حیوانات بھی کیا نصیب (یعنی بدنصیبی!) لے کر پیدا ہوئے ہیں۔ اُن کے لیے سُکون کا کوئی لمحہ مختص نہیں۔ انسان جب ایک دوسرے سے اُکتا جاتے ہیں تو حیوانات پر تحقیق کرنے لگتے ہیں! جو انسان ایک دوسرے کے سماجی تعلقات کو بہتر طور پر سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں وہ حیوانات کے سماجی ماحول کے حوالے سے دور کی کوڑیاں لانے کی کوشش کرتے ہیں!
چند جانوروں پر انسانوں کی خاص نظر کرم ہے۔ اِن میں چوہے اور بندر نمایاں ہیں۔ گائے، بھینس، بکری، گدھا اور گھوڑا تو وہ جانور ہیں جو انسانوں میں رہتے رہتے اب بہت حد تک انسانوں جیسے ہوگئے ہیں اور اب اُن پر مزید تحقیق کی ضرورت نہیں رہی! چوہے چونکہ بِلوں میں گھسے رہتے ہیں اور بندر آسانی سے ہاتھ نہیں آتے اِس لیے اُن پر تحقیق کے کوڑے اب تک برسائے جارہے ہیں۔ وہ اپنا ماحول ترک کرنے کو تیار نہیں اور ماہرین چاہتے ہیں کہ کسی نہ کسی طور اُنہیں اپنا بنالیں تاکہ سُکون کا سانس لیا جاسکے!
سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ بیٹی یا بیٹے کی پیدائش کے اثرات ماں کی شخصیت پر الگ الگ مرتب ہوتے ہیں۔ بیٹا پیدا ہوا ہو تو ماں میل جول بڑھادیتی ہے۔ اور اگر بیٹی پیدا ہو تو ماں میل جول کم کرکے ایک دائرے میں زندگی بسر کرنے لگتی ہے۔ امریکہ کی ڈیوک یونیورسٹی کی ایک پروفیسر نے یہ بات 40 سالہ تحقیق کے نتیجے میں بتائی ہے۔ یہ تحقیق تنزانیہ میں کی گئی۔ آپ سوچیں گے انسان تو امریکہ میں بستے ہیں، پھر تنزانیہ جانے کی کیا ضرورت تھی۔ ہوسکتا ہے کہ ڈیوک یونیورسٹی کی پروفیسر نے امریکہ کے انسانوں کو تحقیق کے قابل نہ سمجھا ہو۔ مگر خیر، تنزانیہ کے انسانوں کو بھی تحقیق کے قابل نہیں گردانا گیا۔ 40 سالہ تحقیق انسانوں پر نہیں، بندروں پر کی گئی ہے۔ اِس عرصے میں تحقیق سے جُڑے ہوئے افراد نے یہ دیکھا کہ جب بھی کسی بندریا کے ہاں بندر پیدا ہوتا ہے، وہ بہت خوش ہوتی ہے اور اپنی برادری میں رابطے بڑھا دیتی ہے۔
تحقیق تنزانیہ میں کی گئی ہے اور وہ بھی بندروں پر مگر اِس تحقیق سے بُو ہندوستانی معاشرے کی آرہی ہے۔ ایسا تو ہندوستانی (یعنی ہندو) معاشرے ہی میں ہوتا ہے کہ لڑکی پیدا ہو تو ماں سہم جاتی ہے اور زیادہ خوش نہیں ہوتی۔ اور لڑکا پیدا ہو تو پورے خاندان میں خوشیاں منائی جاتی ہیں۔ ہوسکتا ہے ہندوستانی معاشرے کی یہ روش تنزانیہ کے بندروں میں بھی در آئی ہو ورنہ حیوانات سے ایسی حماقت کی اُمید رکھنی تو نہیں چاہیے!
