تحریر : حبیب اکرم تاریخ اشاعت     27-04-2015

شکریہ سپریم کورٹ، بہت بہت شکریہ!

مدینہ منورہ میں آمد کے بعد حضور اکرم ﷺ نے ایک ریاست کی تشکیل کے لیے جو اولین اقدامات کیے ان میں سے ایک قبائل، محلوں ، گڑھیوں اور اردگرد کی دیہاتی آبادیوں کی شیرازہ بندی تھا۔ اس مقصد کے لیے آپ ﷺ نے عریف کا نظام نافذ کیا۔ اس نظام کے تحت ہر دس افراد پر ایک شخص کو سربراہ مقرر کیا جسے عریف کہا جاتا تھااور ہر دس عریفوں پر ایک نقیب لگادیا گیا۔ یہ دونوں مناصب ایسے اشخاص کے سپرد کیے گئے جنہیں عام آدمی کا اعتماد حاصل تھا اور ان کی معاملہ فہمی بھی مسلمہ تھی۔ عریف اور نقیب اپنے اپنے دائرہ کار میں آنے والے لوگوں کے درمیان تنازعات حل کراتے، ان کے عمومی مسائل سے باخبر رہتے اور جہاں کہیں اجتماع کی ضرورت ہوتی وہاں اپنے لوگوں کو لے کر پہنچتے۔ یہ تنظیم بوقتِ ضرورت بغیر کسی تاخیر کے ایک فوجی قوت بن جاتی جبکہ عام حالات میں معاشرے کے طے کردہ اجتماعی اہداف کے حصول کے لیے مصروفِ عمل رہتی۔ نبی آخر الزماں ﷺ کا قائم کردہ یہ نظام مقامی حکومت ِ خود اختیاری کی جدید ترین شکل تھا جو مسلسل پھیلتی ہوئی مسلم تہذیب کے ساتھ چلتا ہوا دنیا کے ہر کونے میں پہنچا۔ بنوامیہ نے اسے قائم رکھا، بنو عباس نے اسے چھیڑنے کی کوشش نہیں کی۔ حتیٰ کہ خلافت عثمانیہ نے اسی نظام کے ذریعے عرب سے یورپ تک پھیلی ہوئی سلطنت کو ایک لڑی میں پروئے رکھا۔ ترکی زبان میں کسی ایک شہر کے عامل کو شریف کہا جاتا تھا اور یہ شریف یورپ میں پہنچ کر شیرف (بعض محققین شیرف کا اصل ترکی کی بجائے لاطینی زبان کو قرار دیتے ہیں) بن گیا ۔ اس وقت یورپ اور امریکہ میں شیرف کا یہ نظام اتنا مؤثر ہے کہ اس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ''آپ ایک بار پیدا ہونے کی زحمت گوارا کرلیں، آپ کی موت تک کے معاملات شیرف سنبھال لے گاـ‘‘۔ نچلی ترین سطح تک اختیارات کی تقسیم رسول اللہ ﷺ کا وضع کردہ ایسا اصول ہے جس کی پیروی آج دنیا بھر میں ہورہی ہے اور کرۂ ارض پر شاید ہی ایسا کوئی عبقری ہو جو اس اصول کی افادیت کا قائل نہ ہو۔ کوئی ایسا ماہرِ سیاسیات بھی آج تک پیدا نہیں ہوا جو مقامی حکومت کے چودہ سو سال پہلے بنائے گئے بنیادی اصولوں پر کوئی اضافہ یا ان میں ترمیم کی گنجائش تلاش کرسکا ہو۔ 
پاکستان شاید دنیا کا واحد ملک ہے جہاں کے اکثر ریاستی ادارے اور سیاسی جماعتیں مقامی حکومتوں یا بلدیاتی نظام کی افادیت پر شکوک و شبہات کا زبانی یا عملی اظہار کرتے نظر آتے ہیں۔ ایک مسلمان ملک ہونے کے ناتے یہاں تو فخرِکائنات ﷺ کا بنایا ہوا عریف و نقیب کا نظام اپنی اصل اصطلاحات اور شکل کے ساتھ نافذ ہونا چاہیے تھا لیکن پاکستانی تاریخ سے اخذ کردہ غلط سلط نتائج کے بنیاد پر بلدیاتی انتخاب اور فوجی آمریت کو جوڑ کر اس سے روگردانی کا راستہ اختیار کیا گیا۔ 2008ء کے بعد آنے والے جمہوری دور نے ثابت کیا کہ ہمارے ملک کی سیاسی جماعتیں در حقیقت بلدیاتی ادارے سرے سے قائم ہی نہیں کرنا چاہتیں کیونکہ اس طرح ان کے اپنے احتساب کا ایک ایسا نظام قائم ہوجاتا ہے جس کی موجودگی میں ان کے لیے کرپشن کرنا بہت مشکل 
ہوجائے گا۔ اپنے اسی ''حقِ بدعنوانی‘‘ کی حفاظت کے لیے ان جماعتوں نے اٹھارہویں ترمیم کے ذریعے وفاق کی تو کمر توڑ کر رکھ دی لیکن بلدیاتی قوانین بناتے ہوئے ان کے ہاتھوں اور زبانوں پر چھالے پڑے رہے۔ صدر کو حاصل قانونی تحفظ، وزیراعظم کے آئینی حقوق اور آرٹیکل 6پر عمل درآمد کے ''حلق شگاف‘‘ نعرے بلند کرنے والوں کو اسی دستور کا آرٹیکل 140اے کبھی نظر نہیں آیا جو تمام صوبائی حکومتوں کو بلدیاتی اداروں کے قیام کا پابند بناتا ہے۔ عوامی دباؤ، میڈیا کے دباؤ اور عدلیہ کے دباؤ سے مجبور ہوکر صوبائی اسمبلیوں نے الٹے سیدھے بلدیاتی قوانین کے ذریعے کمزور سے ادارے بنانے کا عندیہ تو دیا لیکن انتخابات سے گریز ہی کیے رکھا۔ جمہوری حکومتوں کی آڑ میں کنٹونمنٹ بورڈز نے بھی انتخابات کا سلسلہ منقطع کردیا اور یوں کینٹ کے انتظامات میں وہاں کے رہائشیوں کی آواز ختم کردی گئی۔ الل ٹپ قواعد، غریب آبادیوں کو نظر انداز کرنے کا رویہ اور بے تکے ٹیکس کینٹ میں رہنے والی سویلین آباد کا مقدر بنے رہے۔ بلدیاتی اداروں اور کنٹونمنٹ بورڈز میں یہ صورتحال چلتی رہتی اگر سپریم کورٹ بیچ میں نہ آجاتی۔ 
اس طالبِ علم کی سوچی سمجھی رائے ہے کہ انتظامی معاملات میں عدلیہ کو اپنا کردا رمحدود رکھنا چاہیے اوراسے اپنے احکامات کے ذریعے معاشرے کو کسی مخصوص نہج پر استوار کرنے کی کوشش سے بھی اجتناب کرنا چاہیے۔ اسی سوچ کے تحت دستور کے آرٹیکل 140اے کی تشریح اور پھر اس پر عملدرآمد کے لیے حکومتوں پر عدلیہ کا دباؤ کبھی کبھی زائد از ضرورت بھی محسوس ہوا‘ لیکن اب کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات ہوچکے ہیں تو ان کے نتائج دیکھ کر سپریم کورٹ کے معزز جج صاحبان کی بیدار مغزی اور پاکستانی معاشرے کو سمجھنے کی صلاحیت کی داد دینا پڑتی ہے۔ ان بیالیس بورڈز کے انتخابات کے نتائج پر ایک نظر ڈالیں تو پتا چلتا ہے کہ پاکستان بھر کی ہر سیاسی جماعت نے اپنی اپنی ہمت کے مطابق ان میں حصہ لیا اور اپنی اپنی مقبولیت کے تناسب سے نشستیں حاصل کرلیں۔ آج پاکستانی سیاست میں شریک کوئی سیاسی جماعت یہ نہیں کہہ سکتی کہ اس کے لیے اس نظام میں آگے بڑھنے کا کوئی موقع نہیں ہے۔ 25اپریل کا دن پاکستانی جمہوریت میں ایک یادگار بن گیا ہے کہ اس دن ہماری عدلیہ کے طفیل سیاسی جماعتوں کو وہاں تک بھی رسائی مل گئی جہاں تک ان کی فہم نے کام بھی نہیں کیا تھا۔اب سیاسی جماعتوں کے درمیان نچلی ترین سطح پر ایسا صحت مند مقابلہ شروع ہوا ہے جس میں جیت صرف اور صرف عوام کے حصے میں آئے گی۔ 
کنٹونمنٹ بورڈز کے بعد ملک بھر میں بلدیاتی اداروں کے انتخابات کا مرحلہ درپیش ہے۔ پنجاب میں کینٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات میں مسلم لیگ (ن) کی بہتر کارکردگی شاید بلدیاتی اداروں کے بارے میں اس کا حجاب دور کردے ۔ یہ نتائج پاکستان پیپلزپارٹی کے لیے بھی خوش کن ہوں گے کہ وہ اگر اب بھی کمرِ ہمت کس لے تو لوگوں کے دل جیت سکتی ہے، ان میں جماعت اسلامی کے لیے حوصلے کا پیغام ہے کہ وہ بغیر کسی مدد کے چھے سات نشستیں جیت سکتی ہے تو اپنی کارکردگی کے زور پر آئندہ یہ تعداد بڑھا بھی سکتی ہے۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات نے تحریک انصاف کو سمجھا دیا ہے کہ وہ اگر دھاندلی دھاندلی کی دہائی دینے کی بجائے اپنے کام پر توجہ دیتی تو شاید آج ملک کی سب سے بڑی جماعت بن کر ابھرتی۔ آزاد امیدواروں کی ایک بڑی تعداد کا منتخب ہونا سیاسی جماعتوں کے لیے ایک پیغام ہے کہ پاکستان کے بہت سے لوگ ابھی ان پر پوری طرح اعتماد کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ کنٹونمنٹ بورڈز کے انتخابات پاکستان کی فوج کی طرف سے بھی ایک اعلان ہیں کہ جمہوری اداروں کی تشکیل و ترویج میں رکاوٹ وہ نہیں بلکہ خود سیاسی جماعتوں کے غیر جمہوری رویے ہیں۔ ان انتخابات نے بلدیاتی انتخابات کا انعقاد یقینی بنا دیا ہے جن کے ذریعے حکومت و ریاست اب عام آدمی کی دہلیزپر پہنچنے کو ہے، اللہ کے آخری رسول ﷺ کا دیا ہوا نظام ایک بار پھر بروئے کار آنے کو ہے، پاکستان کی جمہوریت اپنا سفر مکمل کرنے کو ہے۔ اور بے شک یہ سب کچھ صرف سپریم کورٹ کی وجہ سے ممکن ہوا۔ شکریہ سپریم کورٹ، بہت بہت شکریہ! 

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved