تحریر : محمد اظہارالحق تاریخ اشاعت     27-04-2015

فروغ اسم محمدؐ ہو بستیوں میں منیر

وہ ایک شام تھی، دل کے سمندرمیں خوبصورت جزیرے کی طرح جگہ بناتی، یاد رہ جانے والی! سرگودھا کے نواح میں دلکش قصبے ساہی وال میں! 
کتنی ہی بار ارد گرد سے گزر ہوا ہو گا، کہیں جاتے یا کہیں سے واپس آتے ہوئے، مگر کیا خبر تھی کہ دلدادگان ادب اور وابستگان شعر یہاں آباد ہوں گے اور وہ بھی یوں کہ دامن دل پکڑ کر کھینچیں گے! شکیب جلالی نے کہا تھا ؎
یہاں سے بارہا گزرا مگر خبر نہ ہوئی
کہ زیر سنگ خنک پانیوں کا چشمہ تھا!
یہ وہ ساہی وال نہیں، جو ہمارے دیکھتے دیکھتے منٹگمری سے ساہیوال بنا۔ کسی نے کہاتھا کہ فلاں شخص پکا سید ہے کیونکہ میرے دیکھتے دیکھتے سید بنا ہے! ہماری دینداری اور حب الوطنی جب سینوں سے نکل گئی اور کھوکھلی اور اتھلی ہو گئی تو اس کا زور ان چیزوں پر پڑنے لگا جن کا تعلق دینداری سے ہے نہ حب وطن سے۔ لائل پور فیصل آباد ہو گیا اور منٹگمری ساہیوال، کیمبل پور اٹک ہو گیا اور ایبٹ آباد جانے کب میجر ایبٹ کو دغا دے جائے۔ ہم تو استعمار سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ اس کی یادگار ریلوے کو اس طرح ختم کر رہے ہیں جیسے عدی امین کے بارے میں روایت ہے کہ دشمن کو آہستہ آہستہ ٹوکے کے وار سے کئی دن لگا کر ختم کرواتا تھا۔ آہستہ آہستہ ختم کرنے کا رواج کیاخبر افریقہ میں ہمارے ہاں ہی سے گیا ہو۔ ابن بطوطہ بیان کرتا ہے کہ ملتان سے دہلی جا رہا تھا۔ راستے کے کسی شہر میں دو مجرموں کو سزا دی جا رہی تھی۔ تماشا کرنے والوں میں ابن بطوطہ بھی شامل ہو گیا۔ زمین پر گڑھا کھدا تھا۔ ایک شخص الٹا لٹایا گیا تھا۔ منہ اس کا گڑھے پر اٹکا تھا کہ سانس لینے کی گنجائش رہے۔ کھال اس زندہ شخص کی کھینچی جا رہی تھی۔ وہ گڑ گڑاتا تھا کہ تلوار سے ایک ہی بار ختم کر دو مگر جلاد اور اس پر مامور مجسٹریٹ قسم کا اہلکار‘ ڈرتے تھے کہ حکم عدولی کی صورت میں خود ان کی کھال کھینچ لی جائے گی۔ محمد تغلق ان معاملات میں رعایت کرنے کاروا دار نہیں تھا۔ مارنے کی اس روایت نے مغلوں کے زمانے میں قدرے مہذب شکل اختیار کر لی۔ اورنگزیب جب تینوں بھائیوں سے ''فارغ‘‘ ہو چکا تو ان کی اولاد کی طرف متوجہ ہوا۔ بھائیوں سے ''فراغت‘‘کا دفاع یوں کیا جاتا ہے کہ قبریں تین تھیں اوربھائی چار۔ چنانچہ جو بھی تخت پر بیٹھتا، باقی تین نے تین قبروں میں جانا ہی تھا۔ یہی فلسفہ ذوالفقار علی بھٹو کو تختہ دار پر لٹکانے کے ضمن میں جنرل ضیاء الحق کا کیمپ بیان کرتا ہے کہ بندے دو تھے اور قبر ایک! بہرطور، بھائیوں کی اولاد کو ختم کرنے کا دفاع بھی عقیدت مندوں نے کوئی نہ کوئی نکال ہی لیا ہو گا۔قصہ کوتاہ یہ کہ داراشکوہ کا بڑا فرزندہ سلیمان شکوہ جب پکڑا گیا تو اس نے چچا سے خصوصی فرمائش کی کہ اسے پوست سے نہ ختم کیا جائے۔ وہ ایک ہی بار بقائمی ہوش و حواس مرنا پسند کرے گا مگر فتاویٰ عالم گیری مرتب کرانے والے اس بادشاہ کی فقہی مجبوریاں بھی ہوں گی! کیا خبر اس وقت کے مفتی نے فتویٰ بھی دے دیا ہو کہ بقول جون ایلیا ؎
نسبت علم ہے بہت حاکم وقت کو عزیز
اس نے تو کارِ جہل بھی بے علما نہیں کیا!
گوالیار کے قلعے میں سلیمان شاہ کو ہر روز ایک معین مقدار میں پوست پلائی جاتی تھی!
اس پرانے اور اصل ساہی وال کے حاکم ضیغم نواز چودھری نے شہر کی تہذیب اور اہل شہر کی تعلیم و مدارات کے لیے بزم شعر و سخن برپا کی تھی اور اس شاعر بے نوا کو بہ طور خاص طلب فرمایا تھا۔ ساکنان شہر اس بزم میں اس قدر محو ہوئے کہ آخروقت تک سامعین سے لبریز ہال سے کوئی نہ اٹھا۔ اس شعر پر داد دی گئی جس پر دی جانی چاہئے تھی۔
بیرون ملک مشاعرہ ''بازی‘‘ اور اس کے لیے سفر ''وسیلۂ ظفر‘‘ ان دنوں ایک کاروبار ہے مگر سچ یہ ہے کہ بڑے شہروں کی نسبت نواحی آبادیوں اور قصبوں قریوں میں شعر زیادہ خوش ذوقی سے سنا اور پڑھا جاتا ہے! کئی سال پہلے کی بات ہے، ملتان کے نواح میں ایک مشاعرے میں جانا پڑا۔ ماحول کچھ ایسا تھا کہ چند شعر نیم دلی سے سنا کر مائیک چھوڑنے کا ارادہ تھا۔ مجمع میں سے ایک شخص اٹھا۔ سر پر اس نے ایک دریدہ رومال پگڑی کی صورت باندھا ہوا تھا اور تہمد میں ملبوس تھا۔ فرمائش کرنے لگا کہ وہ غزل سنایئے ؎
وصال و ہجر کے سب مرحلے ناگفتنی ہیں
فقط عشاق کے جسموں کے پنجر دیدنی ہیں
حیرت ہوئی۔ تقریب کے اختتام پر وہ ملا۔ پوچھا ''اے اعرابی نما شخص! تو اس ویرانے میں کیا کر رہا ہے؟‘‘ بتایا کہ ایک بستی کے پرائمری سکول میں مدرس ہے اور شاعر کے چاروں مجموعے اسے ازبر ہیں!
عام طور پر ہمارے والی اور حاکم بہار کی آمد پر کھیلوں اور میلوں ٹھیلوں کا اہتمام کرتے کراتے ہیں۔ نیزہ بازی، شہسواری اور دیگر تفریحات کا انتظام ہوتا ہے۔ داندوں (بیلوں) کے مقابلے ہوتے ہیں جنہیں مغربی اضلاع میں ''جلسے‘‘ کہاجاتا ہے۔ ضیغم نوازجیسے حاکم کم ہی ہوتے ہیں جو تفریح کے ساتھ تہذیب و تربیت کی طرف بھی توجہ دیں۔ ادیب اور شاعر نہ سہی، ادب اور شعر تو دانش کا وسیلہ ہے! صاحبان اختیار کو دانش کا دامن کبھی نہیںچھوڑنا چاہیے۔ سیاست اور حکومت دونوں کے لیے دانش سے وابستگی لازم ہے۔ سیاست دانش سے عاری ہو تو شبلی نعمانی اور سلیمانی ندوی پیدا کرنے والے اجمل پہاڑی پیش کرنے لگتے ہیں اور محمد علی جوہر، حسرت موہانی اور حکیم اجمل خان کی وراثت جاوید لنگڑے اور صولت مرزا جیسے افراد سنبھال لیتے ہیں۔ حکیم احمد شجاع اور مولانا ظفر علی خان کی جگہ شہروں کی پہچان گلو بٹ جیسوں سے ہونے لگتی ہے۔ حکومت دانش اور اہل دانش سے دور ہونے لگے تو وہی حال ہوتا ہے جو ہمارا کئی عشروں سے ہو رہا ہے۔ صوبے مرکز سے نالاں اور مرکز، اکائیوں سے بے نیاز۔ کہیں علاقہ سرگرمیوں کا محور، کہیں خاندان اورکہیں برادری! روغن قاز ملنے والے خوشامدی نہیں، یہ اہل دانش و حکمت ہوتے ہیں جو حکمرانوں کو راہ راست پر رکھتے ہیں‘ جو بتاتے ہیں کہ مملکت کو مجتمع رکھنے کے لیے مختلف اکائیوں‘ مختلف نسلوں اور مختلف لسانی گروہوں کو یکجان کیسے کیا جاتا ہے! اس دانش و حکمت کی بنیاد قریوں اور بستیوں میں پڑتی ہے۔ اگر ہر قصبے‘ ہر بستی اور ہر قریے 
کاحاکم یہ طے کر لے کہ اس نے اپنے قیام کے دوران ایک منظم لائبریری قائم کر کے یہاں کے رہنے والوں کو اس طرف راغب کرنا ہے اور پھر اس کا ہر جانشین اس کارخیر کو مزید آگے بڑھاتا جائے تو یہ ایک ایسی تعمیر ہو گی جس پر نام کی تختی نہ بھی لگی ہو تو زمانے یاد رکھیں گے اور تاریخ سر جھکا کر سلام کرے گی!
پاکستان صرف چمکتے شہروں اور دمکتے محلات کا نام نہیں۔ یہ لبرٹی مارکیٹ، جناح سپر، ای سیون اور کلفٹن کے گراں بہا‘ ہوا دار اپارٹمنٹوں کے علاوہ بھی کہیں ہے! اور اپنے ہونے کاپتہ بھی دیتا ہے۔ ساہی وال جیسی خوبصورت بستیوں میں جا کر احساس ہوتا ہے کہ قسّام ازل نے اس ملک کو کیا نہیں دیا۔ ایک نغز گو شاعر وہاں ملا۔ پراگندہ مو، تہمد پوش، مولوی اسلم۔شعر ایسے کہے ہیں کہ کانوں میں رس گھولیں اور ذہن کی برف پگھلائیں۔ ایسے کتنے ہی ہیرے اور موتی ہماری خاک میں چھپے ہیں۔
ہمارے قریے سلامت رہیں۔ فروغ اسم محمدؐ ہو بستیوں میں منیر، ہماری بستیوں میں کیا نہیں ہے۔ سفید پانی کی نہریں ہیں، بہار کی سنہری دھوپ ہے، صبحیں قمریوں کے رنگ کی ہیں۔ فضائوں میں فرشتوں کے پر پھڑپھڑانے کی شیریں آوازیں ہیں۔ آسمانوں سے نور کرن کرن، ساعت ساعت اترتا ہے۔ دھرتی دھلی ہوئی ہے۔ روح کے ستارے جگمگاتے ہیں۔ راتوں کو عبادت کرنے والے کشف کی قندیلیں جلا کر روشنی کا سامان بہم پہنچاتے ہیں۔ مخلوق کی بے لوث خدمت کرنے والے غیب کے پردوں سے ماورا جھانک لیتے ہیں۔ ہماری بستیوں پر آسمان سے دسترخوان اترتے ہیں۔ سفید بھیڑیں اور سبز فصلیں ہیں۔ ہمارے کسانوں کے ماتھے کھلے‘ سینے کشادہ اور دل بڑے ہیں۔ ہمارے کھیت سونے اور چاندی جیسی ہریالیوں سے چھلک رہے ہیں۔ خدا کرے چھلکتے ہی رہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved