تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     27-04-2015

غلافِ کعبہ سے امامِ کعبہ تک

امام ِکعبہ اِن دنوں پاکستان تشریف لائے ہوئے ہیں۔ چشمِ ما روشن، دلِ ما شاد !
مہمان کو اُس بیتِ عتیق سے نسبت ہے جو اس زمین پر اللہ کا پہلا گھر ہے اور آ خری بھی کہ سب مساجداُس کی بیٹیاں قرار پائی ہیں۔ قیامت کی صبح تک،اسی کی طرف رخ کرتے ہوئے نماز ادا کی جائے گی اور لوگ اسی کے گرد طواف کریں گے۔ بیت اللہ مسلمانوں کی محبت و عقیدت کا اگر محور ہے تو یہ بے سبب نہیں۔ اگر اس سے نسبت رکھنے والی کوئی شخصیت بھی اس عقیدت کا حصہ بن جا تی ہے تو یہ قابلِ فہم ہے۔ تاہم ایسی عقیدتیں بالعموم غُلوکا شکار ہوتی ہیں یا مادی مفادات کے زیرِ اثر آ جاتی ہیں اور اس بات کا خطرہ پیدا ہو جا تا ہے کہ دین کی اصل روح کو نگاہوں سے اوجھل کر دیں۔ سیدنا عمر ؓ نے اسی خدشے کو سامنے رکھتے ہوئے حجرِِ اسود کے بارے میں اپنا مشہور جملہ ارشاد فرمایا تھا۔
امامِ کعبہ کے اس دورے سے، مجھے خدشہ ہے کہ ہمارے حقیر مفادات کارفرما ہیں۔ یہ دورہ ایک خاص سیاسی پس منظر میں ہو رہا ہے۔ یمن کی آڑ میں یہاں لوگوں نے جس طرح ایک مہم چلائی ہے اور اس کے لیے مذہب کو استعمال کیا جارہا ہے، وہ اسلام کے لیے کوئی نیک شگون ہے نہ پاکستان کے لیے۔ امامِ کعبہ کو یہاں سعودی عرب حکومت کے ایک نمائندے کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ وہ جہاں تشریف لے جاتے ہیں، میزبان یہی یقین دہانی کراتے نظر آتے ہیں کہ وہ یمن کے مسئلے پر سعودی عرب کے ساتھ ہیں۔ یہ یقین دہانی اگر سعودی عرب کے سفیر کو کرائی جائے تو قابلِ فہم ہے لیکن امام ِکعبہ کی نسبت توکسی اور سے ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ بیت اللہ کا روحانی تعلق کسی خاص حکومت کے ساتھ نہیں ہے۔ بیت اللہ کی خدمت ایک سعادت ہے جو تاریخ میں مختلف گروہوں کو نصیب ہوتی رہی۔ ایک وقت تھا کہ یہ خدمت بنو امیہ کے حصے میں آئی۔ پھر عباسیوں کو یہ سعادت ملی۔ عثمانیوں نے بھی اس سے عزت پائی۔ آج کل آلِ سعود کو یہ موقع ملا ہے اور یقیناً انہوں نے اس کی خدمت کا حق ادا کیا ہے۔ بیت اللہ کا معاملہ کسی ایک گروہ یا خاندان سے نہیں ہے۔ اسی طرح امام ِکعبہ کا بھی۔ جو لوگ انہیں کسی حکومت یا خاندان سے وابستہ کررہے ہیں، میرا خیال ہے کہ انہیں اپنے طرزِ عمل پر نظر ثانی کر نی چاہیے۔ یہ دین کی خدمت ہے اور نہ ہی اس سے سعودی عرب کی حکومت کو کوئی فائدہ ہوگا۔ 
یہ اسلامی شعائر کا سیاسی استعمال ہے، اس سے گریز ہی کیا جا نا چاہیے۔ میرے علم میں نہیں کہ سعودی حکومت نے خود اس طرح کی کوئی کوشش کی ہو۔ انہوں نے جب بھی اپنا مقدمہ پیش کیا،اس کی سیاسی دلیل دی ۔ سعودی عرب یمن تنازع کا مذہبی استدلال مقامی پیداوار ہے۔ شاید یہ زمین اس کے لیے زیادہ سازگار ہے کہ سیاسی مقاصد کے لیے مذہب کو استعمال کیا جائے۔ ایک دور میں یہاں غلافِ کعبہ کی بھی نمائش ہو ئی تھی۔ ملک بھر میں جلوس برآ مد ہوئے، جیسے آج امامِ کعبہ کے لیے ہو رہے ہیں۔ اُس وقت بھی یہ اعتراض اٹھا تھاکہ یہ مذہب کا سوئِ استعمال ہے۔ ممکن ہے منتظمین کی نظر میں ایسا نہ ہو لیکن اس کا نتیجہ یہی نکلا۔ آج بھی جب لوگوں کواسی طرح کے عنوانات سے جمع کیا جا ئے گا تو پھر سوال اٹھیں گے۔ مثال کے طور پر یہ بات سب کو معلوم ہے کہ بیت اللہ اور مسجدِ نبوی میں ایک نمازکا اجر ایک لاکھ اور پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔ یہ بات بھی ہم اس لیے مانتے ہیں کہ اللہ کے آخری رسولﷺ نے فرمائی اور دین کے معاملے میں حضورؐ یہ استحقاق رکھتے ہیں کہ اُن کا فرمان حجت سمجھا جائے۔کیا آپ نے کوئی ایسی بات ارشاد فرمائی کہ امام ِکعبہ کے پیچھے، بیت اللہ یا مسجدِ نبوی کے علاوہ بھی، اگر کہیں نماز پڑھی جائے گی تو اس کا اجر عام نماز سے زیادہ ہو گا؟ اگر نہیں تو پھر اس اہتما م کی وجہ کیا ہے؟ عقیدت قابلِ فہم ہے لیکن اسے دینی پیرائے میں بیان کر نے کا کیا وہی نتیجہ نہیں نکلے گا جس کی طرف سید نا عمر ؓکی بصیرت نے لوگوں کو متنبہ کیا تھا، جب حجرِ اسود کو مخاطب بنایا تھا یا اس درخت کو کٹوا دیا تھا جس کے سائے میں بیعتِ رضوان ہوئی تھی۔
عقیدت ومحبت کے باب میں اس خطے کی تاریخ،افراط و تفریط سے عبارت ہے۔ درست تر مفہوم میں، افراط سے۔ الطاف حسین حالی نے مسدس میں اس کا نقشہ کھینچا ہے۔ اللہ کے نیک بندوں سے ہماری محبت جس طرح اپنی حدوں سے باہر نکلتی ہے،اس کے مظاہر ہم آئے دن دیکھتے ہیں۔ عام آ دمی کی اس عقیدت و محبت کے سیاسی مقاصد کے لیے استعمال کا رجحان بھی اب عام ہے۔ ایک سیاست دان جب لاہور سے انتخابی مہم کا آغاز کر تا ہے تو پہلے داتا دربار پر حاضری دیتا ہے۔ داتاصاحب، پہلے اُسے یاد آتے ہیں نہ ان کی تعلیم۔ عمران خان ضمنی انتخابات کے لیے کراچی گئے تو پہلے حضرت عبداللہ شاہ غازیؒکے مزار پر چادر چڑھائی۔ وہ اس سے پہلے بھی کئی بار کراچی گئے لیکن کبھی اس کی ضرورت محسوس نہیں کی۔ اس دفعہ ظاہر ہے کہ مذہب کی سیاسی افادیت انہیں اس مزار تک لے گئی۔ اگر اس کامحرک بزرگوں سے محبت ہے تو یہ کام خاموشی سے کیا جا سکتا تھا۔
میں اسی جذبے کو امامِ کعبہ کے اس دور کے پس منظر میں کارفر ما دیکھ رہا ہوں۔ ایک سیاسی مقصد کیے لیے ہر مذہبی سیاسی گروہ انہیں مدعوکر رہا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اس میں بھی ہم اپنے مسلکی اور گروہی تشخص کو نہیں بھولے۔ ہمیں یہ توفیق نہیں ہو سکی کہ جس طرح بیتُ اللہ وحدتِ امت کی علامت ہے، اسی طرح امامِ کعبہ کو بھی اسی علامت کے طور پر لیا جاتا۔ وہ ایک جگہ نماز کی امامت کراتے اور سب وہاں جمع ہوتے۔ لوگوں کو پیغام ملتاکہ ہم اگربیت اللہ میں ایک امام کے پیچھے نماز پڑھتے ہیں تو یہ ہماری مجبوری نہیں ہوتی، ہم ہر جگہ ایک ہیں۔ عقیدت کا مارا عام مسلمان تو ان کے نام پر کھچا چلا آتا ہے لیکن مذہبی رہنما انہیں اپنے ہاں مدعوکرتے ہیں کہ ان کا گروہی تشخص قائم رہے۔ وحدتِ امت کا تصور عامۃ الناس میں تو مو جود ہے، افسوس کہ مذہبی رہنماؤں میں نہیں۔ 
امامِ کعبہ کی آ مد ہمارے سر آنکھوں پر۔ اہلِ مذہب سے بس یہی گزارش ہے کہ ان کی آ مد کو سیاسی و مادی مفادات سے آلودہ نہ کریں۔ میرا خیال ہے کہ ان کے دورے کا اہتمام وزارتِ خارجہ کی ذمہ داری ہو نا چاہیے۔ امامِ کعبہ نے اس دورے میں جوگفتگوکی ہے، وہ ان کے شایانِ شان تھی۔انہوں نے کسی تقریر یا گفتگو میںکہیں یہ تاثر نہیں دیا کہ وہ کسی حکومت کے نمائندہ ہیں یا کسی مسلک کے۔کاش یہ احساس ہمارے مذہبی رہنماؤں میں بھی پیدا ہو کہ وہ مذہب کو سیاسی اور معاشی مفادات سے الگ رکھیں۔ اللہ کی کتاب، اللہ کے رسول، اللہ کا گھر، یہ چند چیزیں ہی تو رہ گئی ہیں جو امت کے تصورکو زندہ رکھے ہوئے ہیں۔ خدا کے لیے انہیں اپنے سیاسی اور مادی مفادات سے دور رکھیے۔ 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved