تحریر : ظفر اقبال تاریخ اشاعت     27-04-2015

سرخیاں‘ متن اور ٹوٹا

اقتصادی راہداری کے خلاف سازش کامیاب 
نہیں ہونے دیں گے... نوازشریف 
وزیراعظم میاں نوازشریف نے کہا ہے کہ ''اقتصادی راہداری کے خلاف سازش کامیاب نہیں ہونے دیں گے‘‘ اور اس کے خلاف خواہ مخواہ شور مچایا جا رہا ہے‘ حالانکہ یہ جہاں سے بھی گزرے گی‘ ملک کے اندر ہی سے گزرے گی‘ ویسے بھی‘ جمہوریت کا زمانہ ہے اور یہ جہاں جہاں سے بھی گزرنا چاہے گی‘ اسے روکا نہیں جا سکتا اور ملک کی طرح اسے بھی اس کے حال پر چھوڑ دیا جائے گا‘ البتہ مولانا صاحب کے جو اس پر حسب معمول تحفظات ہیں وہ اپنی جگہ پر‘ لیکن اس کا کیا کیا جائے کہ ہمیں مولانا صاحب سے بھی زیادہ تحفظات ہیں کیونکہ سارا کچھ چینیوں نے خود کرنا ہے اور ہمیں خود اس میں سے ایک دمڑی بھی بچتی نظر نہیں آتی‘ کیسا زمانہ آ گیا ہے کہ ان حالات میں ہمیں خوش ہونے پر بھی مجبور کیا جا رہا ہے جبکہ اس سے زیادہ اندوہناک صورتِ حال اور کیا ہو سکتی ہے کہ کھائیں پئیں بھی کچھ نہیں بلکہ گلاس توڑنے کے بارہ آنے بھی دینے پڑ جائیں۔ آخر اس سے بڑی ناانصافی اور کیا ہو سکتی ہے‘ ہیں جی؟ آپ اگلے روز لندن میں میڈیا سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
2017ء میں بھی لوڈشیڈنگ ختم 
نہیں ہوگی... خواجہ آصف 
وفاقی وزیر پانی و بجلی خواجہ محمد آصف نے کہا ہے کہ ''2017ء میں بھی لوڈشیڈنگ ختم نہیں ہوگی‘‘ کیونکہ دیکھا یہی گیا ہے کہ ہم جس چیز کے بارے میں جتنے پُرعزم ہوں‘ وہ اتنی ہی زیادہ ناکامی سے دوچار ہوتی ہے اور جس سے ثابت ہوتا ہے کہ ساری خرابی پُرعزم ہونے ہی میں ہے‘ اوپر سے ہم نے اسے پہلی ترجیح بھی قرار دے دیا حالانکہ یہ بھی کھوتا ہی کھوہ میں ڈالنے والی بات تھی حالانکہ کھوتوں یعنی گدھوں کی ملک میں پہلے ہی کمی واقع ہو چکی ہے کیونکہ اب تو اس کا گوشت بھی کافی رغبت سے کھایا جانے لگا ہے‘ اس لیے ہم نے گدھوں کی افزائشِ نسل کی طرف خصوصی توجہ دینا شروع کردی ہے ورنہ لوگ گوشت ہی سے محروم ہو کر رہ جائیں گے اور اس لیے ہم نے اس پر احتیاطاً نہ تو پُرعزم ہونے کا دعویٰ کیا ہے اور نہ ہی اسے اپنی کوئی ترجیح قرار دیا ہے کیونکہ اپنی ترجیحات کا حشر ہم ان گنہگار آنکھوں سے پہلے ہی دیکھ چکے ہیں؛ تاہم یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ گدھے کا گوشت کھا کھا کر عوام کو کہیں دولتیاں جھاڑنے کی عادت ہی نہ پڑ جائے کیونکہ اس کی زد میں زیادہ تر ہم خود ہی آئیں گے۔ آپ اگلے روز اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کر رہے تھے۔ 
عوام نے دھرنا سیاست ختم 
کردی ہے... مشاہد اللہ خاں 
مسلم لیگ (ن) کے مرکزی رہنما اور سینیٹر مشاہد اللہ خاں نے کہا ہے کہ ''عوام نے دھرنا سیاست ختم کردی ہے‘‘ تاہم بہت احتیاط کی ضرورت ہے کیونکہ یہ مردہ کسی وقت بھی کفن پھاڑ کر باہر آ سکتا ہے اور ساری تدفین و تکفین دھری کی دھری رہ جائے گی‘ اس لیے اس پر زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں ہے‘ نیز اس کا ایک نقصان یہ ضرور ہوا ہے کہ اس سے حکومت کی گردن میں اس قدر نرمی آ گئی تھی کہ ان ارکان اسمبلی کی بھی خاطر مطلوب ہونے لگی اور ان سے باقاعدہ ان کے مسائل پوچھے جانے لگے جو وزیراعظم سے ملاقات کی خاطر کئی کئی ماہ سے لائن میں لگے کھڑے تھے‘ اور صاحبِ موصوف باقاعدہ قومی اسمبلی حتیٰ کہ سینیٹ میں بھی جانے لگ گئے ع 
کہ ہم نے انقلابِ چرخِ گرداں یوں بھی دیکھے ہیں 
انہوں نے کہا کہ ''عمران خان یُو ٹرن کے بادشاہ ہیں‘ حالانکہ ملک میں بادشاہت کا سارا چارج ماشاء اللہ‘ میاں صاحب کے پاس ہے اور بلاشرکتِ غیرے ہے۔ آپ اگلے روز پارلیمنٹ ہائوس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کر رہے تھے۔ 
طبقۂ وکلاء 
چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ مسٹر جسٹس منظور احمد ملک کا کہنا ہے کہ 97 فیصد وکلاء پروفیشنل ذہنیت رکھتے ہیں جبکہ صرف 3 فیصد کی وجہ سے سارا ماحول خراب ہو جاتا ہے۔ مجموعی طور پر طبقۂ وکلاء جمہوری اقدار اور بنیادی انسانی حقوق ہی کے علمبردار اور پاسدار ہیں اور رائے عامہ کی تعمیر میں ان کا اساسی کردار ہے جبکہ وہ کامیاب تحریکوں میں بھی اپنا انفرادی کردار ادا کرتے رہے ہیں جس کی جتنی بھی ستائش کی جائے‘ کم ہے اور اسی طبقے نے بڑے بڑے نامور سیاستدان بھی پیدا کیے جبکہ ملک کے بانی قائداعظم محمد علی جناح بھی اسی پروفیشن سے تعلق رکھتے تھے؛ تاہم انہی دنوں ایک افسوسناک خبر میڈیا پر گردش کر رہی ہے کہ صدر آصف علی زرداری نے اپنے گزشتہ عہدِ اقتدار میں اس طبقے کی تائید حاصل کرنے کے لیے بار ایسوسی ایشنوں کو تیرہ کروڑ روپے کی جو خطیر رقم مرحمت کی تھی‘ ایک اطلاع کے مطابق جب ان سے اس رقم کا حساب مانگا گیا کہ یہ روپیہ کہاں کہاں خرچ کیا گیا ہے تو اس حوالے سے کوئی بھی اطلاع دینے سے انکار کردیا گیا جبکہ یہ رقم زرداری صاحب نے اپنی جیب سے نہیں بلکہ سرکاری خزانے سے دی تھی جو عوام کے ادا کردہ ٹیکسوں ہی پر مشتمل تھی۔ وکلاء حضرات کو اس سلسلے میں اپنی پوزیشن واضح کرنی چاہیے۔ 
آج کا مطلع 
حدِ سفر مری کیا ہے تجھے بتا سکتا 
یہ بارِ دوش اگر اور بھی اٹھا سکتا 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved