میں ہوا بھر لیجیے تو وہ اوپر اٹھ جاتی ہے ۔ ہوا نکال دیجیے تو وہ اپنے وزن سے پانی کے نیچے چلی جاتی ہے ۔بنیادی وجہ یہ ہے کہ جس قوّت سے زمین پانی کو اپنی طرف کھینچتی ہے ، وہ اس سے مختلف ہے ، جس سے وہ ہوا کو اپنی طرف کھینچتی ہے ۔ یہاں انسان ایجاد کچھ بھی نہیں کر رہا‘ وہ تو صرف گہرائی میں ان اصولوں کا مطالعہ کر رہاہے ، جن پر یہ دنیا رواں دواں ہے ۔
بارش، جو زمین کو زندہ کر دیتی ہے ۔پانی کی گردش، Water Cycle۔ پانی زمین کے نیچے بھی ہے اور اوپر بادلوں میں بھی ۔ رات اور دن ، یہ مسلسل محوِ گردش رہتاہے ۔یہ بات خوش آئند ہے کہ سورج کی گرمی اسے بخارات بنانے کے لیے کافی ہے۔ اگر وہ زیادہ درجہ ء حرارت پر بخارات میں تبدیل ہوا کرتا تو زندگی پر اس کے کیا اثرات ہوتے؟ بہرحال بارش ایک بہت بڑی نشانی ہے ۔
زمین میں مختلف جانوروں کے گروہ ۔ یہ کب اور کیسے پھیلتے چلے گئے، اس کے لیے فاسلز کا علم چاہیے۔ ساڑھے چھ کروڑ سال پہلے تک زمین پر ڈائنا سار کی حکومت تھی ۔ وہ ختم ہوئے تو انسان سمیت چھوٹے جانور پھیلتے چلے گئے ۔ حیرت انگیز چیز وہ مستعدی ہے ، انسان کے علاوہ عقل سے محروم جانوربھی جس سے اپنی جان کی حفاظت کرتے ہیں ۔
خدا کو غور و فکر پہ اصرا رہے ۔ وہ بار بار نشانیوں کا ذکر کرتا ہے ۔ عقل والے ان پر ذرا سوچیں تو سہی ،پھرکیسے وہ ایمان نہیں لائیں گے لیکن پھر وہ خود کہتاہے کہ دلوں پہ پردہ پڑ جاتاہے۔ ''و ان یروا کل آیۃ لا یومنوا بہا‘‘ا ور اگر وہ سب کی سب نشانیاں بھی دیکھ لیں تو پھر بھی ایمان نہیں لائیں گے۔ اس سے آگے بڑھ کر وہ یہ کہتاہے کہ اللہ بذاتِ خود بندے اور اس کے دل کے درمیان حائل ہوجاتاہے ۔
مغرب آج اگر اس قدر آگے ہے تو صرف کائنات کو ، اس دنیا کو بہترطور پر سمجھنے کی وجہ سے ۔ یہی اس کی تمام تر ایجادات کی بنیاد ہے۔ سورج کی یہی روشنی اربوں سال سے ہم تک پہنچ رہی تھی ۔ آج ہم اسے محفوظ کر کے اور اس کی نوعیت میں تبدیلی لا کر بجلی کی صورت میں اسے استعمال کر رہے ہیں ۔ سپر کنڈکٹر میں استعمال ہونے والی دھاتیں پہلے بھی اس کرّ ہ ء خاک پر موجود تھیں ۔ آج ہم الیکٹرونکس میں ان سے مستفید ہو رہے ہیں ۔تیل پہلے بھی توانائی کا ذریعہ تھا۔ آج ہم اسے انجن میں جلا کر فاصلے سمیٹ رہے ہیں ۔ ہمیں بہتر طور پر چیزوں کو سمجھنے سے زیادہ اور کچھ بھی نہیں کرنا۔
پسِ تحریر: ہم سمیت اور ہمارے بڑوں سمیت، دنیا میں سبھی کہیں نہ کہیں غلطی کرتے ہیں اور عقلِ کل کوئی نہیں ہوتا۔ ہر کوئی اپنے تعصبات اور غلط اندازِ فکر سے کسی نہ کسی جگہ ضرور ٹھوکر کھاتا ہے۔ اس کی قیمت بھی ادا کرنا پڑتی ہے لیکن ہمیں اعتدال سے کام لینا چاہیے ۔ جنرل اشفاق پرویز کیانی پر تنقید کرتے ہوئے، ان کے کارنامے بھی یاد رکھنے چاہئیں ۔ ایک وقت تھا، جب عالمی میڈیا سوات سے اسلام آباد کا فاصلہ ناپ رہا تھا اور پاکستان کے ایٹمی ہتھیار دہشت گردوں کے ہاتھ لگنے کے خدشات ظاہر کیے جا رہے تھے ۔ سوات اور جنوبی وزیرستان کے آپریشن ہماری فوجی تاریخ کے کامیاب ترین معرکوں میںشما رہوتے ہیں ۔یہ جنرل کیانی ہیں ، جن کے سبب آج اسلام آباد میں ہمارے بچّے سکول جانے کے قابل ہیں ۔کالم نگار یہ بھی فرمائیں کہ لیون پنیٹا نے جب یہ کہا کہ ایبٹ آباد آپریشن میں اسامہ بن لادن مار اگیا ہے تو خاموشی کی بجائے جنرل کیانی کو کیا ردّعمل ظاہر کر نا چاہیے تھا؟ ذرا اس پر بھی روشنی ڈالیے کہ حسین حقانی نے اپنا موبائل اور ڈیٹا عدالت میں پیش کیوں نہ کیا ؟ کیوںعالمی میڈیا میں وہ یہ لکھ رہا ہے کہ پاکستان کو امریکی جنگی سازو سامان دیا گیا توطالبان کی بجائے اس کے بھارت کے خلاف استعمال کا اندیشہ ہے ۔
جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے ، قارئین جانتے ہیں کہ میں ایک عام اور گمنام سپاہی چراغ دین کی اعلیٰ افسروں سے بڑھ کر ستائش کرتا ہوں ۔ذاتی تنقید کا اس سے زیادہ جواب مناسب نہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved