تحریر : ڈاکٹر رشید احمد خاں تاریخ اشاعت     27-04-2015

چینی صدر کا دورہ پاکستان اور چین کی حکمت عملی

جنوبی ایشیاء میں گزشتہ تقریباََ 6ماہ کے دوران میں سفارتی سطح پر ایسی غیر معمولی سرگرمیاں دیکھنے میں آئی ہیں کہ علاقائی ہی نہیں بلکہ عالمی سیاست کے تمام اہم حلقوں میں یہ خطہ خصوصی بحث کا موضوع بنا رہا ہے۔ان سرگرمیوں میں بھارتی وزیراعظم نریندرمودی کا اپنے ہمسایہ ملکوںیعنی نیپال،بھوٹان،بنگلہ دیش اور سری لنکا کا دورہ،سری لنکا کے نو منتخب صدر میتھری پالاسری سنیا کا دورئہ بھارت اور پاکستان ،افغانستان کے نئے صدر اشرف غنی کی نومبر2014ء میں پاکستان آمد، اور سب سے بڑھ کر امریکی صدر بارک حسین اوباما کا جنوری2015ء میں دورئہ بھارت شامل ہیں۔ 
اعلیٰ ترین سطح پر جنوبی ایشیاء کے رہنمائوں کی آپس میں اور بیرونی ملکوں کے سربراہان کے ساتھ ملاقاتوں کی وجہ سے عالمی سیاست میں اس خطے کی اہمیت میں نمایاں اضافہ ہواہے‘ لیکن جتنی عالمی توجہ چینی صدر شی چن پنگ کے حالیہ دورۂ پاکستان کے حصے میں آئی ہے وہ فقید المثال ہے۔پاکستان میں آمد سے کئی روز قبل ہی دنیا خصوصاََ مغربی ملکوں اور امریکہ کے سرکردہ اخبارات میں اور ٹی وی چینلزپر صدر شی کے دورئہ پاکستان کے مقاصد اورمضمرات پر تبصرے اور قیاس آرائیاں شروع ہوگئی تھیں۔صدر شی کے دورئہ پاکستان پر اس غیر معمولی فوکس کی تین بڑی وجوہ تھیں۔اولاً‘ اگرچہ پاکستان اور چین کے درمیان کوئی رسمی دفاعی معاہدہ نہیں اور نہ ہی چین نے پاکستان میں فوجی اڈے قائم کر رکھے ہیں‘لیکن جنوبی ایشیامیں پاکستان چین کا سب سے اہم اور قابل اعتماد دوست ملک ہے۔دوئم‘ چینی صدر اپنے دورئہ پاکستان کے دوران میں تقریباً 46بلین ڈالرمالیت کے منصوبوں پر دستخط کرنے کیلئے آرہے تھے۔ان میں پاک چین اکنامک کاریڈورکا منصوبہ بھی شامل ہے۔اسی منصوبے کے تحت بحیرۂ عرب اور خلیج فارس کے دہانے کے قریب بلوچستان کے ساحل پر 
واقع چین کی مالی اور تکنیکی امداد سے تعمیر ہونے والی بندرگاہ گوادر کو چین کے مغربی صوبے سنکیانگ کے شہر کاشغر کے ساتھ ریل اور روڈ کے ایک وسیع نیٹ ورک کے ذریعے ملادیاجائے گا۔ مغربی ماہرین کے مطابق اسی کاریڈور کی تعمیر سے چین کو پاکستان کے راستے نہ صرف خلیج فارس اور مشرقِ وسطیٰ،بلکہ بحرہند کے پار افریقہ اور اس سے آگے یورپ کے ساتھ اپنے تجارتی اور معاشی روابط کو فروغ دینے میں بہت مدد ملے گی کیونکہ چین کے مشرقی ساحل پر واقع بندرگاہ شنگھائی سے آبنائے ملاکا کے راستے چین اور یورپ کے درمیان فاصلہ،پاک چین اکنامک کاریڈور سے چار گْنا زیادہ ہے۔صرف یہی نہیں بلکہ مغربی ملکوں کو یہ فکر بھی دامن گیر ہے کہ گوادر تک رسائی سے چین کو خلیج فارس،بحرۂ عرب اور بحرہند کے اْن علاقوں میں اپنا سیاسی اثرورسوخ قائم کرنے میں بھی مدد ملے گی جو گذشتہ پانچ سوسال سے یورپی طاقتوں کے حلقہ ہائے اثر سمجھے جاتے ہیں۔ 
صدر شی کے دورئہ پاکستان میں غیر معمولی دلچسپی اور اس کا مختلف زاویوں سے جائزہ لینے کی تیسری وجہ یہ ہے کہ اس دورے سے قبل امریکہ کے صدر اوباما جنوری میں بھارت کا دورہ کر چکے تھے۔امریکی صدر کے اس دورئہ بھارت نے جو کہ اْن کا دوسرا دورہ تھا‘ بھارت‘ امریکہ تعلقات کو نئی بلندیوں تک پہنچا دیا تھا اور اسے جنوبی ایشیاء اور بحر ہند کے علاقے میں بھارت اور امریکہ کی جانب سے چین کے بڑھتے ہوئے اثرورسوخ کے آگے بند باندھنے کی مشترکہ کوشش قرار دیا گیا تھا۔ مغربی مبصرین کے مطابق صدرشی کا دورئہ پاکستان ،بھارت اور امریکہ کی طرف سے چین کے گرد حصار کھڑا کرنے کی کوشش کو ناکام بنانے کیلئے کیا گیا ہے‘لیکن اگرچین کی علاقائی اور عالمی حکمتِ عملی اور پاکستان کے علاوہ دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ تعلقات کا جائزہ لیا جائے تو چینی صدر کے حالیہ دورئہ پاکستان کی جو تشریح مغربی ملکوں خصوصاََ امریکی ذرائع ابلاغ میں کی جارہی ہے وہ کوتاہ بینی،بدنیتی اور منافقت پر مبنی ہے۔پاکستان واحد ملک نہیں جہاں چین نے اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی ہو ۔چین نے اپنے اردگرد کے علاقوں مثلاًآسیان‘ وسطی ایشیا اور افریقہ میں بھی بھاری سرمایہ کاری کی ہے اور دوطرفہ بنیادوں پر گہرے تجارتی تعلقات قائم کیے ہیں لیکن ان میں سے کسی بھی جگہ چین نے سڑیٹجک مفاد حاصل کرنے کی کوشش نہیں کی۔یہی وجہ ہے کہ وسطی ایشیا‘ جسے اب بھی امریکہ اپنا حلقہ اثر سمجھتا ہے اور جہاں سردجنگ کے خاتمے اور وسطی ایشیا کی آزاد ریاستوں کے ظہور کے بعد امریکہ نے اربوں ڈالر کی امداد کی پیش کش کے ساتھ قدم جمانے کی کوشش کی تھی، میں آج چین سب سے زیادہ ہر دلعزیز ملک ہے اور اس کی طرف سے اقتصادی تعاون اور سرمایہ کاری کا خیر مقدم کیا جاتا ہے۔جنوب مشرقی ایشیا جو گذشتہ دوسوبرس سے مغرب کی نوآبادیاتی طاقتوں اور دوسری جنگ عظیم کے بعد امریکہ کا گڑھ رہا ہے،آج چین کی سرمایہ کاری کا دوسرے ملکوں کے مقابلے میں سب سے بڑامرکز ہے۔اسی طرح افریقہ‘ جس کی معدنی دولت نہ صرف یورپ بلکہ امریکہ کی صنعتی ترقی اور معاشی قوت کیلئے کلیدی حیثیت کی حامل ہے‘ میں چین کی سرمایہ کاری میں اضافہ ہورہا ہے۔اس کی وجہ یہ ہے کہ چین دوسرے ملکوں کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات قائم کرتے وقت سیاسی شرائط عائد نہیںکرتا بلکہ ان کی بنیاد باہمی مفاد،مساوات اور باہمی احترام پر ہوتی ہے۔یہی وجہ ہے کہ وسطی ایشیا ہو یا افریقہ،ہر ملک چین کی سرمایہ کاری اور اس کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو یورپی ممالک کے مقابلے میں ترجیح دیتا ہے۔جنوبی ایشیا میں پاکستان واحد ملک نہیں جس کے ساتھ چین کے تجارتی اور اقتصادی تعلقات فروغ پارہے ہیں۔خود چینی صدر شی نے پاکستان کی پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ چین جنوبی ایشیا کے تمام ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی تعلقات کو فروغ دینا چاہتا ہے۔چنانچہ اس وقت بھارت کے علاوہ نیپال،بنگلہ دیش،سری لنکا اور افغانستان کے ساتھ نہ صرف چین کی دوطرفہ تجارت کا حجم بڑھ رہا ہے بلکہ ان ملکوں میں انفراسٹرکچر کی تعمیر میں بھی چین نے کثیر مقدار میں سرمایہ کاری کر رکھی ہے۔ بھارت جس کے ساتھ چین کا سرحدی تنازعہ نہ صرف ابھی تک حل طلب ہے،بلکہ بھارت چین کو خطے میں اپنا حریف سمجھتا ہے‘جنوبی ایشیا میں60بلین ڈالر کے ساتھ چین کا سب سے بڑا ٹریڈنگ پارٹنر ہے۔اس کے مقابلے میں پاکستان کے ساتھ چین کی دوطرفہ تجارت کا حجم صرف15بلین ڈالر ہے۔گذشتہ سال جب صدر شی نے بھارت کا دورہ کیا تھا تو دونوں ملکوں کے رہنمائوں نے اگلے 5برسوں میں چین‘ بھارت تجارت کا حجم 100بلین ڈالر تک پہنچانے کا عہد کیا تھا۔ہمسایہ ممالک کے ساتھ تجارتی اور اقتصادی روابط کو فروغ دینے کی پالیسی چین کی اْس گرینڈ سٹریٹجی کا حصہ ہے جو آج سے تقریباً تین دہائیاں قبل چین نے اپنے عظیم رہنما ڈنگ ژیائوپنگ کی قیادت میں اپنائی تھی۔اس سٹریٹجی کا فوکس اندرونی طور پر چین میں اقتصادی،سماجی اور ٹیکنالوجی کے شعبوں میں ترقی پر زور اور بیرونی محاذ پر خصوصاً چین کی ہمسائیگی میں واقع خطوں میں امن،مصالحت اور تعاون کو فروغ دینا اور تصادم اور محاذ آرائی سے گریز کرنا ہے۔جنوبی ایشیا چین کی ہمسائیگی میں واقع ایک اہم خطہ ہے جس طرح چین نے مشرق بعید،جنوب مشرقی ایشیا اور وسطی ایشیا میں امن اور مصالحت کی فضا کو مستحکم کرنے میں فعال کردار ادا کیا ہے اسی طرح جنوبی ایشیا میں بھی چین تصادم اور کشیدگی کی بجائے امن،مصالحت اور تعاون کا خواہشمند ہے۔ پاک بھارت امن مذاکرات کیلئے چین کی حمایت کا اعلان چین کی علاقائی پالیسی کا آئینہ دار ہے۔بلکہ 1966ء میں جب ایک سابق چینی صدر جیانگ شی من نے پاکستان کا دورہ کیا تھا،تو سینیٹ کے ایک خصوصی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے چینی صدر نے کشمیر کے تنازعے کی طرف واضح اشارہ کرتے ہوئے پاکستان کو مشورہ دیا تھا کہ اگر ایک تنازعہ کو فی الوقت حل کرنا مشکل نظر آئے،تو اسے وقتی طور پر ایک طرف رکھ دینا چاہیے تاکہ ملکوں کے درمیان حکومتی سطح پر نارمل تعلقات متاثر نہ ہوں۔
اس لیے باوجود صدر شی کے اس بیان کے کہ چین پاکستان کے ساتھ تعلقات کوخصوصی اہمیت دیتا ہے‘ پاکستان کو یہ اچھی طرح جان لینا چاہیے کہ اْس کے ساتھ تعلقات بھی چین کی اْس علاقائی اور عالمی حکمتِ عملی کے تابع ہیں جس کے تحت چین امن کو جنگ پر‘ تعاون کو محاذ آرائی پر اور مصالحت کو کشیدگی پر ترجیح دیتا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved