افغانستان کے صدر اشرف غنی احمد زئی بھارت کے دو روزہ دورے پر 27اپریل کو نئی دہلی پہنچ رہے ہیں۔ یہ ان کا بھارت کا پہلا سرکاری دورہ ہو گا۔ ان کے دورہ کے آغاز سے تین ہفتے قبل نریندر مودی نے اپنی پر خلوص دوستی کا'' ثبوت‘‘ دینے کیلئے ٹوکن کے طور پر تین لائٹ ہیلی کاپٹر افغانستان بھجوا ئے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تین لائٹ ہیلی کاپٹر 2013ء میں حامد کرزئی کے افغانستان سے کئے جانے والے اس معاہدے کے تین سال بعد بھیجے گئے ہیں جس میں فیلڈ گنز اور ٹینک بھی شامل تھے۔ ہو سکتا ہے کہ اس شاپنگ لسٹ کی جانب دھیان ہی نہ جاتا اور بھارت یہ تین ہیلی کاپٹر بھی افغانستان کو نہ دیتا لیکن اشرف غنی کے صدر منتخب ہو نے کے بعد خطے میں چین ،پاکستان اور افغانستان کی ابھرنے والی ممکنہ مثلث نے بھارت کے ہاتھ پائوں پھلا دیئے ہیں۔افغان عوام کو بھارت کی جانب سے تین سال سے روکے جانے والے اس ٹوکن کے جھانسے سے بچنا ہو گا کیونکہ اگر وہ واقعی ان سے مخلص ہوتا تو تین سال قبل کئے جانے والے فوجی معاہدے کو پورا کرنے میں اسے اب تک کیا رکا وٹ تھی؟۔ افغان عوام کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ ایسا ملک جو انہی کے ملک میں بیٹھ کر پاکستان اور چین میں دہشت گردی کراتا ہے‘ اس سے بھارت کا تو کچھ نہیں بگڑتا لیکن بدلے میں ان کے لوگ اور ان کی سر زمین متحارب گروپوں کی باہمی بارودی جنگ کی نذر ہو جا تی ہے‘ اس لئے افغان صدر کی یہی خواہش ہے کہ بھارت اپنی دوستی کو اچھے تعلقات تک ہی محدود رکھے۔
حامد کرزئی کے بعد اشرف غنی نے آتے ہی پاکستان سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے مدد کی درخواست کی تو دوسری جانب چین سے افغانستان میں امن کی ضمانت اور بھر پور سرمایہ کاری کیلئے مدد مانگی۔ اگر ایسا ہو جاتا ہے تو اس سے بھارت خطے میں تنہائی کا شکار ہو کر رہ جائے گا ۔بھارت کو دوسری سب سے بڑی پریشانی یہ بھی ہو رہی ہے کہ وہ فوجی معاہدے جو کرزئی نے ان سے کئے تھے اشرف غنی ان کی جانب توجہ ہی نہیں دے رہے۔ افغان صدر اشرف غنی کے دورہ چین و پاکستان سے خطے میں ابھرنے والے اثرات سے بھارت کو خبردار کرتے ہوئے بھارت کی ایکسٹرنل خفیہ ایجنسی کے سابق سربراہ وکرم سودھ‘ جسے سائوتھ ایشیا سٹریٹجسٹ ایکسپرٹ مانا جاتا ہے‘ کا کہناہے کہ چین کا ہمارے مغرب میں قدم جمانا معمولی نہ سمجھا جائے‘ اس سے چین کا مقصد پاکستان کے راستے بحیرۂ عرب کے پانیوں کی جانب بڑھنا ہے اورچین کے صدر کے دورۂ پاکستان کے دوران46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا آغاز سائوتھ ایشیا میں اس کی مستقل موجودگی کے برابر ہو گا کیونکہ چین تو کبھی نہیں چاہے گا کہ کسی بھی وجہ سے اس کی بھاری سرمایہ کاری کو نقصان پہنچے۔
نریندر مودی حکومت اشرف غنی کے دورۂ بھارت میں بھارت، افغانستان اور ایران تجارتی اور راہداری معاہدہ‘ جو ایران کی چاہ بہار بندر گاہ کا مرکزی نقطہ ہے‘ پر زور دے گی۔ بھارت کو Landlocked افغانستان اور وہاں سے سنٹرل ایشیا، روس اور یورپ تک رسائی کیلئے پاکستان کا سہارا لینا پڑے گا جو اسے کبھی بھی گوارہ نہیں ہو گا۔ ایران پاکستان گیس پائپ لائن کی مثال سب کے سامنے ہے۔ اب اس کے سامنے ایران کا سمندر ہی رہ جاتا ہے یا Northwards by Land۔ اور اس کے حصول کیلئے نریندر مودی افغان صدر سے ملاقات کرتے وقت اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوی پلیٹ میں افغانستان کی مدد کیلئے 2 بلین ڈالر سجائے بیٹھے ہیں۔
اس وقت حالات یہ ہیں کہ ایران کی چاہ بہار بندرگاہ ایران کیلئے اتنی اہمیت نہیں رکھتی جتنی بھارت کیلئے اہم ہو چکی ہے کیونکہ یہیں سے بھارت جب چاہے گا افغانستان، روس ، سنٹرل ایشیا، شمالی یورپ اور ترکی تک پہنچ سکے گا۔۔۔۔اس لئے پاکستان کو ایران سے یمن کے معاملے میں تعلقات بگاڑتے وقت اس ممکنہ خطرے کو ضرور سامنے رکھنا ہو گا کیونکہ یمن کے حالات تو آج نہیں تو کل درست ہو سکتے ہیں لیکن ہم چاہ بہار اور بندر عباس پورٹ والے ایران کو ہمیشہ کیلئے تو دشمن نہیں بنا سکتے!۔ بریگیڈئر گرمیت کنول جو بھارت کی لینڈ وار سٹڈیز کے سابق سربراہ ہیں‘ اور دیگرماہرین کا کہنا ہے کہ کابل اور اسلام آباد کی دوستی عارضی ثابت ہو گی اور کابل دوبارہ نئی دہلی سے پہلے ہی کی طرح آن ملے گا۔ شاید یہی وجہ ہے کہ بھارت نے اپنی پروردہ تحریک طالبان پاکستان کے ذریعے افغانستان میں آئے روز خود کش حملوں اور بم دھماکوں کی ایک باقاعدہ سیریل شروع کروا رکھی ہے تاکہ دونوں ملکوں میں غلط فہمیوں اور بد گمانیوں کو ایک بار پھر ہوا دی جا سکے۔ ان دھماکوں میں بھارت کے ملوث ہونے کے واضح اور ناقابل تردید ثبوت موجود ہیں‘ جنہیں آپ ابھی ملاحظہ کر یں گے۔
میں نے اپنے ایک مضمون میں جلال آباد کے بینک کے باہر تنخواہوں کی وصولی کیلئے قطاروں میں کھڑے سول اور فوجی ملازمین پر خود کش حملے میں بھارتی وزیر اعظم نریندر کے سکیورٹی ایڈوائزر کے ملوث ہونے کا جو ذکر کیا تھا‘ اس پر امریکہ اور کینیڈا سے بہت سے لوگوں کا کہنا ہے کہ پاکستانی ہر دھماکے کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہی کیوں نکال لاتے ہیں۔ ایسے سب حضرات سے گزارش ہے کہ وہ کبھی بھارت سرکار سے پوچھنے کی زحمت تو کریںکہ ''عاصم عمر‘‘ کون ہے؟۔بھارت کبھی بھی عاصم عمر کی اصلیت نہیں بتائے گا کیونکہ اس کا تعلق بھارت کے صوبے اتر پردیش سے ہے۔ وہ بھارتی ایجنسیوں کی مدد سے1990ء میں پاکستان میں داخل ہوااور پھر کچھ عرصہ بعد ہی اسے القاعدہ کے سائوتھ ایشیا معاملات کا چیف بنا دیا گیا اور... اپنے پاکستانی بھائیوں کی اطلاع کیلئے عرض ہے کہ عاصم
عمر وہ شخص ہے جس نے کراچی ڈاک یارڈ میں پاکستان کے بحری جنگی جہازPNS Zulfiqarکو ہائی جیک کرنے کی کوشش کی تھی جسے ناکام بنا دیا گیا۔اس نے پاکستان میں بھارتی فوج کی کمانڈو خواتین کے ذریعے AQIS فورس جسے شاہین فورس کا نام دیا گیا تھا‘ کی بنیاد رکھی‘ جس نے لال مسجد میں پاکستان اور اس کی فوج کے خلاف کارنامے انجام دیئے۔ بھارتی صوبے اتر پردیش کا یہی عاصم عمر بعد میں تحریک طالبان کے ساتھ وابستہ ہو گیا اور آج کل افغانستان میں داعش کا سربراہ بن کر تحریک طالبان‘ جس نے خود کو داعش کے ساتھ منسلک کر لیا ہے‘ سے افغان عوام پر پے در پے خود کش حملے کروا رہا ہے۔
صدر منتخب ہونے سے اب تک افغان صدر اشرف غنی کی سوچ سے یہ ظاہر ہو چکا ہے کہ انہیں اپنے ملک کی ترقی اور عوام کی خوش حالی سب سے مقدم ہے اور وہ کبھی یہ پسند نہیں کریں گے کہ ان کا ملک ان کے پیشرو حامد کرزئی کی طرح پاکستان کے خلاف بھارت کی پراکسی وار کا گڑھ بن جائے ۔شاید یہی وجہ ہے کہ دنیا بھر کے سفارتی حلقے دعوے کر رہے ہیں کہ اپنے پہلے دورۂ بھارت کے دوران اشرف غنی بھارت سے فوجی امداد نہیں بلکہ ان کے ملک میں امن کو برقرار رکھنے کی درخواست کریں گے اور ان کے دورۂ بھارت سے تین ہفتے قبل تین سال پہلے کئے جانے والے معاہدے کے نتیجے میں ٹوکن کے طور پر ملنے والے بغیر فالتو پرزوں کے لائٹ ہیلی کاپٹروں کی حقیقت کو بخوبی سمجھیں گے... کیونکہ وزارت عقلمندی یہی کہتی ہے کہ 'ٹوکن سے ذرا بچ کے ‘!!