امریکی ماہرین نے 40 سال تک تنزانیہ کے بندروں پر تحقیق کی تو چند نتائج اخذ کئے۔ اگر اُنہوں نے اِس دوران ہندوستان کے بندروں پر بھی کچھ محنت کی ہوتی تو دُنیا کو مزید بہت کچھ بتانے کی پوزیشن میں ہوتے!
امریکہ ہی سے خبر آئی ہے کہ نیو یارک کی سپریم کورٹ فیصلہ کرے گی کہ چمپانزی بندر ہوتے ہیں یا انسان۔ یہ بھی خوب رہی۔ ہم آج تک یہ فیصلہ نہیں کر پائے ہیں کہ امریکی کون سے درجے کے انسان ہیں! ہمارے ہاں بعض لوگ امریکی پالیسیوں کی روشنی میں امریکیوں کو انسان ماننے سے انکار کردیتے ہیں۔ ایسے میں کسی امریکی عدالت کو کیا حق پہنچتا ہے کہ چمپانزی کے بندر یا انسان ہونے کے بارے میں حتمی رائے دے۔
قصہ یہ ہے کہ نیو یارک اسٹیٹ سپریم کورٹ میں حیوانات کے حقوق کے پاسبانوں نے درخواست دائر کی ہے کہ نیو یارک اسٹیٹ یونیورسٹی میں قید رکھے گئے دو چمپانزی چھوڑ دیئے جائیں۔ درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ چمپانزی دیگر حیوانات کے مقابلے میں واضح طور پر منفرد شخصیت رکھتے ہیں اِس لیے اُنہیں انسانوں کی درجہ بندی میں رکھتے ہوئے رہائی کا حکم دیا جائے۔
یہ بھی خوب رہی۔ عدالت سے استدعا کی جارہی ہے کہ چمپانزی کو انسانوں کے درجے میں رکھا جائے۔ اور چونکہ کسی بھی انسان کو بلا جواز قید میں نہیں رکھا جاسکتا ہے اس لیے چمپانزی رہا کرنے کی بھی استدعا کی گئی ہے۔ چپمانزی اب تک اپنی فطرت کے مطابق زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اُنہیں جس طور جینے کے لیے اِس دنیا میں بھیجا گیا ہے اُسی طور جی رہے ہیں۔ ایسے میں اُنہیں اِنسانوں سے مماثل کیسے قرار دیا جاسکتا ہے! امریکہ میں حیوانی حقوق کے علم برداروں نے یہ درخواست دائر کرنے سے قبل دونوں چمپانزیز سے پوچھا تھا؟ چار ٹانگوں پر چلنے والے اِن بے زبانوں سے پوچھ تو لینا چاہیے تھا کہ اُنہیں دو پیروں پر چلنے والوں کے درجے میں رکھا جانا پسند ہے بھی یا نہیں! امریکی معاشرے میں جو کچھ ہوتا ہے وہ یہ دونوں چمپانزی بھی دیکھ چکے ہوں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ امریکی معاشرے کی خصوصیات کو دیکھتے ہوئے یہ دونوں چمپانزی کبھی پسند نہیں کریں گے کہ اُنہیں انسانوں کا درجہ دے کر چھوڑا جائے۔ چھوڑا جانا وہ ضرور پسند کریں گے مگر اپنی اصل حیثیت میں۔
آج کے انسان نے ایسا کون سے کار ہائے نمایاں انجام دیئے ہیں کہ ہم حیوانوں کو انسانوں کا درجہ دے کر اُن کی عزت بڑھائیں؟ حیوانات کو اور کچھ نہیں تو اِس بات کا اطمینان تو حاصل ہے کہ وہ آج بھی چند اُصولوں کے تحت زندگی بسر کر رہے ہیں۔ اِنسان ہزاروں سال سے علم و فضل کی بنیاد پر اُصولوں کی بحث کرتا آیا ہے اور کردار کی بلندی کے دعوے بھی کرتا رہا ہے مگر حقیقت یہ ہے کہ اُس کا کوئی اُصول ہے نہ اُس کا کردار بلند ہے۔
حیوانات کی اپنی دُنیا ہے۔ وہ اُسی میں خوش ہیں۔ یہ انسان ہی ہے جو اُن کے ماحول میں داخل ہوکر اُن کے آرام اور سُکون غارت کرتا ہے۔ تحقیق کے نام پر حیوانات کے شب و روز پر نظر رکھی جاتی ہے اور یُوں اُن کے ماحول کا سارا سُکون مِٹّی میں مل جاتا ہے۔
حیوانات کو اللہ نے زبان نہیں دی ورنہ وہ مل کر یہ فریاد ضرور کرتے کہ ہمیں بخش دو اور اگر تحقیق کرنی ہے تو اُن اِنسانی معاشروں پر کرو جو آج بھی ہم حیوانوں سے نچلے درجے کی زندگی بسر کر رہے ہیں!
ایک زمانے سے ماہرین کی نظر چمپانزی اور بن مانس پر ہے۔ تحقیق کے بہت سے اندھے تو بن مانس یا گوریلا کو ابتدائی انسان قرار دینے سے بھی گریز نہیں کرتے۔ سُنا ہے ایسی کوئی بھی بات سُن کر گوریلے بھڑک اُٹھتے ہیں!
گوریلے تو آسانی سے قابو نہیں آتے اِس لیے تان ٹوٹتی ہے چمپانزی پر۔ یہ بے چارے چھوٹی جسامت کے ہوتے ہیں اِس لیے آسانی سے پکڑ لیے جاتے ہیں۔ اور اِن کا رہن سہن بھی کچھ کچھ انسانوں جیسا ہے اِس لیے ماہرین کو اِن میں زیادہ ''اپنائیت‘‘ محسوس ہوتی ہے اور یہی اِن بے زبان جانوروں کی بدنصیبی ہے! اِسی اپنائیت نے تو اِنہیں آج تک تحقیق کا موضوع بنا رکھا ہے اور اِن کے بارے میں ماہرین اٹکل کے گھوڑے دوڑاتے رہتے ہیں۔ اِن معصوم جانوروں کو کسی نہ کسی طرح انسانی کمیونٹی میں شامل کرنے کی تگ و دَو بھرپور جوش و خروش سے جاری ہے۔ حد یہ ہے کہ معاملہ کبھی کبھی تحقیق کی وادی سے نکل کر عدالت کے پلیٹ فارم تک جا پہنچتا ہے!
ہم حیران ہیں کہ امریکی جج پوری غیر جانبداری سے فیصلہ دے بھی سکیں گے۔ امریکہ میں اب انسانوں سے مساوی سلوک ممکن نہیں رہا تو حیوانوں کے حقوق اور جذبات کا خیال کون رکھے گا! امریکی پالیسیوں کی نوعیت اور معاشرے کا رُخ دیکھتے ہوئے اب کسی پرائے معاشرے کے انسان بھی انصاف کی توقع نہیں رکھ سکتے۔ ایسے میں دو چمپانزی کس طور انصاف کی منزل تک پہنچائے جاسکیں گے؟
خیر، معاملہ تحقیق یا ہو حیثیت کے تعین کا، ہم امریکیوں سے استدعا کرتے ہیں کہ فی الحال جانوروں اور بالخصوص بندروں کو بخش دیں اور آپس کے معاملات میں انصاف یقینی بنانے پر خاطر خواہ توجہ دیں۔ امریکیوں کا ایسا کرنا بھی حیوانات کی بہت بڑی خدمت کے مترادف ہوگا! جب آپس کے معاملات درست کرلیے جائیں تب یہ طے کرنے کی باری آئے گی کہ چمپانزی انسان ہوتا ہے یا حیوان۔ اور ایسا کرتے وقت بھی، انصاف کے بنیادی تقاضے کے طور پر، چمپانزی کی رائے جاننا بہت ضروری ہوگا!